ترجمہ و ترتیب: رضی طاہر
غزہ کی پٹی میں نو ماہ کی اسرائیلی جنگی کارروائیوں کے بعد بھی حماس کو شکست نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی اسرائیل حماس کو شکست دینے کے قریب پہنچا ہے، امریکہ کی شکاگو یونیورسٹی کے سینیئر پروفیسر اور جنگوں اور سیکیورٹی کے ماہر سمجھے جانے والے تجزیہ کار روبرٹ اے پوپ نے فارن افئیرز میں اپنا تجزیہ لکھ کر اسرائیل کی شکست کو واضح اور عیاں کردیا۔
پروفیسر روبرٹ اے پوپ نے لکھا کہ “اسرائیل” نے تقریباً 40,000 فوجیوں کے ساتھ غزہ کی پٹی پر حملہ کیا۔ 80 فیصد آبادی کو زبردستی بے گھر کر دیا 37,000 سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید کیا۔ پٹی پر کم از کم 70,000 ٹن بم گرائے۔ اس کی نصف سے زیادہ عمارتوں کو تباہ کردیا۔ پانی، خوراک اور بجلی تک رسائی بند کی۔ پوری آبادی کو فاقہ کشی کے دہانے پر چھوڑ دیا۔ اگرچہ بہت سے مبصرین نے اسرائیل کے رویے کی غیر اخلاقی باتوں کو اجاگر کیا، اسرائیلی رہنما مسلسل یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ وہ حماس کو شکست دینے اور اس کی صلاحیت کو کمزور کرنے کے قریب ہیں، لیکن اب جو بات واضح ہو گئی ہے وہ یہ ہے کہ “حماس کی طاقت دراصل بڑھ رہی ہے”۔
تجزیہ کار کے مطابق “اسرائیل” کی حکمت عملی میں مرکزی خامی حکمت عملی کی ناکامی نہیں ہے، بلکہ یہ تباہ کن ناکامی حماس کی طاقت کے ذرائع کے بارے میں غلط فہمی تھی جس نے “اسرائیل” کو بہت نقصان پہنچایا۔ وہ یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ اس نے غزہ پر جو قتل عام اور تباہی مسلط کی، اس نے مزاحمت کی طاقت میں اضافہ ہی کیا۔
فارن پالیسی نے مزید لکھا کہ حماس اب گوریلا جنگ لڑ رہی ہے، جس میں گھات لگا کر حملے اور دیسی ساختہ بم شامل ہیں، طویل آپریشن جو اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے قومی سلامتی کے مشیر نے حال ہی میں کہا تھا کہ کم از کم 2024 کے آخر تک جاری رہ سکتے ہیں۔حماس 2024 کے آخر تک لڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے، وہ اب بھی غزہ کی پٹی سے اسرائیل پر حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ حماس کے پاس ممکنہ طور پر 15,000 کے قریب متحرک جنگجو ہیں ، جو 7 اکتوبر کے حملے کرنے والے جنگجوؤں کی تعداد سے تقریباً دس گنا زیادہ ہیں۔
حیرت انگیز طور پر فارن پالیسی نے لکھا کہ ’’حماس کے زیر زمین سرنگوں کا نیٹ ورک 80 فیصد تک بحال ہے‘‘ جس کا زیادہ حصہ منصوبہ بندی، ہتھیاروں کو ذخیرہ کرنے اور اسرائیلی نگرانی، گرفتاری اور حملوں سے بچنے کے لیے قابل استعمال ہے۔ انہوں نے لکھا کہ یقیناً، حماس کے بہت سے جنگجو مارے گئے ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ جنگ سے پہلے اندازے کے مطابق 30,000 سے 40,000 جنگجوؤں میں سے 14,000 اب ہلاک ہو چکے ہیں، جب کہ حماس کاکہنا ہے کہ اس کے صرف 6,000 جنگجو مارے گئے ہیں۔ امریکی انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق حماس کی ہلاکتوں کی اصل تعداد تقریباً 10,000 ہے۔
تجزیہ کار نے حماس کو ناقابل تسخیر قرار دیا، یہی بیان کچھ روز قبل اسرائیلی آرمی کے ترجمان نے دیا اور کہاکہ حماس ایک نظریہ ہے جسے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ فارن پالیسی کے مضمون کے مطابق اسرائیل کے حملے جیسے جیسے بڑھتے ہیں ویسے ویسے حماس کی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے۔ جیسے ویت کانگ 1966 اور 1967 میں بڑے پیمانے پر “تلاش اور تباہ” آپریشنز کے دوران مضبوط ہو گئے تھے جب امریکہ نے جنگ کو اپنے حق میں موڑنے کی بے سود کوشش میں ملک میں فوجیوں کو بھیجا، اسی طرح حماس بھی ناقابل تسخیر رہی ہے اور غزہ میں ایک مضبوط اور مہلک گوریلا فورس میں تبدیل ہو گئی ہے۔ انہوں نے یہ حقیقت بیان کی کہ غزہ کے شمالی علاقوں میں اسرائیل مخالف مہلک کارروائیاں دوبارہ شروع ہو رہی ہیں جہاں چند ماہ قبل اسرائیل نے یہ کہہ کر انخلاء کیا تھا کہ وہاں سے حماس کا وجود ختم ہوچکا ہے۔