بہار کے وزیر اعلیٰ نے ایک مسلمان خاتون ڈاکٹر کا نقاب کھینچ لیا، جب وہ اسے ایوارڈ دے رہے تھے۔بہار کے وزیراعلیٰ کی جانب سے ایک مسلمان خاتون ڈاکٹر کے حجاب کو ہاتھ لگانا محض ایک فرد کا غیر مناسب عمل نہیں، بلکہ یہ اُس سوچ، اُس نظام اور اُس ریاستی رویّے کی عکاسی ہے جو برسوں سے مسلمانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔
یہ وہی بھارت ہے جہاں کبھی گاؤ رکشا کے نام پر مسلمانوں کو قتل کیا جاتا ہے، کبھی حجاب پر پابندی لگا کر لڑکیوں کو تعلیم سے دور کیا جاتا ہے، اور اب سرکاری تقریب میں ایک باحجاب مسلمان لڑکی کو ہراساں کیا جاتا ہے۔یہ سوال صرف نتیش کمار کے عمل کا نہیں، بلکہ اس پورے سیاسی ماحول کا ہے جسے نریندر مودی نے پروان چڑھایا ہے۔ جب مرکز میں بیٹھا وزیراعظم خود مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانیے کو ہوا دے، جب ریاستی سرپرستی میں ہجوم انصاف کرے، جب عدالتیں خاموش رہیں اور میڈیا اندھا بہرا بن جائے، تو پھر بہار جیسے صوبے میں ایک وزیراعلیٰ کا اس حد تک گر جانا کوئی اتفاق نہیں رہتا، بلکہ ایک تسلسل بن جاتا ہے۔ یہ تسلسل مسلمانوں کی تذلیل، ان کی شناخت پر حملے اور ان کے وقار کو پامال کرنے کا تسلسل ہے۔
ایک سرکاری تقریب، جہاں 1000 سے زائد ڈاکٹرز کو تقرری کے خطوط دیے جا رہے ہوں، وہاں ایک مسلمان لڑکی کے مذہبی لباس کو نشانہ بنانا اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت میں مسلمان ہونا اب بھی ایک جرم سمجھا جاتا ہے۔ یہ لڑکی ایک ڈاکٹر ہے، ایک پروفیشنل ہے، ریاست کی خدمت کے لیے منتخب ہوئی ہے، مگر اس کی قابلیت، اس کی محنت اور اس کا مقام سب اس کے حجاب کے نیچے دفن کر دیا گیا۔ کیا یہی ہے مودی کا نیا بھارت؟ کیا یہی وہ جمہوریت ہے جس پر دنیا کو لیکچر دیے جاتے ہیں؟مودی حکومت اور بہار کی ریاستی حکومت کو اس واقعے پر شرم آنی چاہیے۔ ایک مسلمان خاتون کو اس کے مذہبی تشخص کی بنیاد پر ہراساں کرنا صرف اخلاقی جرم نہیں بلکہ ایک سیاسی پیغام ہے کہ مسلمان اس ملک میں محفوظ نہیں، باعزت نہیں اور برابر کے شہری نہیں۔
اگر یہی حرکت کسی ہندو خاتون کے مذہبی لباس کے ساتھ کی جاتی تو کیا ردعمل یہی ہوتا؟ کیا تب بھی حکومت خاموش رہتی؟ یا پورا میڈیا طوفان کھڑا کر دیتا؟یہ واقعہ بھارت کے سیکولر آئین پر ایک اور طمانچہ ہے۔