ٹرمپ کی پاکستان کے معدنیات پر نظر؛ سرمایہ کاری یا غلامی؟

ایک جانب دیکھتے ہیں کہ ٹرمپ کی نظر دنیا کے وسائل پر ہے۔ وہیں پر ہمیں دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان کے حکمران معدنی وسائل ہاتھ میں لئے خود ہی امریکی سرمایہ کاروں کے سامنے کھڑے ہیں۔ وسائل کے حصول کی یہ امریکی جنگ کیا پاکستان جیسے اہم ملک کو نئی غلامی میں جھونکنے کی کوشش ہے؟ دوسری جانب خیبرپختون خواہ میں ایک متنازعہ بل سامنے آچکا ہے جسے منظور کروانے کیلئے تمام حلقے ایڑھی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔

پاکستان میں معدنیات سمٹ 2025 میں امریکہ سرمایہ کاروں کی دلچسپی بھی کچھ بڑے سوال اٹھارہی ہے۔ جیسے ہی امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی سطح پر قیمتی معدنیات پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش شروع کی، پاکستان ایک نئے میدانِ کشمکش میں داخل ہو چکا ہے۔

پاکستان کے پاس سونا، کاپر، لیتھیم، کوبالٹ اور ریئر ارتھ جیسے خزانے موجود ہیں اور عالمی طاقتیں ان پر نظریں گاڑے بیٹھی ہیں۔ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ ٹرمپ کی پالیسی امریکہ فرسٹ کا ایک واضح مطلب یہ بھی ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں قیمتی وسائل ہوں، امریکہ کو وہاں موجود ہونا چاہیے۔ اسلئے وہ کبھی غزہ پر قبضے کی بات کرتے ہیں تو کبھی یوکرائن کی امداد کے عوض معدنیات چھیننے کا معائدہ کرتے ہیں۔

ٹرمپ کی پالیسی میں وسائل کا حصول ضروری ہے، چاہے وہ فوجی طاقت سے ہو، یا معاشی دباؤ سے، پاکستانی حکام نے حالیہ بیانات میں انکشاف کیا ہے کہ متعدد امریکی کمپنیاں پاکستان میں معدنیاتی شعبے میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ بظاہر یہ ترقی، معاشی بحالی، اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے خوش آئند اشارے ہیں، مگر سوالات بھی کم نہیں۔مثال کے طور پر ماضی میں بھی، مقامی وسائل کا فائدہ عوام کو کم، اور غیر ملکی کمپنیوں کو زیادہ ہوا ہے۔ ریکوڈک کیس میں پاکستانی حکومت اور عوام نے کیا پایا، اور بیرونی کمپنیوں نے کیا لے لیا ، یہ آج بھی ایک زندہ سوال ہے۔

ٹرمپ نے امریکی کمپنیوں کو ہدایت کی کہ وہ ان خطوں میں سرمایہ کاری کریں جہاں قیمتی معدنیات موجود ہیں تاکہ چین کے اثر و رسوخ کو توڑا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے امریکا نے نہ صرف افریقی ممالک بلکہ آسٹریلیا، لاطینی امریکا، اور اب جنوبی ایشیا میں بھی اپنے معاشی پنجے گاڑنے شروع کر دیے ہیں۔پاکستان جیسے ممالک، جو معاشی بحران سے دوچار ہیں، بظاہر ان سرمایہ کاریوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ لیکن ان معاہدوںکی شفافیت، مقامی شراکت داری، اور فائدہ کس کو ہو رہا ہے ، یہ معاملات عموماً پردے میں رہتے ہیں۔ اگر امریکی کمپنیاں پاکستان میں معدنی شعبے میں آ رہی ہیں تو یہ صرف معیشت نہیں، بلکہ جیو پولیٹکس اور طاقت کی عالمی بساط کا حصہ ہے۔ پاکستان کو سوچ سمجھ کر، شفاف انداز میں، اور قومی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے فیصلے کرنے ہوں گے۔ ورنہ سرمایہ کاری کے نام پر نئی غلامی کا دروازہ کھل سکتا ہے۔

خیبرپختونخواہ کی کابینہ سے منظور ہونے والا مائنز اینڈ منرلز بل نہ صرف ایک قانونی مسودہ ہے، بلکہ اس خطے کی قدرتی دولت پر سیاسی اختیار کی ایک نئی جنگ کا آغاز بھی ہے۔ یہ بل بظاہر معدنیات کے شعبے کو ضابطے میں لانے اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے بنایا گیا ہے، لیکن اس کے بین السطور حقائق کچھ اور کہانی بیان کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ قانون سازی یقیناً صوبائی حکومت کا آئینی حق ہے، مگر جب کوئی بل انتہائی سرعت سے، بغیر عوامی مشاورت یا اسٹیک ہولڈرز کی رائے کے، اسمبلی سے منظور کرایا جائے تو سوالات اٹھنا فطری ہے۔۔۔۔ مسودے کے کئی حصے مبہم ہیں، یا پھر زبان ایسی استعمال کی گئی ہے جو قانونی اصطلاحات میں بہت کچھ چھپا سکتی ہے۔ بل کے بعض نکات وفاق کو معدنی وسائل پر بالواسطہ یا بلاواسطہ کنٹرول دیتے ہیں، جو آئین کے تحت صوبائی اختیار میں آتے ہیں۔ بعض دفعات سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ وفاقی ادارے یا کمپنیاں کسی تیسرے فورم کے ذریعے صوبائی اجازت کے بغیر بھی مداخلت کرسکتی ہیں۔ مقامی قبائل یا عوام کے مشورے یا رضامندی کی شرط واضح نہیں، جو کہ خاص طور پر قبائلی اور پسماندہ علاقوں میں اہم ہے۔ مائننگ لائسنس دینے کا طریقہ کار مبہم اور غیر شفاف ہے۔ ماحولیاتی تحفظ کے لیے کوئی واضح پالیسی یا گائیڈلائن نہیں دی گئی۔ بغیر ماحولیاتی اثرات کے جائزے کے مائننگ کی اجازت تباہ کن ہو سکتی ہے۔

یہ خدشہ ہے کہ بل کے تحت مقامی کمپنیوں یا افراد کو نظر انداز کر کے صرف بڑے سرمایہ داروں یا بیرونی کمپنیوں کو فائدہ دیا جائے گا۔ بل کی زبان میں کئی اصطلاحات واضح نہیں، جیسے اہل ادارہ، بہتر مفاد یا قابل قبول وجہ، جس کا مطلب ہر حکومتی افسر اپنی مرضی سے نکال سکتا ہے۔ یعنی کہ اختیارات کے غلط استعمال کا راستہ کھولا گیا ہے۔ بل میں کوئی ٹھوس پالیسی نہیں کہ کن وسائل کو کب اور کس حد تک نکالا جائے۔ یعنی کہ معدنیات کو ایک دم لوٹ مار سے نہیں نکالا جاسکتا۔ بلکہ نسلوں کو مستفید کرنے کی پالیسی کے تحت محفوظ اور ایک حد تک نکالا جاسکتا ہے۔اب آتے ہیں خیبرپختونخواہ میں پہلے سے موجود مائنز اینڈ منرلز قوانین کی جانب۔۔۔خیبر پختون خواہ میں معدنیات سے متعلق جو قوانین اور ضوابط نافذ العمل ہیں، وہ صوبے کی خودمختاری، معدنی وسائل کے تحفظ، اور کان کنی کے نظام سے متعلق ہیں۔

اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد معدنیات کا اختیار صوبوں کو منتقل ہو چکا ہے، جس کے تحت خیبرپختونخوا نے اپنے قوانین تشکیل دیے ہیں۔ خیبر پختون خواہ مائنز اینڈ منرلز ایکٹ 2017 کو پڑھیں تو یہ خیبرپختونخوا کا بنیادی قانون ہے جو مائنز اور منرلز کے انتظام، ترقی، لائسنسنگ، اور معاہدات سے متعلق ہے۔معدنیات کی تلاش اور پیداوار کے لیے لائسنس جاری کرنے کا اختیار محکمہ معدنیات کے پاس ہے۔مقامی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی اور شفاف عمل کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح 2005 کے قوانین جنہیں 2018 میں ترمیم بھی کیا گیا ،یہ قواعد مائننگ لائسنسز، لیزز، رینیوئل، فیس، اور دیگر ضوابط کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ مائننگ کا اختیار پہلے آئیے، پہلے پائیے کی بنیاد پر دیا جاتا ہے۔سیکیورٹی، ماحولیاتی اثرات، اور مزدوروں کے تحفظ سے متعلق بھی شرائط رکھی گئی ہیں۔بعض اہم معدنیات جیسے سونے، یورینیم، کوبالٹ پر وفاقی منظوری درکار ہوتی ہے لیکن صوبائی خودمختاری اہم ہے۔

اسی طرح خیبر پختونخواہ مائنز سیکٹر ایکٹ 2019 بھی موجود ہے جو بہت شاندار ہے۔یہ قانون معدنیات کے شعبے میں بہتر گورننس، شفافیت اور جواب دہی کے لیے بنایا گیا۔خیبرپختونخواہ منرلز ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی تشکیل اس قانون کے تحت ہوئی۔جدید ڈیجیٹل سسٹم کے تحت معدنی ڈیٹا اور لائسنسنگ شروع کی گئی۔غیر قانونی کان کنی کے خلاف سخت سزائیں متعارف کروائی گئیں۔اسی طرح ماحولیاتی تحفظ بل 2014 موجود ہے۔ یہ بل کان کنی کے ماحولیاتی اثرات سے متعلق شرائط اور گائیڈ لائنز فراہم کرتا ہے۔

مائنز اور منرلز کے حوالے سے خیبر پختونخواہ کے موجودہ قوانین کا 2025 کے مجوزہ بل سے موازنہ کریں تو کچھ اہم تضادات سامنے آتے ہیں۔سب سے پہلے مقامی سرمایہ کاروں کے کردار سے متعلق بات کرتے ہیں۔2017 ایکٹ میں مقامی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کا وعدہ کیا گیا، ان کے لیے آسانی اور سہولت کی فراہمی کا ذکر موجود ہے۔2025 کے مجوزہ بل میں مقامی سرمایہ کاروں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، اور بڑے نجی یا بیرونی سرمایہ کاروں کو ترجیح دی جا رہی ہے۔اسی طرح شفافیت اور لائسنسنگ کی بات کریں تو 2005 کے قواعد اور 2019 کےایکٹ کے مطابق پہلے آئیے، پہلے پائیے کی بنیاد، ڈیجیٹل سسٹم، اور شفاف لائسنسنگ کا طریقہ متعارف کروایا گیا۔جبکہ 2025 کے بل میں لائسنسنگ کے اختیارات کو محدود افراد یا اتھارٹیز کے حوالے کرنے کا منصوبہ ہے۔

سب سے اہم معاملہ صوبائی خودمختاری کا ہے۔موجودہ قوانین میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد واضح طور پر معدنیات کو صوبائی اختیار میں رکھا گیا ہے۔ جبکہ 2025 کے مجوزہ بل میں بعض شقوں سے وفاقی یا مخصوص اتھارٹیز کے ذریعے غیر ملکی اداروں کی براہِ راست مداخلت کا راستہ کھلتا نظر آتا ہے، جو آئینی خودمختاری کے منافی ہے۔2025 کا بل بظاہر ترقی اور سرمایہ کاری کے نام پر لایا گیا ہے، مگر اس میں نہ مقامی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے، نہ شفافیت کا کوئی مضبوط فریم ورک موجود ہے۔ اس کے برعکس، 2017، 2005، اور 2019 کے قوانین ایک مکمل قانونی ڈھانچہ فراہم کرتے ہیں، جسے ہی بہتر بنانے کی ضرورت تھی۔بحرحال، پاکستان کی معدنیات کو امریکی جھولی میں پھینکنے کیلئے۔ کیا پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت بھی شامل ہوگی۔

50% LikesVS
50% Dislikes
اپنا تبصرہ لکھیں