اقوام متحدہ کے ذریعے ارشد شریف قتل کیس کی تحقیقات کا لائحہ عمل

یہاں سے ڈاونلوڈ کریں۔

شہید ارشد شریف کی اہلیہ کی سپریم کورٹ میں درخواست، جسے بیرسٹر محمد سعد بٹر نے مرتب کیا جبکہ رضی طاہر نے انگلش سے اردو میں ترجمہ کرکے عوام کیلئے پیش کیا۔

اقوام متحدہ کے ذریعے ارشد شریف قتل کیس کی تحقیقات کا لائحہ عمل

1۔ عدالت عظمیٰ کے سامنے یہ جامع بیان اس مقصد کیلئے جمع کروایا جارہا ہے تاکہ معزز عدالت کو بین الاقوامی معاہدوں اور قراردادوں کے مطابق تمام دستیاب میکانزم فراہم کیے جائیں تاکہ معروف تحقیقاتی صحافی ارشد شریف کے کینیا میں قتل کی آزادانہ اور شفاف تحقیقات کی جا سکیں۔
2۔ صحافی ارشد شریف کو اگست2022میں پاکستان چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، پاکستان سے جانے کا سفر کینیا میں ان کے اندوہناک قتل کی وجہ سے اختتام پذیر ہوا، کینیا کے حکام کی جانب سے جاری کی گئی ارشد شریف کی انویسٹی گیشن رپورٹ حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی اور اس میں تضادات پائے جاتے ہیں۔ کینیائی حکومت کی رپورٹ پر بیرونی ذرائع سے ملنے والی معلومات، شواہد اور انسانی حقوق کے حوالے سے اہم سوالات جنم لیتے ہیں۔


3۔ درخواست گزارارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق، خود ایک صحافی اور فوٹوگرافر ہیں، اپنے شوہر کے قتل کے بعد انہوں نے منصفانہ اور شفاف تحقیقات اور انصاف کو یقینی بنانے کیلئے تحقیق اور تفتیش کے مختلف رائج عالمی طریقہ کار، قوانین اور اسباب پر ریسرچ کی۔ درخواست گزار نے متعدد بین الاقوامی اداروں جن میں رپورٹرزودآؤٹ بارڈرز، اقوام متحدہ کی تنظیم یونیسکو اور ایمنسٹی انٹرنیشنل وغیرہ سے رابطہ کیا۔ یہ بات درخواست گزار کے علم میں لائی گئی کہ حکومت پاکستان کی جانب سے ارشد شریف کیس کے حوالے سے کینیا کے حکام پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیااس کے ساتھ ساتھ حکومت پاکستان کی کیس کی شفاف تحقیقات کو یقینی بنانے کیلئے کوآرڈینیشن انتہائی غیرموثر رہی ہے۔


4۔ ارشد شریف کے کیس میں ہونے والی انسانی حقوق کی بے شمار خلاف ورزیوں پر بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی میڈیا کی توجہ دلانے کے ساتھ ساتھ درخواست گزار ضروری سمجھتی ہے کہ معزز عدالت سامنے بھی اپنی تحقیقات کا نچوڑ رکھا جائے۔ بین الاقوامی کنونشنز، قوانین اور رائج طریقہ کار جس کے ذریعے ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کو منصفانہ اور شفاف طریقے سے منطقی انجام تک پہنچایا جاسکتا ہے، عدالت کے سامنے رکھنا ضروری ہیں، جو کہ درج ذیل ہیں:

بین الاقوامی قراردادیں، کنونشنز، قوانین اور شفاف تحقیقات کیلئے رائج طریقہ کار

1۔ دہشت گردی کی کارروائیوں کی مالی معاونت روکنے کیلئے دستیاب بین الاقوامی لائحہ عمل:
۱: اقوام متحدہ کی کئی قراردادیں اور بین الاقوامی کنونشنز، اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے نہ صرف معاونت فراہم کرتے ہیں بلکہ ٹھوس لائحہ عمل بھی دیتے ہیں، جن کے اطلاق کے ذریعے کسی بھی شکل میں ہونے والی دہشتگردی کی مجرمانہ کاروائیوں کو روکنے میں معاونت ملتی ہے۔ یہ کنونشنز ممالک کے اندر رائج قوانین کے ذریعے دہشتگردی کی مذمت اور اس کی روک تھام کے اقدامات پر زور دیتے ہیں۔ جن نامساعد حالات میں ارشد شریف کا قتل ہوا،اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دہشتگردی کا ایک ہولناک واقعہ تھا۔ریاست پاکستان کو چاہیے کہ ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کو اقوام متحدہ کے ان دستیاب کنونشنز کے ذریعے آگے بڑھائے۔
۲: قرارداد1269/1999: اقوام متحدہ کی یہ قرارداد دہشتگردی کے تمام طریقوں کی مذمت کرتی ہے اور دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے بین الاقوامی تعاون کو مضبوط بنانے پر زور دیتی ہے۔ اس قرارداد میں اقوام متحدہ کا کردار بھی واضح ہے کہ وہ دہشتگردی کے خلاف جدوجہد میں اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کیلئے مختلف انتظامات کرے۔ یہ قرارداد ممبر ریاستوں پر زور دیتی ہے کہ وہ ملکی اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق ایک دوسر ے کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کریں۔
ٰ۳: دہشت گردی کی مالی معاونت کی روک تھام کے لیے بین الاقوامی کنونشن: پاکستان اور کینیا دونوں ممالک نے دہشتگردی کی مالی معاونت کے بین الاقوامی کنونشن (ICSFT 1999)پر دستخط کررکھے ہیں، مذکورہ کنونشن کے آرٹیکل2کے تحت کوئی بھی شخص کسی شہری کو قتل کرنے یا اسے جسمانی چوٹ پہنچانے کے مقصد کیلئے فنڈز جمع کرے، یا فراہم کرے،یا فنڈز فراہم کرنے کا ارادہ یا علم ہو، وہ اس کنونشن کے مطابق مجرم تصور ہوگا، اس بات کے قطع نظر کہ فنڈز فراہم کرنے کے باوجود جرم کا ارتکاب ہوا ہے یا نہیں، اسی کنونشن کے اس آرٹیکل کا جزو 5جرم میں شریک بالواسطہ یا بلاواسطہ ملوث افراد کو بھی دائرہ کار میں لاتا ہے۔
۴: یہ کہ اس کنونشن کے آرٹیکل12اور18میں پابند ریاستوں کو باہمی قانونی مدد کے بار ے میں رہنمائی ملتی ہے۔ آرٹیکل12کے تحت ریاستی فریقین دہشتگردی کی تحقیقات، تفتیش کے تمام مراحل اور تمام ضروری معاملات میں ایک دوسرے کی مکمل مدد کرنے کے پابند ہیں۔ مزید یہ کہ رازداری کے کسی بھی قانون کے تحت بھی وہ مدد سے انکار نہیں کرسکتے، تاہم فریق ریاستیں باہم مشاورت سے معلومات کے تبادلے اور تفتیش کیلئے قابل عمل میکانزم طے کرسکتی ہیں، جس کے بعد وہ بین الاقوامی معائدے کے تحت ملکی قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی مکمل پابند ہیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ آرٹیکل 18 میں طے کیا گیا ہے کہ درست اور تصدیق شدہ معلومات کے تبادلے کے ذریعے فریقین ایسے جرائم کی تفتیش میں تعاون کریں گے، جن سے متعلق خدشات ہیں: (i) مشتبہ افراد کی نقل و حمل، ان کے ٹھکانے کی معلومات، ان کی ایکٹیویٹیز اور کریمنل ریکارڈ کی فراہمی (ii) ایسے جرائم سے متعلق فنڈز کی نقل و حرکت کے ریکارڈ کی فراہمی۔
۵: قرارداد1373/2001: امریکہ پر دہشتگردی کے حملوں کے بعد یہ قرار داد منظور کی گئی۔ اس قرارداد کاآرٹیکل3(c)ریاستوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ دہشتگردی کے مجرموں کو ان کے اعمال کی سزا دلوانے اور جوابدہ کرنے کیلئے مکمل تعاون کریں اور اسکے لئے لائحہ عمل طے کریں۔ آرٹیکل 3(e) بین الاقوامی تعاون اور قرارداد 1269/1999 جیسی قراردادوں کے نفاذ پر زور دیتا ہے۔اس قرارداد کے آرٹیکل 6نے عملدرآمد کیلئے کمیٹی بنانے کی تجویز دی ہے۔ لہذا اس قرارداد کے اندر فریق ریاستوں کو ایک طریقہ کار دیا گیا ہے کہ وہ ایک کمیٹی بنائیں جو مستقل بنیادوں پر تحقیقات، تفتیش اور رپورٹس پر نظر رکھ سکے۔ ریاست پاکستان کو مذکورہ بالا آرٹیکلز کے ذریعے مکمل آزادی حاصل ہے کہ وہ ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کو آگے بڑھانے کیلئے کمیٹی کے قیام کی جانب بڑھیں۔
۶: مذکورہ بالا کنونشنز اور قراردادوں کی روشنی میں کینیا کی حکومت پاکستان کو ارشد شریف سے متعلق مکمل اور درست معلومات فراہم کرنے اور تفتیش میں مکمل تعاون کی پابند ہے، لہذا ریاست پاکستان ان قراردادوں اور کنونشنز کو سامنے رکھتے ہوے کینیا سے ارشد شریف کیس کی مکمل تفتیش، پیش آنے والے واقعات کی مکمل کھوج کا خلوص کے ساتھ تعاون کا مطالبہ کرے۔ مطالبے کی عدم تعمیل کی صورت میں ریاست پاکستان کو حق حاصل ہوگا کہ وہ اقوام متحدہ سے براہ راست رجوع کرلے۔
2: اقوام متحدہ کابین الاقوامی منظم جرائم کے خلاف کنونشن
۱: اقوام متحدہ کامذکورہ بالا کنونشن مختلف ریاستوں میں ہونے والے جرائم کے خاتمے،جرائم میں ملوث بین الاقوامی منظم گروہوں کے خلاف کاروائیاں کرنے، جرائم کو زیادہ موثرا نداز میں روکنے کیلئے لائحہ عمل فراہم کرتاہے اور تعاون کے فروغ کی ترغیب دیتاہے، پاکستان اور کینیا دونوں ممالک نے اس کنونشن کی توثیق کررکھی ہے۔ اس کے آرٹیکل1کے مطابق جرائم میں ملوث نامعلوم افراد کی شناخت میں تعاون سے متعلق ہے، جو ارشد شریف کیس میں موثر ہوسکتا ہے۔ یہ امکان رد نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ارشد شریف کو قتل کرنے کسی منظم جرائم پیشہ نیٹ ورک کا حصہ رہے ہیں، چنانچہ یہ کنونشن ایسے گروہ کے تعاقب میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ یہ اس لئے بھی اہم ہے کہ اس کے اندر ایک جامع طریقہ کار موجود ہے جس کے ذریعے ریاست پاکستان کینیا سے ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے معاملے میں رابطہ کرسکتی ہے، جبکہ کینیا کی حکومت تعاون کی مکمل پابند ہے۔

۲: کنونشن کا آرٹیکل 3سنگین جرائم کے ارتکاب کے حوالے سے تفتیش کے دائرہ کار کی وضاحت کرتا ہے۔ سنگین جرائم سے مراد ایسا جرم ہے جس کی کم از کم سزا چار سال ہو، اسی کنونشن کے آرٹیکل2میں اس کی تعریف دی گئی ہے۔ کنونشن کے آرٹیکل18میں باہمی قانونی مدد کا تفصیلی طریقہ کار موجود ہے، اس کے تحت فریق ریاستیں ایک دوسرے کو وسیع پیمانے پر مکمل قانونی معاونت فراہم کرنے کی پابند ہیں۔ معاونت کے حوالے سے آرٹیکل 18کی شق 3مزید وضاحت کرتی ہے، قانونی معاونت سے مراد مشتبہ/ملوث افراد سے شواہد اور بیانات لینا، تلاشی لینا، ضبط کرنا اور منجمد کرنا، اشیاء اور مقامات کی جانچ کرنا، جرم، جائیداد کی شناخت یا سراغ لگانا شامل ہے۔آلات اور دیگر چیزیں جو ظاہری مقاصد کے لیے ہیں اور کسی بھی دوسری قسم کی مدد جو ریاست کے ملکی قوانین کے خلاف نہ ہو۔قانونی معاونت کے لیے درخواست کرنے کا طریقہ آرٹیکل 18(14) اور 18(15) میں تفصیل سے موجود ہے، جس کے تحت ریاست پاکستان کینیا کو باضابطہ تحریری درخواست دے سکتی ہے، جبکہ کینیا معاونت کا مکمل پابند ہے۔ اس کنونشن کی موجودگی کی صورت میں ریاست پاکستا ن کو کینیا سے کسی دوسرے معائدے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
۳: مذکورہ بالا کنونشن کا آرٹیکل19 تحقیقات کیلئے بھی مکمل اجازت فراہم کرتا ہے، جس کی علیحدہ درخواست کینیا کو لکھی جاسکتی ہے جس کے ذریعے اس معاملے میں جوائنٹ انویسٹی گیشن کے راستے کھلتے ہیں۔ آرٹیکل 19کے تحت اطمینان بخش تحقیقات ہوسکتی ہیں،لہذا کہا جاسکتا ہے کہ یہ کنونشن ارشد شریف کے قتل کیس کی تحقیقات کیلئے تمام اسباب اور طریقہ کار فراہم کرتا ہے۔
3: تشدد کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشنز1984
۱: مذکورہ بالامعاہدے کی توثیق کینیا نے 21فروری1997 اور پاکستان نے 23جون2010میں کی تھی۔ یہ کنونشن بنیادی طور پر کسی قسم کے تشدد، استحصال اور غیرانسانی و ذلت آمیز سلوک کو جرم قرار دینے سے متعلق ہے۔ ریاست پاکستان اقوام متحدہ کے اس کنونشن کا سہارا لیتے ہوئے ارشد شریف پر ممکنہ تشدد کے بارے میں حقائق کا پتہ لگاسکتی ہے جس کے نتیجے میں ان کی موت واقع ہوئی ہے۔
۲: کنونشن کے آرٹیکل1میں تشدد کی تعریف کی گئی ہے۔ کسی بھی ایسے عمل کو جس کے ذریعے کسی بھی شخص کو شدید درد یا تکلیف، جسمانی یا ذہنی اذیت دی جاتی ہے،تشدد کہلاتا ہے۔ کنونشنز کے آرٹیکل 2 اور 4 نے ریاستوں پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاملے پر قانون سازی کریں اور ہر قسم کے تشدد کو غیر قانونی قرار دیں اور انہیں فوجداری قانون کی طرح جرم قرار دیا جائے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ کنونشن تشدد کے نتیجے میں موت کے واقعات کا بھی احاطہ کرتا ہے۔
۳: کنونشن نے تشدد کی کاروائیوں کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے روکنے کی ہدایات کی ہیں۔ آرٹیکل12سے لے کر14تک تشدد کی شکایات اور الزامات سے نمٹنے کا احاطہ کرتے ہیں۔ آرٹیکل12ریاستوں پر زور دیتا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ تشدد کی فوری اور غیرجانبدارانہ تحقیقات ہوں۔ آرٹیکل13متاثرہ شخص یا فیملی کو حق دیتا ہے کہ وہ تشدد کی شکایت کرے او ر ریاست شکایت کے طریقہ کار کو وضع کرے۔ آرٹیکل 14تشدد کے شکار شخص کو انصاف کی فراہمی کی ضمانت دیتا ہے۔ ریاست پاکستان اس کنونشن کے تحت کینیا سے کھلی تحقیقات کی درخواست کرنے کی مجاز جبکہ کینیا تعاون کا پابند ہے۔
