اسماعیل ہنیہ کی شہادت اور سفر حریت

تحریر: رضی طاہر ، اسلام آباد

مصلے پر کھڑے ہوں تو دنیا کو امامت سکھائیں اور میدان کارزار میں اتریں تو مزاحمت کی تاریخ رقم کردیں، گفتا ر ہی نہیں بلکہ کردار کے غازی ، اپنے خاندان کے 70 شہداء کی قربانی دینے کے بعد سرزمین فلسطین کو ظلم و استبداد سے نجات دلانے کی جدوجہد میں اسماعیل ہنیہ شہید ہوگئے۔اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد جہاں ایران کی سیکیورٹی پر بڑے سوالات نے جنم لیا وہیں پر یہ سوال بھی اٹھ رہے ہیں کہ آخر ایران کی سرزمین پر اسماعیل ہنیہ کو قتل کرکے مزاحمتی محور اور دنیا کے مظلوموں کو کیا پیغام دیا گیا۔کیا اس سے وہ مزاحمتی محور اور مشرق وسطیٰ کے مظلوم مایوس ہوں گے؟ یا یہ سفر اپنی شدت سے آگے بڑھے گا۔

مزاحمتی محاذ کا ردعمل :

اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد تحریک اسلامی حماس کی جانب سے بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا اسماعیل ہنیہ کا قتل ایک بزدلانہ اقدام ہے اور اس کا جواب ضرور دیا جائے گا۔پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین اسرائیل نے تمام سرخ لائنیں عبور کرلی ہیں، مزاحمت کے پورے محور کو ایک جامع جنگ کیلئے تیار ہونا ہوگا۔ سپہ پاسداران انقلاب ایران کے بیان میں کہا گیا کہ فلسطین کی بہادر قوم، ملت اسلامیہ اور مزاحمتی محاذ کے بہادر جوانوں اور ایرانی قوم کو تعزیت پیش کرتے ہیں۔

ایران کے رہبر کا پیغام :

ایران کے رہبر آیت اللہ خامنہ ای کی جانب سے پیغام سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ فلسطین کے شجاع و بہادر رہنما جناب اسماعیل ہنیہ گزشتہ شب صبح کے وقت اللہ کو پیارے ہو گئے اور عظیم مزاحمتی محاذ سوگوار ہو گیا۔مجرم و دہشت گرد صیہونی حکومت نے، ہمارے پیارے مہمان کو ہمارے گھر میں شہید کر دیا اور ہمیں سوگوار کیا لیکن اس نے اپنے لئے سخت انتقام کے بھی حالات فراہم کر ليے ۔شہید اسماعیل ہنیہ برسوں سے با عزت جہد و جہد کے میدانوں میں اپنی قیمتی جان ہتھیلی پر لے کر چلتے تھے، وہ شہادت کے لئے تیار تھے اور انہوں نے اپنے فرزندوں اور عزیزوں کو اس راہ میں قربان بھی کیا تھا ۔ انہيں اللہ کی راہ اور اس کے بندوں کی نجات کے لئے شہید ہونے میں کوئی تذبذب نہيں تھا لیکن ہم اس تلخ و سخت سانحے کے بعد کہ جو اسلامی جمہوریہ کی سرحد کے اندر ہوا ، انتقام کو اپنا فریضہ سمجھتے ہيں۔میں اسلامی امت، مزاحمتی محاذ، فلسطین کی سرفراز و شجاع قوم اور خاص طور پر شہید ہنیہ اور ان کے ساتھ شہید ہونے والے ان کے ایک ساتھی کے لواحقین اور اہل خانہ کو تعزیت پیش کرتا ہوں اور خداوند عالم سے ان کے علو درجات کی دعا کرتا ہوں ۔دوسر ی جانب ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان وزارت نے کہا ہے : کبھی نہ تھکنے والے مجاہد شہید ہنیہ کا خون کسی بھی حال میں رائگاں نہيں جائے گا کہ جنہوں نے اپنی پوری عمر غاصب صیہونی حکومت کے خلاف اور قدس کی آزادی کے لئے جد و جہد میں گزار دی۔

اسماعیل ہنیہ کی زندگی پر ایک نظر :

آئیے اسماعیل ہنیہ کی جدوجہد سے بھرپور زندگی پر نگاہ دوڑاتے ہیں۔۔ اور جانتے ہیں کہ اسرائیل کیلئے خوف اور قہر کی علامت مجاہد اسلام اسماعیل ہنیہ کون تھے۔حماس رہنماء اسماعیل ہنیہ غزہ کے ایک پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے تھے، 1980 کی دہائی کے آخر میں حماس شامل ہوگئے، اپنی قائدانہ صلاحیتیوں کے باعث جلد حماس میں ایک اہم مقام حاصل کرلیا اور حماس کے بانی اور روحانی پیشوا شیخ احمد یاسین کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہوگئے۔آپ نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے 1987 میں عربی ادب میں ڈگری حاصل کی، پھر 2009 میں اسلامی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری حاصل کی۔حماس رہنماء اسماعیل ہنیہ نے 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں اسرائیلی جیلوں کی اذیتوں کا بھی سامنا کیا، 1988 میں، حماس کے غزہ میں ایک اہم مزاحمتی تحریک کے طور پر سامنے آنے کے بعد، انھیں دوسری بار حراست میں لیا گیا اور جیل میں ڈال دیا گیا۔ جس کے بعد انھیں حماس کے رہنماؤں کے ایک گروپ کے ساتھ لبنان فلسطینی سرحد پر مرج الظہور میں جلاوطن کر دیا گیا، جہاں انھوں نے 1992 میں ایک پورا سال جلاوطنی میں گزارا۔، وہ زمانہ طالب علمی میں اخوان المسلمین کے ساتھ شامل ہوئے اور اپنی یونیورسٹی میں اخوان المسلمین کی طلبہ برانچ صدر بھی رہے۔ 2006 کے قانون ساز انتخابات میں حماس کی جیت کے بعد وہ فلسطینی اتھارٹی کی حکومت کے وزیر اعظم بن گئے تھے، لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد 2007 میں کٹھ پتلی صدر محمود عباس نے ان کو عہدے سے ہٹادیا تھا۔اسماعیل ہنیہ کو 2017 میں حماس کے سیاسی شعبے کا سربراہ منتخب کردیا گیا تھا ،انہوں نے خالد مشعل کے بعد یہ عہدہ سنبھالا، دوسری جانب 2017 میں ہی امریکا کی جانب سے اسماعیل ہنیہ کو عالمی دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔وہ اپنی تقریروں میں بار بار یہ کہتے تھے کہ ہم تسلیم نہیں کریں گے، ہم تسلیم نہیں کریں گے، ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔ان کا مشہور قول ہے کہ ہم وہ لوگ ہیں جو موت کو اسی طرح پسند کرتے ہیں جیسے ہمارے دشمن زندگی سے پیار کرتے ہیں۔

سرزمین ایران پر نشانہ کیوں بنایا گیا؟

اسماعیل ہنیہ کو ایران کی سرزمین پر قتل کرنے پر جہاں ایران کی سیکیورٹی پر سوال اٹھتے ہیں وہیں پر یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ آخر ایران میں ہی ان کا قتل کیوں کیا گیا ؟ یاد رہے کہ اسرائیل اکیلا نہیں ہے، بلکہ اسرائیل کی موساد کے ساتھ، امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیاں اور کچھ غدار ابن غدار مسلمان ممالک کی ایجنسیاں بھی تعاون کرتی ہیں، یقینا یہ ایران کا بہت بڑا سیکیورٹی Failure ہے لیکن مزاحمتی محاذ پر تنہا کھڑے ایران کی سرزمین پر اسماعیل ہنیہ کو قتل کرکے فلسطینی عوام اور مشرق وسطیٰ کے مظلوموں کو مایوس کرنے کا پیغام دیا گیا۔ لیکن مایوسی نہیں ہوگی، خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا، فلسطین کی آزادی کیلئے بہنے والا خون کبھی رائیگاں نہیں جائے گا۔

اسماعیل ہنیہ کے بیٹے کا پیغام :

اپنے والد کی شہادت پر اسماعیل ہنیہ کے بیٹےعبدالسلام ہنیہ نے پیغام دیا جس نے چونکا کر رکھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ میرے والد کا خون، فلسطین کے سب سے کم عمر شہید کے خون سے زیادہ قیمتی نہیں ہے، نہ بھولیں گے نہ معاف کریں گے۔

شہادت یا فتح ، مقصد زندگی :

یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے۔۔۔جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی۔۔۔دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا۔۔۔سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی۔۔۔دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو۔۔۔عجب چیز ہے لذت آشنائی۔۔۔شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن۔۔۔نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی۔۔۔ اہل فلسطین آزاد ی قدس کے راستے پر اپنی زندگی دو مقاصد کیلئے گزارتے ہیں اور وہ دو ٹوک اور واضح ہیں۔۔۔ یا فتح یا شہادت

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں