پہلگام میں ہونے والے ہولناک حملے کے بعد خطے کی فضاؤں میں بارود کی بو گھل چکی ہے۔ میڈیا جنگی نعرے لگا رہا ہے، اور دہلی میں جنگی طبل بجنے لگے ہیں۔ پاکستان کی سرزمین پر بھی سناٹا نہیں، فوج الرٹ ہے، سفارتکار متحرک ہیں، اور عوام ایک اور ممکنہ جنگ کے سائے میں سانس لے رہے ہیں۔ کشمیر کی گھٹن زدہ وادی، بھارت کے اندر مسلمانوں کا کچلا ہوا وجود، اور پاکستان کا داخلی سیاسی انتشار،سب کچھ مل کر اس تصادم کو پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک بنا رہا ہے۔کیا یہ جنگ ہوگی؟ یا پھر جنگ کا صرف شور؟ کیا بھارت کا ہندوتوا جنون پورے جنوبی ایشیا کو خاکستر کر دے گا؟ یا کوئی عقل و ہوش کی آواز وقت پر اٹھے گی؟
پہلگام واقعے کے بعد اچانک پیدا ہونے والا جنگی ماحول ایک ایسے خطرناک رخ کی جانب اشارہ کرتا ہے جہاں معمولی سا اشتعال پورے خطے کو تباہی کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف کشیدگی کو بڑھا رہا ہے بلکہ بھارت کی قیادت کو ایک بار پھر جنگی بیانیہ اختیار کرنے کا موقع بھی دے رہا ہے۔ بھارتی میڈیا، جو پہلے ہی ریاستی بیانیے کا پرچارک بن چکا ہے، اس واقعے کو بنیاد بنا کر پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کر رہا ہے۔
پلوامہ واقعے کی طرح اس بار بھی بغیر تحقیق کے پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرایا جا رہا ہے، جس کا مقصد عوامی غصے کو جنگی جنون میں بدلنا ہے۔اس ماحول میں بھارتی حکومت کے بیانات نہایت خطرناک سمت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ وزراء کھلے عام سرجیکل اسٹرائیکس اور بدلہ لینےکی باتیں کر رہے ہیں، ایسے میں لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا سلسلہ تیز ہو چکا ہے اور سیکیورٹی الرٹ جاری کیے جا رہے ہیں۔ ادھر پاکستان میں بھی مسلح افواج کو الرٹ کر دیا گیا ہے۔ اگر اس صورتحال کو فوری طور پر قابو نہ کیا گیا تو خطے میں ایک اور محدود یا مکمل جنگ کا خطرہ منڈلانے لگے گا۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ سے کشیدہ رہے ہیں، مگر موجودہ حالات میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے امکانات کہیں زیادہ سنگین اور خطرناک رخ اختیار کر چکے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ بھارت میں ہندوتوا نظریے کی سربراہی میں بننے والی حکومت ہے، جس نے نہ صرف داخلی طور پر اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کر دی ہے بلکہ بیرونی محاذ پر بھی جارحانہ رویہ اپنایا ہوا ہے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت بی جے پی کی پالیسیوں میں جنگی جنون صاف جھلکتا ہے۔اس پس منظر میں مسئلہ کشمیر نہ صرف ایک سیاسی تنازع ہے بلکہ ایک انسانی المیہ بھی بن چکا ہے۔ کشمیری عوام سات دہائیوں سے اپنے حق خودارادیت کی جدوجہد کر رہے ہیں، مگر بھارت نے ریاستی جبر کے ذریعے اس تحریک کو کچلنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔
پانچ اگست 2019 کو بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کر کے جموں و کشمیر کی خودمختار حیثیت بھی چھین لی، جس کے بعد لاکھوں بھارتی فوجی وہاں تعینات کر دیے گئے۔ انٹرنیٹ بندش، گھروں میں محصوریاں، جبری گرفتاریاں اور جعلی مقابلوں کے ذریعے کشمیری عوام کو دبانے کی پالیسی اپنائی گئی۔ یہ اقدامات نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہیں بلکہ انسانی حقوق کی پامالی کا کھلا ثبوت بھی ہیں۔
پاکستان نے ہمیشہ جنگ کے بجائے امن کی بات کی ہے۔ تاہم، بھارت کی مسلسل اشتعال انگیزی اور ہٹ دھرمی نے خطے کے امن کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔ پاکستان اس وقت داخلی طور پر بھی ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ سیاسی تقسیم، معاشی بدحالی، اور اداروں کے درمیان کھچاؤ نے ریاست کو کمزور کر دیا ہے۔ ایسے میں ایک بڑی جنگ کا بوجھ اٹھانا پاکستان کے لیے نہایت مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔پاکستان کی موجودہ حکومت پر یہ الزام ہے کہ وہ عوامی نمائندہ نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی ایک نامزد کردہ کٹھ پتلی ہے۔ وزیراعظم کے پاس اختیارات نہیں اور وزیر دفاع ، وزیر داخلہ جیسے اہم منصبوں پر ایسے افراد براجمان ہیں جنہیں قومی سلامتی جیسے پیچیدہ معاملات کا ادراک نہیں۔ ایسے میں بھارت کی طرف سے اگر کوئی بڑی جارحیت ہوتی ہے تو پاکستان کی پالیسی سازی میں انتشار اور کمزور فیصلہ سازی سنگین نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔ عوامی سطح پر بھی ایک اعتماد کا فقدان ہے، جو کسی قومی بحران کے وقت اتحاد اور یکجہتی میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
دوسری طرف بھارت کا داخلی منظرنامہ بھی نہایت تشویشناک ہے۔ ہندوتوا نظریے کی کوکھ سے جنم لینے والی سیاست نے بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں کو دیوار سے لگا دیا ہے۔ شہریت ترمیمی قانون، این آر سی، بابری مسجد کا انہدام، اور گئو رکشا کے نام پر قتل و غارت گری جیسے اقدامات سے واضح ہے کہ بھارت اب ایک سیکولر ریاست نہیں رہا بلکہ اکثریتی شدت پسندوں کی گرفت میں ہے۔ بھارتی مسلمان خوف، بے بسی اور ناانصافی کا شکار ہیں، اور اگر بھارت پاکستان کے ساتھ جنگ چھیڑتا ہے تو یہ اقلیت مزید خطرے میں پڑ جائے گی۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان ممکنہ جنگ نہ صرف دو ایٹمی طاقتوں کی ٹکر ہوگی بلکہ پورے جنوبی ایشیا کو بربادی کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ لاکھوں جانیں ضائع ہو سکتی ہیں، معیشتیں تباہ ہو سکتی ہیں اور دنیا میں ایک نئی انسانی المیے کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ اس لیے عالمی برادری کو اس معاملے میں خاموش تماشائی بننے کے بجائے متحرک کردار ادا کرنا ہوگا، کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرانا ہوگا، اور بھارت کے جنگی جنون کو لگام دینا ہوگی تاکہ خطے میں دیرپا امن قائم ہو سکے۔