خواتین کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان کی ان بہادر ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو سلام پیش کرتا ہوں، جنہوں نے فسطائیت اور جبر کے سائے میں بھی اپنے موقف، جدوجہد اور بیانیے سے پیچھے ہٹنے کے بجائے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ یہ وہ خواتین ہیں جو ظلم اور ناانصافی کے سامنے سر جھکانے کے بجائے اپنے اصولوں پر قائم رہیں اور ہر قیمت پر سچ کا ساتھ دیا۔
ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ اورسمی دین بلوچ اور سینکڑوں بلوچ خواتین، جو لاپتہ افراد کے لیے مسلسل متحرک رہیں اور ریاستی جبر کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا۔ ایمان مزاری، جو بطور وکیل اور سماجی کارکن ہر دباؤ کے باوجود انسانی حقوق کا دفاع کر رہی ہیں۔آمنہ مسعود جنجوعہ، جنہوں نے مسنگ پرسنز کے لیے سالہا سال سے ناقابلِ تسخیر جدوجہد کی اور ہر ظلم کے خلاف سینہ سپر رہیں۔
ارشد شریف کی بیوہ جویریہ صدیق، جو اپنے شوہر کے قتل کے بعد بھی حق کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ عمران ریاض خان کی بہادر اہلیہ، جو اپنے شوہر کا دست و بازو بنیں۔ تحریک انصاف سے منسلک وہ سیاسی خواتین بھی خراجِ تحسین کی مستحق ہیں، جنہوں نے ہر قسم کے مظالم اور صعوبتیں برداشت کیں مگر اپنے نظریے اور موقف پر ثابت قدم رہیں۔
ڈاکٹر یاسمین راشد، جو سخت بیماری کے باوجود ریاستی جبر سہہ رہی ہیں، مگر جھکنے سے انکار کیا۔عالیہ حمزہ ملک جنہوں نے صحت کی زبوں حالی کے باوجود قید و بند کاٹی، خدیجہ شاہ، صنم جاوید خان، طیبہ راجا، فرزانہ خان، عائشہ بھٹہ، افشاں طارق، روبینہ خان جو جیلوں میں بند رہیں، ذہنی اور جسمانی اذیتوں کا سامنا کیا، لیکن اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ بشریٰ عمران، جو ہر سازش کے باوجود خاموش مزاحمت کی مثال بنی ہیں۔ شاندانہ گلزار خان، ایمان طاہر، سیمابیہ طاہر، زرتاج گل وزیر جو اپنے مؤقف پر ڈٹی رہیں۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم روشن بی بی کو بھول جائیں، جنہیں 80 سال کی عمر میں صرف احتجاج میں شرکت پر پابند سلاسل رکھا گیا۔ اسی طرح ایک بہن انیقہ مہدی اور ایک ماں ریحانہ ڈار جنہوں نے اپنے خاندان پر ہونے والے ظلم کے بعد خود انتخابی میدان میں اتر کر اپنا حق حاصل کیا اور دکھایا کہ عورت صرف احتجاج ہی نہیں، قیادت بھی کر سکتی ہے۔ یوں تو درجنوں کارکنان ہیں جو گرفتار ہوئیں اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، ان میں سمیرا خان، سائرہ خان، دل آرا، فرخندہ اشتیاق، سمیرا علی، زویہ ارشد، سعدیہ فرید، مدیحہ فرید، شازیہ منیر، ڈاکٹڑ ثمن، شاہدہ نیازی، نیلم، نعیم گل، کشور ناہید، مینا خان، شازیہ ، عائشہ اعوان، ملیحہ قاسم، سیدہ عباس، مہوش حسین، بشرہ آصف، شہر بانو ، فرزانہ ریاز، انیبہ طاہر، شہلا احسان، فلک ناز چترالی، شمائلہ، رابعہ اقبال ، مہوش، وردہ خان ، عائشہ علی، رخسانہ منظور ، ایڈوکیٹ منزہ بخاری، تہمینہ ریاض، عنبرین فاطمہ ، نازیہ سردار بھی شامل ہیں۔
ہم ان سیاسی خواتین کو بھی نہیں بھول سکتے، جنہیں زبردستی سیاست چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ مسرت جمشید چیمہ، ملیکہ بخاری اور شیریں مزاری سمیت وہ نام، جو اگرچہ بظاہر خاموش کردیئے گئے، مگر ان کی جدوجہد یاد رکھی جائے گی۔ یہ جدوجہد صرف خواتین تک محدود نہیں رہی، بلکہ بچیوں نے بھی ظلم و جبر کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا۔ شہربانو، جو اپنی ماں کے ساتھ ہر مشکل میں کھڑی رہیں۔ عالیہ حمزہ ملک کی بیٹی، جس نے اپنی والدہ کی غیر موجودگی میں انتخابی مہم سنبھالی۔ لائبہ ڈار، جس نے اپنے والد عمر ڈار کی جبری گمشدگی کے خلاف بے خوف ہو کر آواز اٹھائی۔ یہ سب بچیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ حوصلہ، جرات اور استقامت کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔
صحافت کے شعبے میں بھی کچھ خواتین نے ناقابلِ فراموش جرات کا مظاہرہ کیا۔ ان مشکل حالات میں جب سچ بولنا جرم بن چکا تھا، ان بہادر خواتین نے عوام کو باخبر رکھنے اور حقائق سامنے لانے کے لیے اپنی جان اور نوکریوں کو خطرے میں ڈالا۔ منیزے جہانگیز، سمینہ پاشا، سبین شہباز، مقدس فاروق اعوان، زاہدہ راؤ، مریم نواز خان، مہوش قماس خان، شفاء یوسفزئی، ملیحہ ہاشمی، پارس جہانزیب نے جبر کے موسم میں سچ کی شمع روشن رکھی اور ظلم کے خلاف قلم اور کیمرے کو ہتھیار بنایا۔
سندھ کے جاگیر دارانہ نظام میں انصاف کی جدوجہد کرنے والی ام رباب چانڈیو کو بھی سلام، خواتین کے عالمی دن کے موقع پر، ہر اس ماں، بہن، بیٹی، بیوی کو سلام، جنہوں نے جبر و بربریت کے اس موسم میں اذیتیں سہی، مگر اپنے بھائی، شوہر، بیٹے اور نظریے کا ساتھ نہ چھوڑا۔ یہ وہ خواتین ہیں جو تاریخ کے صفحات پر سنہری حروف میں لکھی جائیں گی۔ سلام بہادر عورتوں کو سلام حوصلہ مند بیٹیوں کو سلام ناقابلِ تسخیر ماؤں کو