کیا آپ کے رابطے نیوٹرلز سے بحال ہوگئے ہیں؟ کیا ہم امید کرلیں کہ اس ملک کے فیصلے اب بند کمروں میں نہیں ہوں گے؟ کیا چیف آف آرمی سٹاف کو توسیع دینا آپ کی غلطی تھی؟ کیا نومبر میں ہونیوالی ایک تقرری کی وجہ سے ملک کا نظام جامد ہے؟ کیا حامد میر، اسد طور، نورانی اور دوسرے صحافیوں کی آوازیں آپ نے بند کیں؟ کیا آپ کو نادیدہ قوتیں نااہل کرنا چاہتی ہیں؟ آپ کی جارحانہ پالیسی کیوں ختم ہوگئی ہے؟ ایسے بے شمار سوالات نے عمران خان کو گھیر لیا، یہ کوئی مین سٹریم میڈیا کے صحافیوں کی پریس کانفرنس ہرگز نہ تھی بلکہ ڈیجیٹل میڈیا کے نامور وی لاگرز کے ساتھ عمران خان کی ملاقات کے دوران کیے گئے سوالات کا خلاصہ تھا۔
گزشتہ روز عمران خان نے لاہور، اسلام آباد اور دیگر شہروں سے آئے یوٹیوبرز اور ڈیجیٹل میڈیا کے صحافیوں سے ملاقات کی، تقریباً70سے 100کے درمیان آنے والے نوجوانوں سے عمران خان کی ملاقات ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہی اور اس دوران نیوٹرلزاور انتخابات ہی سوالات اور گفتگو کا مرکز رہے۔نوجوانوں کے سوالات کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ میں چاہوں تو ایک دن میں اس امپورٹڈحکومت کا تختہ گول کرسکتا ہوں لیکن میں خون خرابہ اور انتشار نہیں چاہتا، میں معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنا چاہتا ہوں، انتخابات ہی پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کا واحد حل ہیں، نیوٹرلز سے رابطہ رہتا ہے لیکن بس اتنا ہی میں ان سے کہتا ہوں کہ انتخابات کروائیں اور وہ اس نقطے پر آنے کو ابھی تیار نہیں ہیں، تاہم حل یہی ہے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔
عمران خان نے انکشاف کیا کہ 25مئی کے حوالے سے ہم بھرپور ایکشن لینا چاہتے ہیں لیکن چڑیا گھر سے کالیں آنا شروع ہوجاتی ہیں، یوں عمران خان نے لاہور کے آئی ایس آئی ہیڈکوارٹر کو نیا نام دے دیا، غالباً کیونکہ وہ چڑیا گھر کے قریب واقع ہے تو عمران خان نے اشارتاً بتایا کہ پنجاب کی گورننس میں مداخلت ہورہی ہے۔ عمران خان نے جب پوچھا گیا کہ کیا ایک تقرری کی وجہ سے یہ تماشا ہورہا ہے تو انہوں نے کہا کہ ایک تقرری کی وجہ سے اگر یہ ہورہا ہے جس کے اشارے مل رہے ہیں اور اطلاعات ہیں کہ نوازشریف اپنی مرضی کی تقرری چاہتے ہیں تو بدقسمتی ہے، اس ملک میں اس سے برا کیا ہوگا؟ انہوں نے دوبارہ کہا کہ یہ تقرری ایک روزمرہ کے کاموں کی طرح ہوجانی چاہیے لیکن طوفان برپا ہوجاتا ہے۔
عمران خان نے اپنی نااہلی سے متعلق بتایا کہ امپورٹڈ حکومت الٹا بھی لٹک جائے انہیں نااہل نہیں کرسکتی۔ توشہ خانہ ریفرنس سے کچھ نہیں نکلے گا ساتھ ہی انہوں نے مطالبہ کیا کہ اب چونکہ یہ معاملہ شروع ہوگیا ہے تو یہیں نہیں رکے گا بلکہ اس سے آگے بڑھے گا۔ ممنوعہ فنڈنگ کیس کے بارے میں کہتے ہیں کہ فارن فنڈنگ ثابت نہ ہوسکی اور اگر ہمارے اکاونٹس میں ممنوعہ فنڈنگ ہوئی ہے تو جتنی رقم آئی ہے زیادہ سے زیادہ وہ ضبط ہوجائے گی، اس کیس میں اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ عمران خان سے جب پوچھا گیا کہ آپ کے دور میں صحافی اٹھائے جاتے رہے تو آپ نے جواب دیا کہ مجھے علم نہیں ہوتا تھا، مجھے جب پتہ چلتا میں انہیں بازیاب کرانے کا حکم دیتا، یہ احکامات کہیں اور سے آتے رہے۔ اپنی جدوجہد کے حتمی مرحلے سے متعلق انہوں نے کہا کہ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہورہے ہیں، جلد آپ کو نتائج سامنے آتے ہوئے دکھائی دیں گے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے عمران خان نے کہا کہ گزشتہ چار سال ہائیکورٹ کا سٹے آرڈر رکاوٹ بنا رہا اب اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے، آئندہ انتخابات کی تیاریوں کے حوالے سے راقم نے سوال کیا کہ ٹکٹ دینے کیلئے میکنزم کیا ہوگا تو عمران خان نے کہا کہ2018میں اس حوالے سے سنگین غلطیاں ہوئیں اب وہ غلطیاں نہیں دہرائیں گے، اس سارے عمل کی میں خود نگرانی کروں گا۔ عمران خان کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک کچھ طبقات کی جانب سے چلائی جانیوالی مہم کے بارے میں انہوں نے کہا کہ میرے نزدیک ملعون سلمان رشدی فتنہ ہے اور گھٹیا انسان ہے، اس نے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات مجروع کیے لیکن کسی کوقانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے، اس سے دین دشمن طاقتوں کو اسلام کو بدنام کرنے کا جواز ملتا ہے۔
عمران خان مطمئن دکھائی دیئے، اور ان کے انداز سے لگ رہا تھا کہ آئندہ آنے والے دنوں میں ان کیلئے اچھی خبریں ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین نے سوشل میڈیا کو ہمیشہ اہمیت دی،ایسی مجالس بھی اسی کی کڑی ہیں۔ پاکستان کے دیگر سیاستدانوں کو بھی نئی نسل کے ساتھ ایسے ہی میل جول رکھنا چاہیے اور ایسی نشستیں جاری رہنی چاہیے۔