بولنے ،سننے اوردیکھنے سے محروم سنہرا اور اسکی نابینا بیٹی کی کہانی

ضلع اٹک کی تحصیل پنڈیگھیب کے دور افتادہ گاﺅں ملہووالہ کی بولنے ، سننے اور دیکھنے سے معذور سنہرا بی بی اور ان کی نابینا بیٹی گلزار بی بی کے سر پر قیامت ٹوٹ پڑی جب ان کے گھر کے اکیلے کفیل نور محمد کو پراسرار طور پر قتل کردیا گیا۔ اس افسوس ناک واقعے کی مکمل تفصیلات جاننے کیلئے ہم فتح جنگ شہر سے صحافیوں کی ٹیم لیاقت خان باجوڑی، فرحت عباس شاہ، سید وجاہت شاہ اور طاہراقبال کے ہمراہ دشوار گزار راستوں سے ہوتے ہوئے جائے وقوعہ پر پہنچے تو ہر آنکھ نم ہوگئی، کلیجہ منہ کو آنے لگا اور یوں محسوس ہوا کہ دراصل گونگے ، بہرے اور اندھے ہم ہیں جہاں ہماری موجودگی میں ظالموں نے ظلم کی انتہا کردی۔ کوئی بھی شخص جس کے اندر ذرہ برابر بھی انسانیت زندہ ہے وہ ان معصوموں اور بے سہارا خواتین کے ساتھ اس قدر بے رحمی سے پیش نہیں آسکتا، یقینا وہ انسان نہیں بلکہ وحشی تھے جنہوں نے پیسے اور زمین کی لالچ میں اتنا بڑا جرم کیا کہ جس کی دنیا میں سزا تو بھگتیں گے کل قیامت کے رو ز اللہ کریم کے روبرو بھی ذلیل و رسوا ہوں گے۔

[embedyt] https://www.youtube.com/watch?v=PFhEOsWl8_g[/embedyt]

ہوا کچھ یوں کہ گاﺅں ملہووالہ کے سادہ لوح کسان نور محمد کو ملزمان نے بہلایا پھسلایا اور اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اپنی آبائی زمین بیچ کر اپنی آنکھوں سے محروم بیوی اور بیٹی کیلئے زندگی بھر کیلئے اثاثے کا اہتمام کردے، نور محمد نے نوسرباز گروہ کو اپنا ہمدرد سمجھا، تب اسے معلوم بھی نہ تھا کہ جو زندگی بھر کیلئے اثاثے کے اہتمام کا بہلاوہ دے رہے ہیں وہ اس کی معذور ونابینا بیوی اور نابینا بیٹی سے سہارے کے ساتھ زندگی کا ہر اثاثہ چھین لیں گے۔نوسرباز گروہ جس کا سرکردہ فہد محمود تھا، نے اپنے ساتھیوں محبوب حسین، مشتاق احمد، ہدایت، اور محمد زبیر کے ساتھ مل کر سازش رچائی اور نور محمد کی 200کنال کے لگ بھگ آبائی زمین کو فروخت کردیا، اور رقم محفوظ رکھنے کے بہانے خود رکھ لی اور نور محمد کو کہا کہ گھر میں رکھو گے تو چوری ہوجائے گی لہذا ہم اسے بینک میں جمع کروائیں گے،سادہ لوح نور محمد نے اعتبار کیا۔ فہد محمود اور ساتھیوں کو اس بات کا ڈر محسوس ہوا کہ اگر ان کا پول کھل گیا تو وہ قانونی گرفت میں آسکتے ہیں لہذا نور محمد سے مل کراسے مشروب میں زہر ملا کر پلادیا،اس سارے واقعے کے دو عینی شاہد موجود ہیں جنہیں موقع پر تو سمجھ نہ آسکا کہ کیا ہورہا ہے یا نور محمد کے ساتھ کیا بیت گئی ہے لیکن بعدازاں انہیں حقیقت کا ادراک ہوگیا۔

بولنے ، سننے اور دیکھنے سے معذور سنہرا بی بی اور ان کی نابینا بیٹی گلزار بی بی کے گھر کا واحد کفیل اب اس دنیا میں نہ رہا، یہ واقعات اتنی رازداری ، چالاکی اور تیزی سے رونما ہوئے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی اور نور محمد کی تدفین کردی گئی لیکن جب زمین کے بیچنے کی پٹاری کھلی تو آہستہ آہستہ سچ سامنے آنے لگا۔ علاقے کے سماجی کارکنان ملک فیصل اور حاجی محمد فیاض نے اس معاملے کی تہہ تک جانے کا فیصلہ کیا اور اس کیلئے انہوں نے قانون و انصاف کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن وہ شاید یہ بھول گئے تھے کہ تحریک انصاف کی حکومت میں قانون کی حکمرانی خواب اور ا نصاف ناپید ہوچکا ہے، پولیس نے ہر بار انہیں دھتکارا اور مقتول کے بھائی حاکم کو کئی بار پولیس چوکی کھوڑ سے بے عزت کرکے باہر نکال دیا گیا۔کہتے ہیں کہ مجرم اپنے نشان چھوڑ جاتا ہے۔ سماجی کارکنان کی کاوشوں سے قبرکشائی کے بعد پوسٹ مارٹم نے یہ ثابت کردیا ہے کہ نور محمد طبعی موت کے شکار نہ ہوئے اور جرم کو چھپانے کیلئے فہد محمود اس وقت شکنجے میں آیا جب اس نے مقامی شرفاءکے بلائے جانے والے جرگے میں اقرار جرم کرلیا، جب جرگے میں اسے یقین دلایا گیا کہ اگر تم پیسے لوٹا دو تو قتل کے مقدمے سے محفوظ رہو گے تب اس نے نہ صرف اقرار جرم کیا بلکہ اشٹام پیپر پر اپنا بیان بھی درج کروایا اور کہا کہ مجھ سے زیادتی ہوئی ہے، وہیں مجرم نے پیسے باالاقساط لوٹانے کا حلفیہ بیان دیا ، تب اسے معلوم نہیں تھا کہ دراصل یہ جرگہ اسے بچانے کیلئے نہیں بلکہ اس کا پردہ فاش کرنے کیلئے ہے، لیکن بدقسمتی دیکھئے اس سب کے باوجود پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کردیا اور مقتول کے بھائی کو دھکے مار کر چوکی سے نکالا گیا، تب پولیس کو جگانے کیلئے سائلین نے ایوان صحافت فتح جنگ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور فتح جنگ پریس کلب رجسٹرڈ کے سرپرست لیاقت خان باجوڑی اور اوپر مذکورہ ٹیم کی مداخلت پر ایف آئی آر درج ہوئی،

اکتوبر میں رونما ہونے والے واقعے کی ایف آئی آر فروری میں ہوئی اور پولیس اب بھی حیلے بہانے تراش رہی ہے، فتح جنگ پریس کلب رجسٹرڈ کی ٹیم جب وہاں پہنچی تو ملہووالہ کے غریب عوام ہاتھ اٹھا کر فریاد کررہے ہیں کہ ان بے سہارا خواتین کو انصاف دیا جائے، دیکھنے، سننے سے محروم بیوہ اور اور دیکھنے سے محروم بیٹی کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔وہ اس ظالم دنیا کا بھیانک چہرہ دیکھ نہیں سکتیں لیکن انہوں نے محسوس کرلیا ہے، انہوں نے محسوس کیا کہ آنکھوں والے دراصل اندھے ہیں، سننے والے دراصل بہرے ہیں، جنہیں سچ سنائی نہیں دیتا، ظلم دکھائی نہیں دیتا اور آہیں ان تک پہنچ نہیں پاتیں، لیکن یقینا ان کی آہیں عرش الہی تک پہنچ گئی ہیں اور مجرموں کے گرد گھیرا تنگ ہورہا ہے، سازش رچانے والے کیفرکردار تک پہنچیں گے لیکن یقین کیجئے انصاف ملنے کے بعد بھی یہ بے سہارا ماں بیٹی کے زخم تازہ رہیں گے وہ ہمیشہ آنکھ والوں کیلئے سوالیہ نشان بنی رہیں گی۔

خلق ہم سے کہتی ہے کہ سارا ماجرا لکھیں۔۔۔
چشم نم سے شرمندہ ۔۔۔
ہم قلم سے شرمندہ ۔۔۔
سوچتے ہیں کہ کیا لکھیں۔۔۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں