اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سلسلہ، پس پردہ محرکات اگلی باری کس کی ہوگی؟

رپورٹ : رضی طاہر

اسرائیل کی ناجائز ظالمانہ ریاست کو تسلیم کرنا کا سلسلہ جو حالیہ مہینوں میں شروع ہوا ، اس کے بعد سبھی یہ سوال کرتے ہیں کہ اب اگلا ملک کون سا ہوگا اور اچانک یہ لہر کیوں ؟ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سلسلہ متحدہ عرب امارات نے شروع کیا ، انہوں نے ایک امن معائدے کے ذریعے اسرائیل کی ریاست کو تسلیم کیا، اس کے بعد مسلم اکثریتی ملک کووسو جبکہ مسلم عرب ملک بحرین بھی اسرائیل کو تسلیم کرچکے ہیں، ہماری اطلاعات کے مطابق اب امریکہ کی ایک خصوصی کمیٹی کی جانب سے سوڈان اور عمان کے ساتھ میٹنگز جاری ہیں، سوڈان کے ساتھ رواں ہفتے آخری ہونے والی میٹنگ بے نتیجہ رہی تاہم اس سے قبل سوڈانی وزیرخارجہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں، جبکہ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے بعد اس بات کا قوی امکان ہے کہ اسرائیل کا جلد ہی عمان کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کر سکتا ہے اور اس کے ساتھ ہی دونوں ممالک کے مابین باضابطہ سفارتی تعلقات کا آغاز ہو سکتا ہے۔عمان کی اسرائیل کے ساتھ غیر رسمی تجارت گذشتہ کچھ برسوں سے جاری ہے۔ سنہ 2018 میں اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے عمان کا دورہ بھی کیا تھا۔ مگر عمان اگر یہ کرتا ہے تو ملک کے سب سے بڑے صوبے ظفار میں بغاوت ہونے کا خطرہ بھی ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سارے معائدے حادثاتی امر ہیں یا اس کے پیچھے بھی کچھ ہے؟ اور اس کے پیچھے کے محرکات کیا ہیں؟ سوال یہ ہے کہ سات دہائیوں میں اگر اسرائیل کو تسلیم کرنا ناجائز ٹھہرا تو اچانک2020میں ایسا کیا ہوا کہ یکے بعد دیگرے اسرائیل کو تسلیم کرنے والوں کی دوڑ لگ گئی ہے؟ تو جان لیجئے یہ ایک دم نہیں ہوا بلکہ اس کے پیچھے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلسل کوششیں ہیں، وہ امریکی صدر کم اسرائیل کے سفیر زیادہ نظر آتے ہیں، آپ کو یاد ہوگا کہ مائیک پومپیو نے مارچ2019میں یہ بیان دیا تھا کہ اللہ نے ٹرمپ کو اسرائیل کو بچانے کیلئے بھیجا ہے، تب یہ بیان کسی کی سمجھ میں نہ آسکا لیکن اب ہر کوئی سمجھ رہا ہے کہ ٹرمپ کا واحد مقصد اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کو پورا کرنا ہے۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ ٹرمپ برسراقتدار میں آنے کے بعد امریکی مفادات سے کہیں زیادہ اسرائیلی مفادات کی جنگ لڑرہے ہیں، اندازہ لگائیں کہ عیسائی اکثریتی ملک امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کابینہ میں 23رکنی کیبنٹ میں15یہودی وزیر و مشیر ہیں، جن میں زیادہ پر الزام ہے کہ وہ مشنری یہودی ہیں۔ ٹرمپ پر یہودی ناجائز ریاست اسرائیل کا آلہ کار ہونے کا الزام امریکہ کے اپنے صحافتی ادارے لگاتے ہیں۔یہ امریکہ ہی ہے کہ جس کی وجہ سے اسرائیل قائم ہو، اتنی طاقت حاصل کی اور توسیع پسندانہ عزائم پر عمل درآمد کیے ہوئے ہے لیکن یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا کہ مسلمان ممالک ایسے یکے بعد دیگرے اسرائیل کو اپنے مفادات کیلئے تسلیم کریں گے۔اب آپ کو بتائیں کہ وہ ممالک اب بھی موجود ہیں جنہوں نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا، سوڈان اور عمان کے بارے میں اشارے ہیں کہ وہ تسلیم کریں گے تاہم غیرت ہے بڑی چیز جہاں تگ و دو میں۔20سال سے امریکی جنگ کا شکار افغانستان ، طالبان کی وجہ سے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے قاصر ہے۔ افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت ہونے کے باوجود طالبان کی وجہ سے افغانستان کی حکومت میں یہ ہمت نہیں ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرے،اس سلسلے میں افغان حکومت کا موقف تھا کہ اگر الگ فلسطینی ریاست بننے کا عمل شروع ہو جائے تو اس کے بعد اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ممکن ہیں۔جبکہ اس سلسلے میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کا موقف دو ٹوک ہے اور وہی موقف انہوں نے دہرایا جو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے ہمیں دیا کہ جب تک فلسطین کے وجود کو تسلیم نہیں کیا جاتا، اور فلسطین ایک آزاد ریاست قائم نہیں ہوجاتی، تب تک اسرائیل کو تسلیم کرنا ناممکن ہے۔ اسکے علاوہ الجزائر ، سعودی عرب، ملائیشیا، انڈونیشیا، ایران، برونائی، بنگلہ دیش، بھوٹان، جبوتی ، سوڈان ، شام، قطر، صومالیہ، عراق، کوموروس، کویت، لبنان، لیبیا، مراکش اور یمن وہ مسلمان ممالک ہیں جنہوں نے اسرائیل کو سات دہائیوں بعد بھی تسلیم نہیں کیا، دیکھتے ہیں کہ سوڈان اور عمان کیا فیصلہ کرتے ہیںا ور اس کے بعد پھر کس کی باری ہے؟

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں