ایران اس وقت امریکہ اور اسرائیل کے نشانے پر ہے۔مغربی مبصرین، سیکیورٹی سے متعلق ادارے اور عالمی میڈیا چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ سال 2025 ایران اسرائیل کی کھلی جنگ کا سال ہوسکتا ہے۔ جس میں اسرائیل ایران کے جوہری پروگرامز کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کی تازہ رپورٹ کے مطابق، امریکہ پہلے ہی اسرائیل کو ایسے جدید بم فراہم کر چکا ہے جو ایران کی گہرائی میں موجود جوہری تنصیبات کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ اس پیش رفت سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ اسرائیل ایران کی جوہری صلاحیتوں کو ختم کرنے کے لیے حملے کی تیاری کر رہا ہے، چاہے اسے امریکہ کی براہ راست مدد حاصل ہو یا نہ ہو۔ رپورٹ کے مطابق، امریکہ نے اسرائیل کو جی بی یو 28 اورجی بی یو 72 جیسے بم فراہم کیے ہیں، جو خاص طور پر زیر زمین سخت ترین اہداف کو تباہ کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ یہ بنکر بسٹر بم سمجھے جاتے ہیں اور ایسے جوہری مقامات کو نشانہ بنا سکتے ہیں جو مضبوط سیکیورٹی اور گہرائی میں بنائے گئے ہوں۔

ایران کی کئی جوہری تنصیبات، خاص طور پرفردو میں موجود پلانٹ، زمین کے نیچےپہاڑوں میں دبے ہوئے ہیں تاکہ کسی بھی فضائی حملے سے محفوظ رہیں۔ تاہم، اسرائیل کے F35 اور F15 طیارے اور امریکی بموں کی موجودگی سے ایران کے جوہری انفراسٹرکچر کے لیے خطرہ بڑھ گیا ہے۔ اگر ہم اسرائیل کے ممکنہ اہداف پر نگاہ دوڑائیں تو ان میں فردو نیوکلیئر پلانٹ ہوسکتا ہے۔فردو نیوکلیئر پلانٹ،پہاڑوں کے نیچے 80 میٹر گہرائی میں قائم یہ تنصیب ایران کے یورینیم افزودگی کے اہم مراکز میں شامل ہے۔اسی طرح نطنز جوہری تنصیب کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے،جو کہ ایران کا سب سے بڑا یورینیم افزودگی کا مرکز ہے، جو ماضی میں سائبر حملوں اور دھماکوں کا نشانہ بن چکا ہے۔ اسی طرح اسرائیل اصفہان اور اراک تنصیبات کو نشانہ بنانے کی کوشش کرسکتا ہے، جہاں ایران جوہری ری ایکٹرز اور دیگر حساس مواد تیار کرتا ہے۔
اسرائیل کے وزیر دفاع اور اعلیٰ فوجی حکام کے مطابق، اگر امریکہ نے حملے میں ساتھ نہ بھی دیا، تب بھی اسرائیل ایران پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہے۔قابض اسرائیل کی ہٹ دھرم فوجی قیادت اورموساد پہلے ہی ایران کے خلاف کئی خفیہ کارروائیاں کر چکے ہیں، جن میں ایرانی سائنسدانوں کا قتل، سائبر حملے، اور تنصیبات پر تخریب کاری شامل ہے۔ اسرائیل کے مطابق اسرائیلی فضائیہ کی ری فیولنگ صلاحیت میں بہتری آئی ہے، جو اسے ایران کے اندر طویل فاصلے کے حملے کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ اسرائیل نے حالیہ مہینوں میں ایران کے خلاف جارحانہ موقف اختیار کیا ہے اور ایرانی سرزمین پر حملے کے امکان کو رد نہیں کیا۔ اگرچہ امریکہ نے اسرائیل کو جدید ہتھیار فراہم کیے ہیں، لیکن واشنگٹن سرکاری طور پر سفارتی حل کو ترجیح دیتا ہے۔ ایک جانب امریکی حکام ایران کیخلاف یک طرفہ حملے کی مخالفت کرچکے ہیں جس سے بظاہر پورے مشرق وسطیٰ میں جنگ بھڑکنے کا خطرہ ہے لیکن دوسری جانب ٹرمپ کے بیانات، الیکشن مہم کے دوران کی گئی تقریریں، کئی قسم کے خدشات پیدا کرتی ہیں۔ اگر اسرائیل حملہ کرتا ہے، تو امریکہ کو ممکنہ طور پرایران کے جوابی اقدامات کے خلاف اپنے اتحادیوں کو بچانے میں مداخلت کرنی پڑے گی۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق اگر اسرائیل حملہ کرے گا تو اسے امریکہ کی مکمل آشیرباد حاصل ہوگی۔

ایران نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل حملہ کرتا ہے، تو اس کے خلاف زبردست جوابی کارروائی کی جائے گی، جس میں اسرائیل کے فوجی اڈے اور تنصیبات نشانہ بن سکتے ہیں۔ایران کے ردعمل اور جوابی حملے کی طاقت کی بات کی جائے تو وہ بھی واضح ہے۔ایران نے اپنی فضائی دفاعی صلاحیت کو مضبوط بنانے کے لیے مختلف جدید میزائل سسٹمز نصب کیے ہیں، جن میں روسی ساختہ ایس 300 دفاعی نظام شامل ہے۔ یہ جدید ترین دفاعی نظام طویل فاصلے تک لڑاکا طیاروں، ڈرونز، اور بیلسٹک میزائلوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسی طرح ایران کے پاس باوار 373 سسٹم موجود ہے۔ یہ ایران کا ایس 400 کے برابر مقامی دفاعی نظام ہے، جو 300 کلومیٹر تک اہداف کو تباہ کر سکتا ہے۔ اسرائیلی F16 اور F35 جیسے لڑاکا طیاروں کو نشانہ بنانے کے لیے ایران کے پاس خورداد 3 اور خورداد 15 کے جدید دفاعی سسٹم بھی موجود اور فعال حالت میں ہیں۔ 2019 میں ایران نے اسی سسٹم سے ایک امریکی ڈرون آر کیو 4 مار گرایا تھا۔ اسی طرح ایران کے پاس ٹورایم 1 اور راڈ 2 جیسے چھوٹے سسٹم بھی ہیں جو کم فاصلے کے میزائل سسٹمز جو اسرائیلی کروز میزائلوں اور ڈرونز کو روک سکتے ہیں۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ ایران کے پاس جوابی کاروائی کی صلاحیت کتنی ہے۔ ایران کے پاس دنیا کا سب سے بڑا بیلسٹک میزائل پروگرام ہے، جس میں جدید میزائل شامل ہیں۔ شہاب تھری کی بات کی جائے تو یہ 2000 کلومیٹر تک مار کرنے والا بیلسٹک میزائل ہے۔ایران کے پاس ٹھوس ایندھن سے چلنے والا سیجل 2 میزائل ہے جو اسرائیل کے اینٹی میزائل سسٹم کو چکما دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔خیبر شکن کی بات کریں تو یہ اسرائیل کے آئرن ڈوم سسٹم کو توڑنے کیلئے ڈیزائن کیا گیا ہائپر سانک میزائل ہے۔فتح 110 مختصر فاصلے تک مار کرنے والے میزائل ہیں ، جو ایران کے علاقائی اتحادیوں کے ذریعے اسرائیل پر داغے جا سکتے ہیں۔ اگر ایران نے حملے کا جواب دینے کا فیصلہ کیا تو یہ تل ابیب، حیفا، اور اسرائیل کے حساس فوجی اڈوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔آیرن ڈوم مختصر فاصلے کے میزائلوں کو روک سکتا ہے، لیکن اگر ایران سینکڑوں میزائل ایک ساتھ فائر کرے تو یہ نظام فیل ہو سکتا ہے۔ایران کے ہائپرسونک میزائل اسرائیلی دفاعی نظام کو چکمہ دے سکتے ہیں۔ایران کی جوابی کاروائی میں ایرانی حمایت یافتہ مزاحمت بھی شامل ہوکر حملے کو مزید موثر بنا سکتی ہے اور اسرائیل کو ہر جانب سے گھیرا جاسکتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ایران کے پاس جدید سائبر ہتھیار موجود ہیں، جن کا استعمال وہ اسرائیل کے خلاف کر سکتا ہے جن میں بجلی کے گرڈ، واٹر سپلائی، اور فوجی کمیونیکیشن سسٹمز پر حملے، بینکنگ اور ٹرانسپورٹ نیٹ ورکس کو مفلوج کرنا شامل ہوسکتا ہے،ڈرون اور آئرن ڈوم جیسے دفاعی نظام میں خلل ڈالنا بھی سائبر حملوں میں شامل ہوسکتا ہے۔ماضی میں ایران اسرائیلی آبی نظام اور سیکیورٹی سرورز پر حملے کر چکا ہے۔اسرائیل بھی ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر سائبر حملے کر چکا ہے، لیکن اب ایران اپنی سائبر دفاعی صلاحیت بہتر کر چکا ہے۔

اس جنگ کے ممکنہ نتائج کو دیکھ لیتے ہیں۔اگر اسرائیل ایران پر حملہ کرتا ہے، تو اس کے کئی ممکنہ نتائج ہو سکتے ہیں۔ جس میں مشرق وسطیٰ میں ایک وسیع جنگ کا آغاز بھی شامل ہے۔مصر، اردن ،عراق، سیریا اور لبنان اس جنگ سے الگ تھلگ نہیں رہ سکیں گے،حزب اللہ، حماس، اور یمن کی افواج اسرائیل پر حملے کر سکتے ہیں۔ ایران کی جوابی کاروائی میں اسرائیل کے شہروں، امریکی اڈوں، اور سعودی عرب یا بحرین جیسے ممالک میں موجود امریکی اڈوں پر میزائل حملے ہو سکتے ہیں۔ خلیجی ممالک میں کشیدگی کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہو سکتا ہے، جس سے عالمی منڈی متاثر ہوگی۔
اسرائیل کی ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کی خواہش اور امریکہ سے ملنے والی جدید ہتھیاروں کی سپلائی خطے میں شدید کشیدگی کو جنم دے رہی ہے۔ اگر اسرائیل حملہ کرتا ہے، تو یہ مشرق وسطیٰ میں ایک بڑے تنازعے کو جنم دے سکتا ہے، جس میں کئی عالمی طاقتیں ملوث ہو سکتی ہیں۔ضرورت اس امرکی ہے کہ ملت اسلامیہ اسرائیل کیخلاف متحد ہو، ماضی میں فلسطین، لبنان اور سیریا کی تباہی میں اسرائیل کا ہاتھ تھا، اب اس کے ہاتھ ایران کی جانب بڑھ رہے ہیں، اسرائیل سے اردن، شام حتیٰ کہ سعودی عرب بھی محفوظ نہیں ہے۔ فلسطین کی آزادی کی جنگ عرب مسلم ممالک کے بقا کی جنگ ہے۔ مگر یہ بات ابھی تک مسلمان حکمران سمجھ نہیں پارہے یا محض کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