پاکستان کی سیاسی قیادت سے اہل مقبوضہ جموں کشمیر کیا چاہتے ہیں؟ صرف اتنا کہ دنیا میں جہاں بھی جائیں اپنے سیاسی مفادات کو پس پشت ڈال کر مقبوضہ کشمیر کیلئے آواز اٹھائیں، وہاں ہونے والے مظالم کو بے نقاب کریں، مقبوضہ کشمیر میں ہندوواتا کے پیروکاروں اور مودی کے دست راست آر ایس ایس کے منصوبوں پر سے پردہ چاک کرکے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑیں، مگر پاکستان کی ایک خاتون سیاست دان جن کی شہرت ان کے والد گرامی میاں محمد نوازشریف کی وجہ سے ہے وہ آج کل آزاد کشمیر میں سیاسی و انتخابی میدان سجارہی ہیں، دھڑا دھڑ جلسے کررہی ہیں لیکن ان کے جلسے مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کی امیدوں پر پانی پھیر رہے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند عوام تو یہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر میں پاکستانی سیاستدانوں کی اٹھنے والی آوازوں میں نریندر مودی کو للکارنے کی جرات ہونی چاہیے، مودی کے سیاہ کارناموں پر سے پردہ اٹھانے کا ہنر ہونا چاہیے، مقبوضہ کشمیر کے آزادی کے متوالے یہ توقع کرتے ہیں کہ آزاد کشمیر کی آزاد فضاوں میں جلسہ چاہے جس نوعیت کا ہو، ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف ہندتوا کے پیروکاروں کے منصوبوں کو آشکار کرنے والی جرات مند آوازیں اٹھیں، لیکن مریم نواز نے مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں کو مایوس کردیا۔
کشمیر کی بیٹی کی دعویدار نے ایک بار بھی اپنی زبان سے کشمیر پر ۱۵ لاکھ فوج کے ذریعے مسلط ہٹلر مودی کی مذمت کیونکر نہ کی؟ اگرچہ بلاول کے جلسوں میں وہ ہجوم اکٹھا نہ ہوسکا جو کہ نوازشریف کی بیٹی کے جلسے میں دیکھنے کو ملتا ہے لیکن بلاول کی تقریروں میں نریندرمودی کے سیاہ کارناموں کی مذمت تو شامل ہے۔ جس کی کمی کشمیر کی بیٹی کی دعویدار مریم نواز کی تقریروں میں ہے۔
میرا مہاجرین کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے سوشل میڈیا صارفین سے قریبی تعلق ہے اور رہا ہے، میں ان سے جب مریم نواز کی حالیہ مہم پر بات کرتا ہوں تو سوائے مایوسی کے کچھ نہیں ملتا۔ وہ مریم نواز سے بہتر توقع کرتے ہیں، لیکن وہ یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ مریم نواز کہتی ہیں کہ کشمیر کو نوازشریف آزادی دلائیں گے، لیکن کیا نوازشریف کو اس کا موقع زندگی میں کبھی نہ ملا؟ جب وہ اقتدار میں تھے تو ان کی زبانیں گنگ تھیں، ایک صارف نے کہا کہ اپنے دور اقتدار میں کلبھوشن کا نام لے کر نریندر مودی کی مذمت نہ کرسکنے والے نوازشریف سے ہم کیا توقع کریں؟
مریم بی بی آپ نے اپنے والد محترم کی طرح اہل کشمیر کو مایوس کردیا ہے۔