عارف حبیب کنسورشیم نےقومی ائیرلائنز پی آئی اے کو 135ارب روپے میں خرید لیا‘ عارف حبیب کنسورشیم نےبڈنگ کے تیسرے مرحلے میں135ارب روپے کی بولی دیکر پی آئی اے کے75فیصدشیئرز خریدنے میں کامیابی حاصل کی‘لکی کنسورشیم134ارب روپے کی بولی کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا‘ 75فیصد شیئر کی فروخت کے بعد پی آئی اے کی مجموعی ویلیو 180ارب روپے ہو گئی ہے‘بولی کا عمل براہ راست نشر کیاگیا.
پی آئی اے کی نجکاری کے عمل میں جس انداز سے اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں، وہ خود اس پورے عمل کی شفافیت پر سنگین سوالات کھڑے کرتے ہیں۔ نجکاری کمیشن کی جانب سے پی آئی اے کی مجموعی ویلیو ایشن 180 ارب روپے ظاہر کی گئی ہے، جبکہ دستیاب حقائق اس تخمینے کو نہ صرف کمزور بلکہ بدنیتی پر مبنی ثابت کرتے ہیں۔ ایک ایسا قومی ادارہ جس کے اثاثے، روٹس اور نقدی خود سینکڑوں ارب روپے بنتے ہوں، اسے اس قدر کم قیمت پر پیش کرنا ریاستی مفادات کے ساتھ کھلا مذاق ہے۔
صرف پی آئی اے کی وہ پراپرٹیز جو پاکستان کے اندر واقع ہیں اور جن کا کنٹرول نئے مالک عارف حبیب کو منتقل ہوگا، ان کی مالیت کم از کم 70 ارب روپے بنتی ہے۔ یہ وہ جائیدادیں ہیں جن میں قیمتی کمرشل زمینیں، عمارتیں اور اسٹریٹجک لوکیشنز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پی آئی اے کے بینک اکاؤنٹس میں اس وقت 27 ارب روپے کی نقد رقم موجود ہے، جو نجکاری کے بعد براہ راست نئے مالک کے اختیار میں چلی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خریدار کو ادارہ لینے کے ساتھ ساتھ اربوں روپے کی تیار کیش بھی مل رہی ہے.
پی آئی اے کے بین الاقوامی اور علاقائی روٹس اس ادارے کا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں۔ ہوا بازی کے ماہرین کے مطابق ان روٹس کی مارکیٹ ویلیو کم از کم 400 ارب روپے بنتی ہے۔ یہ وہ روٹس ہیں جن کے حصول کے لیے دنیا کی بڑی ایئرلائنز دہائیوں کی محنت، سفارتی تعلقات اور بھاری سرمایہ کاری کرتی ہیں۔ مگر نجکاری کمیشن کی ویلیو ایشن میں ان روٹس کی اصل قدر کو یا تو نظرانداز کیا گیا ، تاکہ مخصوص خریدار کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔
جہازوں کے معاملے میں بھی تصویر مختلف نہیں۔ پی آئی اے کے پاس کل 32 ائیرکرافٹس ہیں، جن میں سے 18 اس وقت فنکشنل ہیں۔ جہاز کی مالیت محتاط اندازے کے مطابق 20 سے 30 ارب روپے بنتی ہے۔ اگرچہ کچھ جہاز گراؤنڈڈ ہیں، مگر بین الاقوامی اصولوں کے مطابق یہ بھی اثاثے ہی شمار ہوتے ہیں، جنہیں یا تو ری اسٹور کیا جا سکتا ہے یا متبادل مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مگر ویلیو ایشن میں ان کی حیثیت بھی مشکوک انداز میں کم کر دی گئی ہے۔
اس تمام پس منظر میں عارف حبیب کی جانب سے 135 ارب روپے کی بولی دی گئی ہے، جسے حکومت ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ اس رقم میں سے حکومت پاکستان کو صرف 7 فیصد حصہ ملے گا، جو تقریباً 10 ارب روپے بنتا ہے۔ باقی رقم پی آئی اے کے اندر ہی ری انویسٹ کی جائے گی، یعنی خریدار دراصل اپنی ہی خریدی گئی کمپنی میں سرمایہ کاری کرے گا، نہ کہ حکومت کو پوری قیمت ادا کرے گا۔ اس طریقہ کار سے قومی خزانے کو فوری طور پر کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچتا، بلکہ ادارے کے وسائل ہی دوبارہ اسی ادارے پر خرچ کیے جاتے ہیں۔
عالمی سطح پر نجکاری کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ جو اثاثہ نئے مالک کو منتقل ہو جاتا ہے، اس کی بحالی، مرمت اور بہتری کی ذمہ داری بھی اسی نئے مالک پر ہوتی ہے۔ مگر پی آئی اے کے معاملے میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ یہاں نقصان زدہ حصوں، واجبات اور انتظامی بوجھ کا بڑا حصہ ریاست کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جبکہ منافع بخش اثاثے، قیمتی روٹس، نقدی اور جائیدادیں نئے مالک کے حوالے کی جا رہی ہیں۔
یہ تمام حقائق اس تاثر کو مضبوط کرتے ہیں کہ پی آئی اے کی نجکاری محض ایک انتظامی فیصلہ نہیں بلکہ ایک منظم نوسربازی ہے، جس میں قومی ادارے کو کم قیمت پر مخصوص ہاتھوں میں منتقل کرنے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ اگر واقعی شفافیت مقصود ہوتی تو پی آئی اے کے تمام اثاثوں، روٹس، نقدی اور مستقبل کی آمدن کو سامنے رکھ کر آزادانہ اور بین الاقوامی معیار کے مطابق ویلیو ایشن کی جاتی۔ موجودہ صورت حال میں یہ نجکاری قومی مفاد کے بجائے چند نجی مفادات کی تکمیل کا ذریعہ بنتی دکھائی دے رہی ہے۔