۴: آرٹیکل 17کے تحت10 ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی جاسکتی ہے جو مذکورہ کنونشن کے اطلاق، ممکنہ خلاف ورزیوں اور جائزے کی رپورٹ حاصل کرنے اور اٹھائے گئے اقدامات کا جائزہ لینے کی مجاز قرار دی گئی ہے۔ یہاں آرٹیکل 20کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جس کے تحت ریاست تحریری طور پر کمیٹی بنانے کا مطالبہ کرسکتی ہے،جس میں وہ کسی ملک میں اس کنونشن میں ہونے والی خلاف ورزی پر بھی آگاہی فراہم کرسکتی ہے، کمیٹی ان خلاف ورزیوں کا نوٹس لینے اور آزاد تحقیقات کرانے کی پابند ہے، لہذا ریاست پاکستان کو چاہیے کہ ارشد شریف پر تشدد کی تحقیقات کیلئے آزاد ماہرین کی ایک کمیٹی کی درخواست کرے جو اس کنونشن کے دائرہ کار میں ہے۔
۵: مزیدبرآں آرٹیکل21اور22ریاستوں پر زور دیتا ہے کہ وہ اپنی ریاست کے اندر ممکنہ کونشن کی خلاف ورزیوں کے سلسلے میں معلومات تک کمیٹی کو رسائی دے تاکہ کنونشن کا عمل درآمد مکمل طور پر یقینی بنایا جاسکے۔ پاکستان اور کینیا نے اس کنونشن کی مکمل توثیق کررکھی ہے لہذا حکومت پاکستان کمیٹی کیلئے باضابطہ تحریری درخواست دے سکتی ہے۔ تاکہ ارشد شریف کے قتل کے پیچھے ممکنہ طور پر تشدد کی اطلاعات کی تحقیقات بھی ہوسکیں۔ اگر اس سلسلے میں ماہرین کی کمیٹی وجود میں آتی ہے تو وہ پہلے پاکستان سے مکمل معلومات لے گی اور پھر کینیا سے اس متعلق وضاحت اور تفصیلات کا مطالبہ کرے گی، حتمی رپورٹ کیلئے میٹنگز بھی بلائی جاسکتی ہیں۔ یہ طریقہ کار بھی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کیلئے موزوں ہوگا، جس میں دونوں ریاستیں معلومات کا تبادلہ کریں، تاکہ انصاف کا راستہ کھلے۔
شہریوں کے سول و سیاسی حقوق پر بین الاقوامی کنونشن1966:
۱۔ یہ کنونشن (ICCPR) تمام انسانوں کے ناقابل تنسیخ حقوق کے تحفظ کیلئے منظور کیا گیا ہے، اس کنونشن نے اقوام متحدہ کی ممبر ریاستوں کوانسانی حقوق کی آزادیوں کے احترام، سیاسی حقوق کے تحفظ اور فروغ کا پابند بنایا ہے۔ اس کی توثیق پاکستان اور کینیا دونوں نے کررکھی ہے۔ آئی سی سی پی آر میں اس کے نفاذ کا ایک مکمل لائحہ عمل موجود ہے، جسے ریاست پاکستان کینیا کی حکومت پر ارشد شریف کے معاملے میں شفاف تحقیقات کیلئے استعمال کرسکتی ہے۔
۲۔ اس کنونشن کا آرٹیکل3ریاستوں کویقینی بناتا ہے کہ ایسے افراد جن کے حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے ان کیلئے انصاف کی فراہمی ہوسکے۔ گو کہ کسی کے حقوق کی خلاف ورزی ریاستی سطح پر، سرکاری افراد کے ذریعے بھی کیوں نہ ہو، ریاست اس کا ہر صورت میں ازالہ کرے گی۔ آرٹیکل6زندگی کے بنیادی حقوق اور تشدد سے تحفظ کی یقین دہانی کراتا ہے، آرٹیکل 7آزادی کے حق اور غیرقانونی حراستوں سے تحفظ دیتا ہے۔ مزید برآں، آرٹیکل 19یہ حق دیتا ہے کہ ہر شخص کو آزادی اظہار رائے کا مکمل حق حاصل ہے۔
۳۔ اس کنونشن کے تحت بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر ریاست پاکستان کینیا سے دیئے گئے طریقہ کار کے ذریعے رابطہ کرکے جوابدہی کرسکتی ہے۔ریاست پاکستان آزاد کمیٹی کو درخواست لکھ سکتی ہے کہ کینیا کی حکومت تحفظات دور کرنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ آزادکمیٹی دونوں ریاستوں کے درمیان ایک دوستانہ حل نکالنے کی کوشش کرے گی اور شکایت میں تمام ریکارڈ کا جائزہ لینے کے بعد آخر میں ایک رپورٹ شائع کرے گی۔
۴۔ اگر معاملہ اوپر بیان کردہ طریقہ کار کے مطابق حل نہیں ہوتا ہے توکمیٹی کو ایک کمیشن بنانے کا اختیار حاصل ہوتا ہے جو اس کے بعد حکومت پاکستان کی طرف سے دیئے گئے ثبوت و اطلاعات پر غور کرے گا۔ کمیشن زیادہ سے زیادہ ایک سال کے اندر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرے گا۔

۔ اقوام متحدہ کے خصوصی اختیارات :
۱۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کیلئے کونسل کو ایک خصوصی قرارداد 60/251کے تحت تشکیل دیا گیا، یہ ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جو کہ 47رکن ممالک پر مشتمل ہے۔ کونسل کو مختلف بین الاقوامی معاملات پر آزاد ماہرین کے تقرر کا اختیار بھی حاصل ہے۔
۲۔ انسانی حقوق کونسل (HRC)آزاد ادارہ ہے۔جسے یہ مینڈیٹ حاصل ہے کہ وہ مختلف ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور رحجانات کی نگرانی کرے، اس کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر تحقیقات و معلومات جمع کرے۔ اقوام متحدہ کی مختلف قراردادیں انسانی حقوق کونسل کو اختیارات دیتی ہیں جس کے تحت وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پرمعلومات اکٹھی کریں اسکے لئے وہ خود سے نوٹس لے سکتے ہیں اور انہیں درخواست بھی جمع کرائی جاسکتی ہے۔ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے معاملے میں قابل اعتماد معلومات حاصل کرنے کیلئے حکومت پاکستان انسانی حقوق کونسل سے رابطہ کرسکتی ہے۔
ا۔ قرارداد43/4: اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں آزادی اظہار رائے کے تحفظ اور فروغ کا سب سے موزوں طریقہ کار 1993میں ایک قرارداد (E/CN.4/1993/L.48) کے ذریعے دیا گیا۔ اس قرارداد میں دیئے گئے طریقہ کار کا اطلاق ضروری ہے۔ جس میں ایک خصوصی نمائندے کے ذریعے درج ذیل مینڈیٹ حاصل ہے۔
(a) جہاں کہیں بھی آزادی اظہار رائے کی خلاف ورزی ہو، آزادی اظہار رائے کو دبانے کیلئے تشدد کیا جائے، ہراساں کیا جائے یا دھمکیاں دی جائیں، اس معاملے کی مکمل معلومات حاصل کرنا۔
(b) حکومتی و غیر حکومتی تنظیموں کے ذریعے معلومات حاصل کرنا۔ ذرائع کے ذریعے آزادی اظہار رائے کی خلاف ورزیوں کی تفصیلات لینا۔
۲۔ قرارداد 44/4: انسانی حقوق کونسل کی قرارداد (E/CN.4/1982/35)کے تحت ماروائے عدالت قتل کا خلاصہ حاصل کرنے کیلئے ایک خصوصی نمائندہ مقرر کیا جاسکتا ہے۔ انسانی حقوق کونسل نے اس قرارداد کی 2020میں دوبارہ توثیق بھی کررکھی ہے۔ اس خصوصی نمائندے کے مینڈیٹ میں ماروائے عدالت قتل کے تمام حالات، محرکات اور سنگین خلاف ورزیوں کا جائزہ لینا ہے اور ان حالات کی جانب انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کی توجہ مبذول کروانا ہے۔ مذکورہ بالا خصوصی طریقہ کارکے ذریعے سعودی صحافی جمال کاشگوئی کے قتل کے بارے میں معلومات اکٹھی کی گئی تھیں۔ ارشد شریف کے قتل کی تحقیق کیلئے بھی یہ راستہ اپنایا جاسکتا ہے۔
۳۔ یہ بات قابل غور ہے کہ مذکورہ بالا طریقے سے خصوصی نمائندے معلومات کے حصول اور حقائق کی تلاش کیلئے ان ممالک کے دورے کرسکتے ہیں، جہاں انسانی حقوق کی پامالی ہوئی ہے۔اگر اس سارے عمل کے دوران کینیا تحقیقات میں رکاوٹ کرتا ہے تواقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی آزاد کمیٹی اس معاملے کی براہ راست تحقیقات کینیا کی حدود کے اندر کرنے کا اختیار بھی رکھتی ہے۔ اس سارے عمل کیلئے کینیا کو کسی معائدے کی توثیق ہونا بھی ضروری نہیں ہے، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو کینیا میں براہ راست تحقیقات کا مکمل اختیار حاصل ہوجائے گا۔
۴۔ درج بالا خصوصی طریقہ کار کیلئے قرارداد میں دیئے گئے طریقے کے تحت ایک تحریری درخواست اور ضابطہ اخلاق اپنایا جائے گاجس کے بعد کمیٹی کو مینڈیٹ حاصل ہوجائے گا۔ اس میں ارشد شریف کیس کی تحقیقات کے ساتھ ساتھ ان کے معاملے میں روا رکھی گئی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ مزید برآں اس طریقہ کار کے تحت کینیا کے اندر حقائق کی تلاش، جانچ پڑتال اور تفتیش کیلئے خصوصی کمیٹی کام کرے گی۔ مواصلات کا طریقہ کار ہائی کمشنر کی ویب سائٹ پر درج ہے۔ اس سارے طریقہ کار کا کوڈ آف کنڈکٹ بھی واضح ہے۔ یہ وہ لائحہ عمل ہے جس پر چلتے ہوئے ارشد شریف کے قتل کے شواہد کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔
6: صحافیوں کی حفاظت اور تحفظ کیلئے علیحدہ علیحدہ قراردادیں اور طریقہ کار
۱۔ صحافیوں کے معاملے میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں، فرائض کی انجام دہی میں حائل رکاوٹیں اور صحافیوں کے خلاف جرائم اور خطرات کے واقعات روز بروز سامنے آتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے اس سلسلے میں متعدد قراردادیں منظور کررکھی ہیں۔ ممبر ریاستیں ان قراردادوں پر عمل درآمد کی مکمل پابند قرار دی گئی ہیں۔ ارشد شریف کے قتل کے معاملے میں چونکہ مجرم تاحال آزاد ہیں لہذا اقوام متحدہ کے صحافت اور صحافیوں کیلئے منظور قراردادوں کو بھی سامنے رکھتے ہوئے اس کیس کی تحقیقات ممکن بنائی جاسکتی ہیں۔
۲۔ قرارداد 1738/2006 : یہ قرارداد فوجی تنازعات کے اندر بے گناہ شہریوں اور میڈیا سے وابستہ افراد کے تحفظ کی بات کرتی ہے۔ قرارداد میں ممبر ریاستوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ جنگی حالات اور آپریشنز میں بھی صحافیوں کو نقصان پہنچانے یا ان کی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات یقینی بنائیں۔ اس قرارداد کا آرٹیکل 2وضاحت کرتا ہے کہ میڈیا ورکرز کو معصوم شہریوں کی حیثیت حاصل ہے اور انہیں ان کے فرائض کی انجام دہی میں تحفظ فراہم کیا جائے۔
۳۔ قرارداد2222/2015: اقوام متحدہ کی یہ قرارداد صحافیوں کے تحفظ پر زور دیتی ہے۔ یہ قرارداد ممبر ریاستوں کو صحافیوں کے حقوق کی خلاف ورزی کر نے والوں کے ذمہ داران کے خلاف اقدامات پرتجاویز دیتی ہے۔ قرارداد کے آرٹیکل 15 اور 16 صحافیوں کے تحفظ کے مقاصد کے لیے ریاستوں کے درمیان تعاون پر زور دیتے ہیں۔
۴۔ قرارداد29، یونیسکو: یونیسکو کی یہ خصوصی قرارداد صحافیوں کے خلاف تشددکی مذمت کرتی ہے۔یہ قرارداد آزادی اظہار رائے سے متعلق انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے آرٹیکل19کا اعادہ کرتی ہے۔یہ قرارداد تجویز کرتی ہے کہ ریاست ایسی قانون سازی کرے جس میں آزادی اظہار رائے حاصل ہو اور اس کو روکنے کیلئے کیے جانے والے جرائم کا سدباب ہوسکے۔
5۔ قرارداد33/2: صحافیوں کے تحفظ سے متعلق قرار دادوں میں سب سے اہم قرارداد 33/2 ہے، جو نہ صرف رکن ممالک پر زور دیتی ہے کہ وہ صحافیوں کے تحفظ کیلئے حکمت عملی بنائیں، ساتھ ساتھ اس کا آرٹیکل17کہتا ہے کہ صحافیوں کے خلاف حملوں اور تشدد کی تحقیقات کے بارے میں ریاستیں مشترکہ کاوشیں کریں۔لہٰذا حکومت پاکستان مذکورہ قراردادوں کے تحت اقوام متحدہ سے رجوع کر سکتی ہے تاکہ کینیا میں ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کیلئے مزید دباؤ ڈالا جاسکے۔
6۔ قرارداد104: متبادل کے طور پر پاکستانی حکام قرارداد 104کے مطابق دیئے گئے طریقہ کار کو زیر استعما ل لاسکتے ہیں۔ یونیسکو کی قرارداد 104میں انسانی حقوق کونسل کی زیر نگرانی طریقہ کار دیا گیا ہے،قرارداد کے آرٹیکل 7 کے مطابق یونیسکو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملات پر غور کرے گا۔ جن کی تعریف 1966 کے انسانی حقوق کے معاہدوں کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ 1948 کے تحت کی گئی ہے۔ معلومات کا حق اور اظہار کی آزادی 1966ء کے معاہدوں کے آرٹیکل 19 میں رکھی گئی ہے۔ مزید برآں‘ اس طریقہ کار میں انفرادی شکایات کے ساتھ ساتھ مجموعی خلاف ورزیوں سے متعلق معلومات بھی قابل قبول ہیں۔

7۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ یونیسکو فریق ریاستوں کے درمیان تعاون، مفاہمت اور افہام و تفہیم کے جذبے کے تحت کام کرتا ہے۔ معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے ساتھ ساتھ کسی بھی نتیجے تک پہنچنے کیلئے لیے گئے اقدامات کو خفیہ رکھا جاسکتا ہے جو پاکستان اور کینیا دونوں کے حق میں ہوں گے، ایسے انتظامات کیے جائیں جن سے سے دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات میں بگاڑ کے بغیر کسی نتیجے پر پہنچا جاسکے۔
8۔ واضح رہے کہ اوپر ذکر کی گئی قرارداد کے آرٹیکل 14اور15میں مواصلات کا جامع نظام موجود ہے۔ مواصلات کے طریقے کے ذریعے یونیسکو کے ڈائریکٹر جنرل مواصلات موصول کریں گے اور اسے انسانی حقوق کی کمیٹی اور متعلقہ ریاست کو بھیجیں گے۔ اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد کمیٹی دونوں ممالک کیلئے قابل قبول حل تجویز کرے گی جس کے ذریعے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ازالہ ہوسکے گا۔

مترجم کی پاکستان کی عدلیہ سے اپیل

معزز چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان

سپریم کورٹ نے ارشد شریف کے معاملے پر ہزاروں خطوط موصول ہونے کے بعد ازخود نوٹس لیا جس کے بعد سے لے کر تاحال قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوسکی، قوم کی آپ سے امیدیں ہیں۔ محض تاریخ پہ تاریخ دینے کے بجائے حکام کو تحقیقات کیلئے مجبور کیا جائے۔ پوری قوم کی نظریں آپ کی جانب ہیں۔ آپ پاکستان میں انصاف کی سب سے بڑی کرسی پر ہیں اور یہ سعادت آپ کے حصے میں آئی ہے کہ آپ انصاف کی فراہمی یقینی بنائیں۔ ارشد شریف کے دیار غیر میں قتل کی تحقیقات، پاکستان سے جانے کے محرکات جاننا ہر پاکستانی کا حق ہے۔ براہ کرم اپنا بھرپور کردار ادا کیجئے۔

اللہ پاک پاکستان و اہل پاکستان کا حامی و ناصر ہو
50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں