یمن کے 100 سال: انضمام سے انقلاب اور سعودی اتحاد کے حملے تک

تحریر و ریسرچ : رضی طاہر
حصہ دوئم

یمن کے دو حصوں، شمالی اور جنوبی یمن کا اتحاد 22 مئی 1990 کو ہوا جس کے نتیجے میں جمہوریہ یمن وجود میں آیا۔ اتحاد سے پہلے، شمالی یمن، سرکاری طور پر عرب جمہوریہ یمن، اور جنوبی یمن، جسے عوامی جمہوریہ یمن کہا جاتا ہے، دونوں میں الگ الگ سیاسی، اقتصادی اور نظریاتی اختلافات بحرحال موجود تھے۔ اقتصادی حالات بالخصوص و سیاسی و علاقائی عوامل و مداخلت بالعموم انضمام کی بنیادی وجہ بنی۔ دونوں اطراف کے رہنماؤں، شمالی یمن کے علی عبداللہ صالح اور جنوبی یمن کے علی سلیم البید نے اتحاد کی شرائط پر بات چیت کی۔ سیاسی اور انتظامی ڈھانچے کو مربوط کرنے کے لیے ایک عبوری دور پر اتفاق کیا گیا۔ لیکن یمن کی مشکلات اور امتحانات ابھی باقی تھے۔ قیادت سنبھالنے کے بعد علی عبداللہ صالح انتخابات کے وعدے سے مکر گئے جس کی وجہ سے انضمام کے محض چند سالوں میں ہی یمن بدترین عدم استحکام کا شکار ہوگیا۔

دنیا کی اہم ترین جغرافیائی اہمیت رکھنے والے یمن کو بیرونی سازشوں کا بدستور سامنا رہا۔ برطانوی شاہی راج پس پشت چلا گیا اور نیو ورلڈ آرڈر نے پوری دنیا پر اثرات ڈالنا شروع کردئیے اور گزشتہ کئی دہائیوں میں امریکہ بڑا کھلاڑی بن کر ابھرا۔ یمن کے پڑوسی عرب ممالک برطانیہ کے بعد امریکہ کے وفادار بنتے گئے اور اہم جغرافیائی مملکت اور آزاد پسند قوم ہونے کے ناطے اہل یمن پر ہمیشہ ہی عالمی استعمار کی نظریں جمی رہیں۔ 1994 میں یمن میں بیرونی مداخلت ہوئی اور پھر خانہ جنگی کی سی صورتحال پیدا ہوئی، جنوبی یمن کی علیحدگی کی تحریکیں چلنے لگیں لیکن حالات کو دو ماہ میں کنٹرول کرلیا گیا۔

1994 سے 2004 تک 10 سالوں میں یمن شدید اقتصادی مشکلات سے دو چار رہا، خطے کے ممالک سے برادرانہ تعلقات کے بجائے ڈکٹیشن کی صورتحال نے آزادی پسند اور مزاحمت کے علمبردار یمنی عوام کو حکومت کیخلاف بغاوت پر مجبور کیا اور عوامی تحریک شروع ہوگئی، جس نے 2004 میں زور پکڑا، مغربی میڈیا نے اس تحریک کو حوثی باغیوں سے مشہور کردیا لیکن سچائی تو یہ ہے کہ یہ تحریک یمن کے عام شہریوں کی تحریک تھی، جنہوں نے خودمختار یمن کا خواب دیکھا تھا۔

سال 2004 میں اٹھنے والی جمہوری تحریک کا سر کچلنے کیلئے یمن کے مسلط حکمران علی عبدالصالح نے امریکہ کی مدد مانگی، امریکہ کی پشت پناہی کے ساتھ اہل یمن میں حریت پسندوں اورانتخابات اور خودمختار یمن کے حامیوں کا مسلسل قتل عام جاری رہا ۔ اس دورا نعوامی رہنما حسین بدرالدین کو صعدہ میں شہید کردیا گیا، کہا جاتا ہے کہ انہیں ان کے 20 رفقاء سمیت انتہائی بے دردی سے قتل کیا گیا، جس کے بعد عوامی انقلابی تحریک کی قیادت عبدالمالک الحوثی نے سنبھال لی۔

2011 کے عرب بہار کے مظاہروں کے نتیجے میں یمن نے بھی آنکھ کھولی، بالاخر صدر صالح نے 2012 میں عوامی پریشر پر اقتدار چھوڑ دیا، ان کی جگہ ان کے نائب منصور ہادی نے لے لی، وعدے کے مطابق منصور ہادی نے محض نگران وزیراعظم مقرر ہونا تھا اور انتخابات کی جانب جانا تھا جو کہ اہل یمن کی اکثریتی رائے تھی ، کیونکہ یمنی عوام چہرے نہیں بلکہ نظام بدلنے کیلئے اٹھے تھے لہذا ایک بار پھر وعدے سے مکر جانے کے بعد تحریک جاری رہی۔ یہاں اس امر کا اظہار ضروری ہے کہ یمن میں انتخابات کی راہ میں رکاوٹ پڑوسی عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب بھی تھا، کیونکہ عرب بہار کے بعد عرب ممالک میں بادشاہت کے خاتمے کی فکر لاحق ہوگئی، لہذا سعودی عرب کے ایک پڑوسی ملک میں انتخابات اور جمہوریت کے رائج ہونے سے عوامی شعور سرحد پار نکلنے کے بھی امکانات تھے، یہی وجہ ہے کہ نوے کی دہائی سے 2014 تک سعودی عرب کی مکمل کوشش رہی کہ عدم استحکام چاہے جتنا بڑھ جائے یمن انتخابات کی جانب نہ جائے۔

