مصطفی چمران اکتوبر 1932 میں تہران میں پیدا ہوئے، وہ کم عمری میں ہی ذہین تھے ۔ یونیورسٹی آف تہران سے انہوں نے الیکٹرو مکینیکل انجینئرنگ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی، جس کے بعد وی سکالرشپ حاصل کرنے کے بعد،امریکہ پہنچ گئے۔ جہاں ٹیکساس اے اینڈ ایم اور پھر یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے سے الیکٹرانکس اور پلازما فزکس میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔ وہ اس مقام پر پہنچ چکے تھے جسے دنیا کے لاکھوں نوجوان خواب سمجھتے ہیں، مگر چمران کے لیے ذاتی آسائش، شہرت اور دولت کبھی مقصد نہیں بنے۔ ان کے لیے اصل مقصد خدا کی راہ میں جدوجہد اور ان اقدار کا دفاع تھا جن پر وہ ایمان رکھتے تھے۔
امریکہ میں قیام کے دوران بھی وہ محض ایک سائنسدان نہیں رہے بلکہ سیاسی اور فکری جدوجہد میں متحرک رہے۔ انہوں نے مسلم سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن اور ایرانی طلبہ کی تنظیموں کی بنیاد رکھی جس کے نتیجے میں شاہی حکومت نے ان کی اسکالرشپ منسوخ کردی۔ اس کے باوجود انہوں نے ہار نہیں مانی اور ناسا جیسے ادارے میں ملازمت اختیار کی مگر ان کا دل وہاں بھی مطمئن نہ ہو سکا۔ انہوں نے جلد ہی ناسا کی نوکری کو چھوڑ دیا۔ عمل کے بغیر علم ان کے نزدیک بے معنی تھا۔ اسی جذبے کے تحت انہوں نے اقوام متحدہ میں احتجاج کیا، گرفتاری اور تشدد برداشت کیا، اور پھر خفیہ طور پر مصر جا کر گوریلا جنگ کی سخت تربیت حاصل کی۔ 2 سال تک وہ ایسی جگہ موجود رہے جہاں دنیا کی بڑی خفیہ ایجنسیاں بھی ان کی موجودگی سے لاعلم رہیں۔ امریکہ واپس آ کر بھی وہ زیادہ دیر نہ رک سکے، کیونکہ استعماری اور سرمایہ دارانہ فضا ان کے لیے گھٹن بن چکی تھی۔
ایران میں مسلح جدوجہد کے مواقع نہ ملنے پر وہ لبنان گئے، جہاں امام موسیٰ صدر کے ساتھ مل کر اسرائیل کے خلاف مزاحمت میں مصروف رہے۔ اسی جدوجہد کے نتیجے میں امل تحریک اور اعلیٰ اسلامی شیعہ کونسل جیسے ادارے وجود میں آئے۔ لبنان میں ہی ان کی ملاقات غادہ جابر سے ہوئی، جنہوں نے ان کی شخصیت کے اس نرم، شاعر مزاج اور انسان دوست پہلو کو دنیا کے سامنے رکھا جو ایک گوریلا کمانڈر کے بارے میں کم ہی تصور کیا جاتا ہے۔
1979 میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد وہ 23 سال بعد ایران واپس لوٹے تاکہ اپنے تجربات وطن اور اسلام کے لیے وقف کر سکیں۔ کردستان کے بحران، خصوصاً پاوہ کے محاصرے میں، ان کی عسکری بصیرت اور جرات فیصلہ کن ثابت ہوئی۔ اسی کردار کے باعث وہ وزیر دفاع بنے اور بعد ازاں پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے، مگر اقتدار اور عہدہ کبھی ان کی ترجیح نہیں رہا۔صدام کی یلغار کے بعد وہ جنوبی محاذ پر پہنچے اور اہواز میں غیر منظم جنگی ہیڈکوارٹر قائم کیا۔ وہ کمانڈر ہوتے ہوئے بھی ہمیشہ اگلی صف میں نظر آئے، زخمی ہونے کے باوجود میدان چھوڑنے سے انکار کیا، اور عصا کے سہارے دوبارہ محاذ پر پہنچ گئے۔ بالآخر 48 سال کی عمر میں دہلاویہ کے محاذ پر مارٹر شیل لگنے سے وہ شہید ہو گئے۔
ڈاکٹر مصطفیٰ چمران کی زندگی اس بات کی گواہی ہے کہ ایک انسان بیک وقت اعلیٰ درجے کا سائنسدان، عارف، مجاہد، انقلابی اور حساس دل رکھنے والا انسان ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ سید علی خامنہ ای نے کہا، وہ علم اور جہاد کا زندہ نمونہ تھے، جن کے لیے نہ دولت اہم تھی، نہ شہرت، بلکہ صرف حق کی راہ میں ثابت قدمی کیساتھ وہ ڈٹے رہے۔