جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا سے تو مشرق و مغرب کا ہر فرد واقف ہے کہ وہ کیسے اپنی قوم کے لئے ڈٹ گئے اور ان کے حقوق کی جدوجہد کے جرم میں انہیں 27سال تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا، جب وہ رہا ہوئے تو جہد مسلسل کی علامت بن گئے اور دنیا نے انہیں 250اعزازات سے نوازا، ان کے طویل سفر میں ان کی ایک ہی کتاب منظرعام پر آئی جو ان کی زندگی کے حالات و واقعات پر مبنی خود نوشت ہے، لیکن جنوبی ایشیا کے ڈاکٹر محمد قاسم فکتو کا بھارتی زندانوں کی تاریک کال کوٹھڑیوں میں 29واں سال گزررہا ہے، وہ کشمیریوں کی آزادی اور نظریہ پاکستان کے فروغ کے جرم میں پابند سلاسل ہیں، انہیں تاحیات جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھنے کیلئے بھارتی سرکار نے اپنے قانون کو تبدیل کردیا اور عمرقید کے ساتھ تاحیات قید کی شق کا بھی اضافہ کردیا جس کی نظیر دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں ملتی۔
انہیں پہلی مرتبہ 1993ء میں کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیل بھیجا گیا اور پھر بعد میں بھارتی سپریم کورٹ نے جنوری 2003ء میں انہیں تاحیات عمر قید کی سزا سنادی تھی، 1967ء میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر قاسم فکتو نے اسلامیہ کالج سری نگر سے کامرس میں گریجویشن کی، دختران ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی کے ساتھ ازدواجی رشتے میں منسلک ہونے کے بعد انہوں نے کشمیر یونیورسٹی سے اسلامک سٹڈیز میں ایم اے، ایم فل اور مولوی فاضل کی ڈگریاں حاصل کیں۔ 1993میں گرفتاری اور6سال کی نظربندی کے بعدعدالت نے انہیں تمام الزامات سے بری کردیاتھا لیکن بھارتی فورسز نے انہیں نئی دہلی کے اندرا گاندھی ائرپورٹ پر اس وقت دوبارہ گرفتار کرلیا جب وہ لندن میں کشمیر کے حوالے سے ایک کانفرنس میں شرکت کے بعد واپس آرہے تھے۔اس کے بعد سے وہ جیل میں ہیں اور ان کے خلاف کسی قسم کا کوئی ثبوت نہ ہونے کے باوجود محض تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے جرم میں گرفتاررکھا گیا ہے۔ مسلم دینی محاذ کے سربراہ نے اسلامک اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کی اور 125قیدیوں کو گریجویشن کرائی۔حال میں شائع ہونے والی ان کی کتاب ”بانگ“ میں مختصر مگر جامع انداز میں بھارتی منصوبوں سے پردہ چاک کیا گیا۔
مقبوضہ کشمیر کے اس مرد مجاہد کی کتاب کی تقریب رونمائی 5 جنوری 2022ء کو ایوان صدر اسلام آباد میں منعقد ہوئی جس کی صدارت صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے کی، جبکہ مقررین میں چیئرمین پارلیمانی کشمیر کمیٹی شہریار خان آفریدی، ڈاکٹر قاسم فکتو، سیدہ آسیہ اندرابی کے پاکستان میں رہائش پذیر لخت جگر احمد بن قاسم، تجزیہ کار و اینکرپرسن عمران ریاض خان، کشمیر یوتھ الائنس کے صدر اور ڈاکٹر قاسم فکتو اور آسیہ اندرابی کے بھانجے ڈاکٹر سیدمجاہد گیلانی،کشمیر یوتھ الائنس کے سیکرٹری جنرل رضی طاہر (راقم)، کشمیر یوتھ الائنس کی سینئر نائب صدر پلوشہ سعید نے اظہار خیال کیا۔
