ایف سولہ امریکی لڑاکا طیاروں کی اپ گریڈیشن اور کچھ تلخ حقائق

امریکی حکومت نے پاکستان کو ایف 16 لڑاکا طیاروں کی اپ گریڈیشن کے لیے 686 ملین ڈالر یعنی اڑسٹھ کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر کے پرزے اور نئی ٹیکنالوجی فروخت کرنے کی منظوری دے دی ہے۔

بظاہر یہ دفاعی تعاون دکھایا جاتا ہے، مگر حقیقت اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران پاکستان نے عملی طور پر چینی ٹیکنالوجی اور چینی طیارے استعمال کیے، جبکہ ایف 16 طیاروں کو احتیاط کے طور پر انڈر گراؤنڈ رکھا گیا۔ اس کی بڑی وجہ یہ خدشہ تھا کہ چونکہ بھارت اور امریکہ اسٹریٹجک اتحادی ہیں، اس لیے ایف 16 کی سروس، نیویگیشن، اور خصوصاً امریکی جی پی ایس نظام پر ممکنہ اثرات پڑ سکتے ہیں۔

ایسی اطلاعات بھی گردش میں رہیں کہ کسی ہنگامی صورتحال میں ایف 16 کے کچھ اہم سسٹمز محدود یا غیر موثر ہوسکتے ہیں، یعنی ہتھیار آپ کے پاس ہوں مگر کنٹرول مکمل طور پر آپ کے ہاتھ میں نہ ہو۔ پاکستان کو ایف 16 جیسے فرسودہ، پرانے ڈیزائن اور سیاسی دباؤ کے تابع لڑاکا طیاروں کی ضرورت نہیں۔ ان کی پوری کارکردگی امریکی پرزوں، امریکی مرمت اور امریکی منظوری پر چلتی ہے۔ اور جب آپ امریکہ کی بات نہ مانیں تو وہ سپیئر پارٹس بند کر دیتے ہیں، سروس روک دیتے ہیں اور پوری فضائی صلاحیت کمزور پڑ جاتی ہے۔

پاکستان کو ایسی دفاعی صلاحیت پر کیوں انحصار کرنا چاہیے جس کا سوئچ کسی دوسرے ملک کے ہاتھ میں ہو؟یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا عملی اور حقیقی انحصار چین کی فضائی ٹیکنالوجی پر بڑھ رہا ہے، کیونکہ چین جدید، مؤثر، سستا اور سیاسی دباؤ سے آزاد دفاعی تعاون فراہم کرتا ہے۔

چین کے جے 10 سی اور جے ایف 17 تھنڈر بلاک 3 نہ صرف جدید ترین نظام رکھتے ہیں بلکہ یہ پاکستان کے مکمل کنٹرول میں رہتے ہیں، اور ان پر کسی دوسرے ملک کا دباؤ موجود نہیں ہوتا۔اس وقت پاکستان ایئر فورس کے پاس تین ممالک کی ٹیکنالوجی پر مبنی طیارے موجود ہیں جن میں چین، امریکہ اور فرانس شامل ہیں۔ پاکستان فضائیہ فرانس کے میراج طیارے، امریکہ کے ایف 16 اور سی 130، اور چین کے جے 10 سی اور جے ایف 17 تھنڈر استعمال کر رہی ہے۔ لیکن زمینی حقائق یہی بتاتے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل چینی ٹیکنالوجی کے ساتھ ہے، کیونکہ یہی ٹیکنالوجی پاکستان کی دفاعی ضروریات، بجٹ، اور سیاسی خودمختاری کے عین مطابق ہے۔

اصل سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کو ایک ایسی ٹیکنالوجی پر انحصار جاری رکھنا چاہیے جو ہمیشہ امریکی مرضی کا محتاج رہے، یا پھر ایسی جدید اور خودمختار نظام کو اپنانا چاہیے جو پاکستان کے مفاد میں ہو؟ پاکستان کے حالات خود اس کا جواب دے رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں