دنیا ایک نئی جنگ کے میدان میں داخل ہو چکی ہے ، ایسی جنگ جو نہ بارود سے لڑی جاتی ہے، نہ میزائلوں یا فوج سے۔ یہ ایک خاموش، لیکن تباہ کن جنگ ہے جس میں دشمن کا چہرہ نظر نہیں آتا، لیکن اس کے وار بجلی، پانی، اسپتال، بینک، اور فوجی نظام تک کو مفلوج کر دیتے ہیں۔ امریکہ سے لے کر روس، ایران سے اسرائیل، کوریا سے بھارت اور برطانیہ تک، کوئی بھی ملک اس ڈیجیٹل طوفان سے محفوظ نہیں۔
ہر بڑی طاقت آج سائبر حملوں کے نشانے پر ہے ، کبھی دشمن ریاستوں کے ہاتھوں، کبھی پراسرار ہیکرز گروپوں کے ہاتھوں، اور کبھی اپنے ہی اندر چھپے غداروں کے ذریعے۔ یہ وہ جنگ ہے جہاں ایک کلک پورے ملک کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ معلومات ہتھیار بن چکی ہے، اور ڈیٹا پر قبضہ، اقتدار کی نئی شکل اختیار کر چکا ہے۔سائبر وار، جدید دور کی وہ خوفناک جنگ ہے، جس کے دھماکے ہماری اسکرینوں کے پیچھے سنائی نہیں دیتے، لیکن اثرات دنیا کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔
حالیہ دنوں کی بات کریں تو چین نے امریکہ پر سائبر حملوں کا الزام عائد کر کیا ہے۔چینی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق، ہاربن شہر کی پولیس نے امریکی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی سے تعلق رکھنے والے تین مبینہ ایجنٹوں کو مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔ان افراد کی شناخت کیتھرین اے ولسن، رابرٹ جے اسنیلنگ، اور اسٹیفن ڈبلیو جانسن کے طور پر کی گئی ہے، جن پر فروری 2025 میں منعقدہ ایشیائی کھیلوں کے دوران “انتہائی جدید” سائبر حملے کرنے کا الزام ہے۔حملوں کا ہدف چین کے صوبہ ہیلونگ جیانگ کی اہم انفرااسٹرکچر تھی، جن میں توانائی کا نظام ، ٹرانسپورٹیشن ، آبی تحفظ کے ادارے ، مواصلاتی نظام ، قومی دفاعی تحقیقی ادارے شامل ہیں۔ رپورٹس کے مطابق، این ایس اے کا مقصد سائبر حملوں کے ذریعے شرکت کرنے والے کھلاڑیوں کا ذاتی ڈیٹا چرانا تھا۔چین نےیونیورسٹی آف کیلیفورنیا اور ورجینیا ٹیک پر بھی ان حملوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔
حالیہ برسوں میں دنیا کے مختلف ممالک کو بڑے پیمانے پر سائبر حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ حملے بعض اوقات ریاستی سطح پر کیے گئے، جبکہ کئی حملے جرائم پیشہ گروہوں کی جانب سے بھی ہوئے۔ 2020 میں امریکہ سولر ونڈز نامی کمپنی پرسائبر حملہ کیا گیا، جس کے ذریعے روسی ہیکرز نے امریکی حکومت کے کئی اداروں سمیت سینکڑوں کمپنیوں کے نیٹ ورکس میں رسائی حاصل کی۔ 2021 میں کولونیل پائپ لائن پر رینسم ویئر حملہ ہوا جس سے امریکہ میں ایندھن کی ترسیل متاثر ہوئی۔ برطانیہ میں 2017 میں نیشنل ہیلتھ سروس پر وانا کرائیCryرینسم ویئر حملہ ہوا، جس کی وجہ سے اسپتالوں اور صحت کے مراکز کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ حملہ شمالی کوریا سے جوڑا گیا تھا۔ 2010 میں ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو نشانہ بنانے کے لیے اسٹکس نیٹ Stuxnet وائرس کا استعمال کیا گیا، جو امریکہ اور اسرائیل کا مشترکہ منصوبہ بتایا جاتا ہے۔ اس نے ایران کے یورینیم افزودگی کے سینٹری فیوجز کو نقصان پہنچایا۔ روسی حکومتی اداروں اور میڈیا پر متعدد سائبر حملے ہوئے، خاص طور پر 2022 میں جب یوکرین جنگ شروع ہوئی تو کئی مغربی ممالک نے روسی ویب سائٹس کو نشانہ بنایا۔ 2015 اور 2016 میں یوکرین کے پاور گرڈ پر سائبر حملے کیے گئے، جن کی وجہ سے بجلی کا بڑا بحران پیدا ہوا۔ ان حملوں کو روس سے جوڑا گیا۔ 2022 میں جنگ کے دوران یوکرین پر مسلسل سائبر حملے ہوتے رہے، جن میں ڈیٹا چوری، ویب سائٹس کو بند کرنا، اور غلط معلومات پھیلانا شامل ہے۔
بھارت کی بات کریں تو 2020 میں ممبئی کے پاور گرڈ پر سائبر حملہ ہوا جس سے شہر میں بڑی سطح پر بلیک آؤٹ ہوا۔ اسے چین سے جوڑا گیا۔ بھارت کے کئی حکومتی اداروں اور بینکوں پر رینسم ویئر اور ڈیٹا لیک حملے ہو چکے ہیں۔ شمالی کوریا کی جانب سے سائبر حملوں کی طویل تاریخ ہے۔ جنوبی کوریا کے فوجی، بینکاری، اور میڈیا ادارے بار بار نشانہ بن چکے ہیں۔ قابض اسرائیل کو بھی گزشتہ دو دہائیوں میں کئی بار شدید سائبر حملوں اور سائبر وار کا سامنا کرنا پڑا ہے، خاص طور پر اس کے دفاعی نظام، بینکنگ سیکٹر، سرکاری ویب سائٹس اور بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ جنگ کے دوران، اسرائیل پر شدید سائبر حملے کیے گئے۔ ہیکرز نے اسرائیلی میڈیا، سرکاری اداروں، اور حتیٰ کہ فوجی معلوماتی نظام کو نشانہ بنایا۔ کچھ سال قبل اسرائیل نے ایران کے نطنز نیوکلیئر پلانٹ پر سائبر حملہ کیا، جس سے یورینیم افزودگی میں خلل پڑا۔ جواباً، ایران نے دعویٰ کیا کہ اس نے اسرائیلی شپنگ کمپنیوں اور انٹرنیٹ نظام کو نشانہ بنایا۔
سائبر حملے آج کی دنیا کا ایک سنگین اور حقیقت پسندانہ خطرہ بن چکے ہیں، جو نہ صرف قومی سلامتی بلکہ عام شہریوں کی زندگیوں، معیشتوں اور مستقبل پر براہِ راست اثر انداز ہو رہے ہیں۔ یہ حملے ہمیں یہ یاد دلاتے ہیں کہ ڈیجیٹل ترقی کے ساتھ ساتھ خطرات بھی کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔ اب وقت آ چکا ہے کہ دنیا سائبر سیکیورٹی کو روایتی دفاع جتنا ہی اہم سمجھے، عالمی سطح پر تعاون کو فروغ دے، اور ایسے مضبوط نظام تشکیل دے جو آنے والے وقت میں ان پوشیدہ دشمنوں کا مؤثر مقابلہ کر سکیں۔ کیونکہ اگلی عالمی جنگ شاید میدان میں نہیں، بلکہ کوڈز اور کی بورڈز کے درمیان لڑی جائے گی۔