اس موقع پر وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور علی محمد خان،حریت رہنما عبدالمتین شیخ، حریت رہنما سید مشتاق گیلانی،سابق وفاقی وزیر دفاع جنرل نعیم خالد لودھی، ڈپٹی ڈائریکٹر وزارت اطلاعات مریم لطیف،مصنف و ادیب کرنل (ر)خالد مصطفی سمیت کئی نامور شخصیات اور نوجوانوں کی کثیر تعداد موجود تھی۔ بلاشبہ ”بانگ کی تقریب رونمائی“ ایوان صدر میں ہی منعقد ہونا مصنف کا حق تھا۔
صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے شاندار الفاظ میں ڈاکٹر قاسم فکتو کو خراج تحسین پیش کیا، انہوں نے کتاب پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یقینا یہ کتاب ہر پاکستانی کو پڑھنی چاہیے تاکہ وہ ایک ایسے عظیم انسان کے نظریات پڑھ سکیں جو 29سال سے بھارتی قید میں عزم و ہمت کی مثال بنے ہوئے ہیں، بھارتی ہتھکنڈوں، اذیتوں اور ظلم وجبر کے باوجود ان کے پایہ استقلال میں لغزش تک نہیں آئی اور وہ مقبوضہ کشمیر کی مضبوط آواز بن کر ابھرے، یہ کتاب دنیا بھر میں پہنچانی چاہیے تاکہ دنیا بھارت کا گھناونا رخ پڑھ سکے۔ انہوں نے ہندتوا پر گفتگو کی جس کا ذکر مصنف نے تفصیل سے اس کتاب میں کیا،اور کہا کہ ہندتوا نے تقریباً ایک صدی بعد دوبارہ آنکھ کھولی ہے اور بھارت اس نظریے کو زندہ کرکے اپنے آپ کو مٹانے کے درپے ہے، وہ اپنے آپ کو آگ لگارہا ہے۔
صدر پاکستان نے واضح طور پر کہا کہ ڈاکٹر قاسم فکتو اور سید علی گیلانی جیسے عظیم حریت رہنماوں کی قربانیاں رنگ لائیں گی اور جہاں تک پاکستان کی بات ہے، میں بحثیت سربراہ ریاست پاکستان یہ کہتا ہوں کہ پاکستان کشمیر کے موقف پر پیچھے ہٹنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
اس موقع پر چیئرمین پارلیمانی کمیٹی برائے کشمیر شہریار خان آفریدی نے کہا کہ مقبوضہ جموں کشمیر کے حریت رہنما ڈاکٹر محمد قاسم فکتو کو سلام پیش کرتے ہیں، ان کا پورا خاندان جہد مسلسل کی علامت ہے، انہوں نے کہا کہ دختران ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی اور ان کے خاوند محمد قاسم فکتو دونوں پاکستان سے محبت کی سزا بھگت رہے ہیں اور دونوں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر بھارتی مظالم کامقابلہ کررہے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہر پاکستانی کشمیریوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہے اور پارلیمانی کمیٹی برائے کشمیر نے کشمیر کا موقف عالمی دنیا تک پہنچانے کیلئے تحریک شروع کررکھی ہے، ہم ہر روز دنیا کے ساتھ رابطے میں ہیں اور دنیا کو جھنجھوڑ رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مظلوم کشمیریوں کی جدوجہد دیکھ رہا ہے اور وہی کشمیر کو آزادی کی منزل تک پہنچائے گا۔ بھارت دنیا میں انسانی حقوق کی لگاتار پامالیوں کی وجہ سے بدنام ہوچکا ہے۔
تقریب میں ڈاکٹر محمد قاسم فکتو کے بیٹے احمد بن قاسم نے بھی گفتگو کی اور صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے ایوان صدر میں انکے والد گرامی کی کتاب کی تقریب رونمائی کی نہ صرف اجازت دی بلکہ خود صدارت کی، اس موقع پر احمد بن قاسم نے اہل کشمیر کے دل کی بات اور نظریہ اس انداز میں سمجھایا کہ جب وہ سٹیج سے واپس آئے تو صدر عارف علوی سمیت پورا ہال ان کے اعزاز میں کھڑا ہوگیا، انہوں نے کہا کہ ہمارا مسئلہ انسانی حقوق کی پامالی نہیں ہے، ہم وہاں آزادی مانگتے ہیں تو انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہے اگر ہم آج بھارت کو قبول کرلیں تووہ دودھ اور شہد کی نہریں بہادے لیکن ہم اپنے نظریے سے ہٹ نہیں سکتے،احمد بن قاسم نے کہا کہ ہمارا مسئلہ یہ نہیں کہ فلاں قانون نافذ ہوگیا اور فلاں قانون ختم ہوگیا، ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم بھارت کے کسی قانون کو مانتے ہیں نہیں، ہم جب بھارت کو ہی تسلیم نہیں کرتے تو اس کے قوانین کو کیا تسلیم کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے والد ڈاکٹر محمد قاسم فکتو کو صرف ان کی تحریروں اور کتابوں سے محسوس کیا ہے جب وہ مجھے کوئی بات سمجھانا چاہتے تو کتاب دے دیتے اور میں وہ کتاب پڑھتا تو انہوں نے میرے لئے اہم پوائنٹس کو ہائی لائٹ کررکھا ہوتا، احمد بن قاسم کی تقریب کے دوران ہر دل غمگین ہوگیا اور آنکھیں تر ہوگئیں۔
تقریب سے اینکرپرسن عمران ریاض خان نے بھی گفتگو کی اور اپنے منقسم خاندان کو یاد کیا، ان کا خاندان مقبوضہ کشمیر کے بانڈی پورہ سے تعلق رکھتا ہے، انہوں نے اس عزم کو دہرایا کہ ان شاء اللہ ایک دن میں اپنے آبائی گھر جاؤں گا۔صدر کشمیر یوتھ الائنس ڈاکٹر سید مجاہد گیلانی نے کہا کہ میں اپنی خالہ سیدہ آسیہ اندرابی کی نصیحت ہمیشہ یاد رکھتا ہوں، انہوں نے کہا تھا کہ دو باتیں ہرگز نہ بھولناایک یہ کہ نظریہ پاکستان ہی بقائے پاکستان ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ کشمیر برصغیر پاک وہند کا نامکمل ایجنڈا ہے۔
صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے بانگ کی رونمائی کی۔ ڈاکٹر محمد قاسم فکتو کی بانگ دراصل ایک اذان ہے، یہ کتا ب حکم اذاں کی جانب بلاتی ہے، اس کتاب کے ہر صفحے کو پڑھنے سے آپ کو یوں محسوس ہوگا کہ آپ ڈاکٹرمحمد قاسم سے ملاقات کررہے ہیں اور آزادی کی جو آگ ان کے سینے میں جل رہی ہے اسکی حرارت اپنے اندر محسوس کریں گے۔ آپ کو یہ احساس ہوگا کہ قید تنہائی میں وہ شخص کیسے پاکستان اور اسلام کے وکیل اور عظیم مجاہد کے طور پر بانگ لگارہا ہے۔
اپنی کتاب بانگ کے آخر میں ڈاکٹر محمد قاسم کشمیر کے مسئلے کا حل تجویز کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ جن اصولوں کی بنیاد پر برصغیر میں 1947میں مسلم اکثریتی ریاستوں اور صوبوں اور ہندو اکثریتی ریاستوں اور صوبوں کی پاکستان اور متحدہ ہندو بھارت کی صورت میں تشکیل ہوئی انہی اصولوں کی بنیاد پر جموں کشمیر کے مستقبل کا تعین ہونا چاہیے“۔ ساتھ انہوں نے جہاد کشمیر پر بھی زور دیتے ہوئے حریت قیادت کو مسلح جدوجہد کا مشورہ دیا ہے جو کہ ہر کشمیری کا آزادی کیلئے حق ہے کیونکہ ظلم کے خلاف لڑنا بنیادی اسلامی تعلیمات ہیں، اس کا حق تو اقوام متحدہ نے بھی دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈاکٹر محمد قاسم کی کتاب بانگ کو کشمیر پالیسی مرتب کرنے والے ادارے اپنی پالیسی کا حصہ بنائیں اور اس کتاب میں جن بھارتی منصوبوں کی نشاندہی کی گئی انہیں عالمی سطح پر بے نقاب کیا ہے۔ آج پوری پاکستانی قوم ڈاکٹر محمد قاسم کو سلام پیش کرتی ہے اور اس عزم مصمم کو دہراتی ہے کہ کشمیر ان شاء اللہ ایک دن آزاد ہوگا اور ڈاکٹر محمد قاسم جیسے جلیل القدر حریت رہنماؤں کی قربانیاں رنگ لائیں گی۔