رپورٹ : رضی طاہر
آزاد جموں کشمیر کے انتخابات2021ءرواں ماہ کی25تاریخ کو ہونے جارہے ہیں، آزاد جموں کشمیر کی اسمبلی کی53نشستیں ہیں جن میں سے 45 نشستوں پر براہ راست انتخابات ہوتے ہیں جبکہ8مخصوص نشستیں ہیں جن میں خواتین کیلئے5، ٹیکنوکریٹ، علماءاور سمندرپار کشمیریوں کی ایک ایک نشست شامل ہے، براہ راست انتخابات کی45نشستوں کیلئے 33آزاد جموں و کشمیر کے حلقے جبکہ12حلقے جموں کشمیر کے مہاجرین کے ہیں، یہ وہ مہاجرین ہیں جو قیام پاکستان کے بعد اور جنگ آزاد ی کشمیر کے دوران جموں اور وادی سے پاکستان کے چاروں صوبوں میں آئے،12میں سے چھ نشستیں صوبہ جموں اور6صوبہ کشمیر کی ہیں ،آزاد جموں کشمیر الیکشن کمیشن کے مطابق عام انتخابات 2021ءمیں 32 لاکھ 20 ہزار 546 رائے دہندگان اپنی رائے سے نمائندے منتخب کرسکیں گے، ان میں سے پاکستان میں مقیم مہاجرین کے حلقوں میں ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ 3 ہزار 456 ہے، ان میں سے جموں کے حلقوں میں ووٹروں کی تعداد 4 لاکھ 30 ہزار کے لگ بھگ جبکہ وادی کشمیر کے مہاجرین کے حلقوں میں ووٹروں کی تعداد 30 ہزار کے لگ بھگ ہے،ان نشستوں کو علامتی طور پر شامل کیا گیا تھا تاکہ آزاد جموں کشمیر اسمبلی میں مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کی نمائندگی شامل رہے
اب آتے ہیں رواں سال کے انتخابات کی جانب تو رواں سال45نشستوں پر724امیدوارا ن انتخابات میں حصہ لے رہیں جن میں آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کی33نشستوں کیلئے 579 امیدوار حصہ لے رہیں جبکہ مہاجرین کی مختص12نشستوں کیلئے 145امیدوار حصہ لے رہے ہیں، مہاجرین پاکستان کے چاروں صوبوں میں پھیلے ہوئے ہیں، انتخابات 2021 میں حصہ لینے والی کل جماعتیں32ہیں جو کہ جموں کشمیر الیکشن کمیشن کے تحت رجسٹرڈ ہیں،اس بار ان جماعتوں میں کالعدم قرار دی جانیوالی جماعت تحریک لبیک پاکستان بھی شامل ہے، باقی جماعتوں میں قومی و ریاستی جماعتیں شامل ہیں،
اصل مقابلہ پاکستان تحریک انصاف، مسلم لیگ ن، مسلم کانفرنس اور پاکستان پیپلزپارٹی کے درمیان ہے، تحریک انصاف کے41امیدوار،پاکستان پیپلزپارٹی کے 43 ،مسلم لیگ ن کے 36 اورمسلم کانفرنس کے38امیدواران مقابلے پر ہیں، چند حلقوں میں جماعت اسلامی کے امیدوار بھی مضبوط ہیں، جماعت اسلامی نے کل31امیدوار میدان میں اتار رکھے ہیں ، ماضی کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے بڑی جماعتوں میں سے سب سے کم36امیدواران ہیں، جبکہ سب سے زیادہ امیدوار پاکستان پیپلزپارٹی کے پاس موجود ہیں، تمام جماعتوں نے جن حلقوں میں امیدوار کھڑے نہیں کیے وہاں آزاد امیدواران یا کسی دوسری ریاستی جماعت کے امیدواران کی حمایت کی گئی ہے۔ آزاد کشمیر میں یہ تاثر عام ہے کہ مرکز میں جس کی حکومت ہوگی ریاست کے اندر وہی جماعت حکومت بنائے گی تاہم یہ تاثر اتنا پرانا نہیں ہے اگر ہم ماضی کی جانب نگاہ دوڑائیں تورواں سال یہ گیارہواں انتخابی معرکہ ہوگا، جبکہ سابقہ دو حکومتیں ہی ان جماعتوں نے بنائیں جن کی مرکز میں حکومت تھی ، یعنی پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے بالترتیب حکومت بنائی، اس سے قبل2006کے انتخابات مسلم کانفرنس نے اپنے نام کیے لیکن ان کی حکومت کے وسط میں ہی میاں نوازشریف نے آزادکشمیر میں انٹری لگائی اور مسلم کانفرنس کو توڑنے کا کام مکمل کیا، تب سے لے کر آج تک مرکزیعنی وفاقی حکومتوں نے ریاست کے انتخابات کو اپنی اجارہ داری سمجھا، ریاستی جماعتیں کمزور ہوتی گئیں اور قومی جماعتیں کشمیر کے اندر ور پکڑتی گئیں
آج بھی اگر جائزہ لیا جائے تو مسلم کانفرنس ہر حلقے میں مقابلہ کرنے کیلئے تو موجود ہے لیکن اس کے بجائے کشمیر کی عوام مسلم لیگ ن ، تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کی قیادت کو خوش آمدید کہہ رہے اور ہوا یہ چل نکلی ہے کہ ریاست میں اگلی حکومت تحریک انصاف کی ہوگی۔ میں نے آزاد ذرائع کے ذریعے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ پلڑا کس کا بھاری ہے تو تقریباً کشمیر کے ہر حصے سے ملنے والی فیڈ بیک کے ذریعے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ تحریک انصاف28سے30کے لگ بھگ نشستیں اپنے نام کرے گی، مسلم لیگ ن 6سے7جبکہ پیپلزپارٹی2سے3، مسلم کانفرنس3سے4اور جماعت اسلامی1 سے2 نشستوں پر فتح یاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے،3سے 4آزاد امیدواران بھی میدان مار سکتے ہیں۔
انتخابات کی صورتحال یہی رہی تو انتخابات کے بعد پھر وہی دھاندلی کا رونا دھونا ہوگا جو کہ اب روایت بن چکا ہے، پاکستان ،کشمیر یا گلگت جہاں بھی الیکشن ہوں گے ہارنے والے ہمیشہ دھاندلی کا رونا روئے گااور دھاندلی کا سب سے زیادہ شور شرابہ خود موجودہ وزیراعظم عمران خان ماضی میں کرچکے ہیں، دھاندلی اور حلقوں کے مطالبے کے ساتھ وہ126دن دھرنے پر بیٹھے رہے تو ظاہر سی بات ہے ان کے مخالفین بھی اس سیاسی ماحول کے اندر اپنے کارکنان کو تسلی دینے کیلئے یہی شور شرابا کرتے ہیں اورا ٓگے بھی کریں گے۔