یمن میں عبدالمالک بدرالدین الحوثی کی زیر قیادت عوامی انقلاب کے ذریعے 2014 میں منصور ہادی کی حکومت کے مکمل خاتمے کے ساتھ سپریم پولیٹیکل کونسل کی حکومت قائم ہوئی اور دارالحکومت صنعا کا مکمل کنٹرول عوامی انقلاب کے ذریعے انقلابی قیادت نے سنبھال لیا۔ لیکن 1934 کے حملہ آور، ایک مرتبہ پھر یمن پر حملہ آور ہوگئے۔مارچ 2015 میں یمن پر سعودی عرب نے اتحادی قوتوں کے ساتھ مل کر حملہ کردیا۔ 10 عرب ممالک نے امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور فرانس کے تعاون و حمایت کے ساتھ یمن پر دھاوا بول دیا۔ جس کے نتیجے میں لاکھوں یمنی شہری اپنے گھروں سے بے گھر ہوکر کیمپوں میں پناہ گزین ہوگئے۔ شہری علاقوں پر فضائی حملوں، زمینی لڑائی، اور اندھا دھند حملوں کی وجہ سے دسیوں ہزار شہری شہید اور زخمی ہوئے۔ سعودی زیرقیادت اتحاد نے یمن کی بندرگاہوں پر ناکہ بندی کردی، خوراک، ایندھن، ادویات اور دیگر ضروری سامان کی ترسیل کو محدود کردیا، جس وجہ سے بدترین انسانی بحران نے جنم لیا۔ ناکہ بندی نے بڑے پیمانے پر غذائی عدم تحفظ اور غذائی قلت میں نمایاں طور پر حصہ ڈالا، جس نے لاکھوں لوگوں کو قحط کے دہانے پر دھکیل دیا ہے۔ اقوام متحدہ نے اس صورتحال کو دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔

سعودی فضائی حملوں نے نہ صرف فوجی مقامات کو نشانہ بنایا ہے بلکہ ہسپتالوں، اسکولوں، بازاروں اور پانی کی سہولیات سمیت شہریوں کے بنیادی ڈھانچے کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ اس نے ملک کے پہلے سے ہی کمزور انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیا ہے۔ تنازعہ سے پیدا ہونے والے افراتفری سے داعش جیسے دہشتگرد و انتہا پسند گروپوں نے یمن کے کچھ حصوں میں پاؤں جمانے کی کوشش شروع کردی۔2015 سے 2022 تک جاری رہنے والی اس جنگ میں اقوام متحدہ کے مطابق یمن میں 150,000 سے زیادہ افراد شہید ہوئے اور ساتھ ہی جنگ کی وجہ سے جاری قحط اور صحت کی سہولیات کی کمی کے نتیجے میں 227,000 سے زیادہ ہلاکتوں کا تخمینہ لگایا گیا ۔سیو دا چلڈرن نے جنگ سال 2018 میں جنگ اور جنگ کی وجہ سے ہونے والے قحط کے نتیجے میں 85000 بچوں کی اموات کے تہلکہ خیز اعدادوشمار جاری کیے۔

سعودی اتحاد نے امریکہ کی معاونت سے یمن کے مستعفی صدر منصورہادی کو اقتدار میں دوبارہ واپس لانے اور عوامی تحریک انصاراللہ کو کمزور کرنے کے مقصد سے یمن کی جنگ شروع کی تھی لیکن اپنے اہداف و مقاصد میں اس کو ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا اور اب اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے یمن مخالف اتحاد کی جارحیت خطرناک پہلو اختیار کرگئی ہے ۔ یمن کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے اصرار نے غریب آبادی والے اس عرب ملک پر پہلے سے زیادہ عرصۂ حیات تنگ کردیاہے اور یمن میں روز بروز انسانی المیوں میں اضافہ ہوتاجارہاہے۔ سعودی عرب کو جنگ پسندانہ پالیسی کا حامل قرار دینے والے سعودی حکام کو یمن میں بے قصور عوام کے قتل عام اور انسانی المیہ کے علاوہ اور کچھ بھی حاصل نہیں ہوا ۔اقوام متحدہ کی ثالثی کی وجہ سے جنگ اپریل 2022 میں رک گئی اور دونوں جانب سے سیزفائر کا معائدہ ہوا،تاہم معائدے کی معیاد ختم ہونے کے باوجود دونوں فریقین کی جانب سے جنگ دوبارہ شروع نہیں کی گئی، لیکن یمن اور سعودی عرب کے درمیان کشمکش جاری رہی۔

(جاری ہے)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں