مشرق وسطیٰ ایک ایسا خطہ ہے جہاں عالمی طاقتیں ہمیشہ سے اپنے اثر و رسوخ کے لیے کوشاں رہی ہیں۔ امریکہ نے 1990 کی خلیجی جنگ کے بعد اپنی فوجی موجودگی کو اس خطے میں غیر معمولی طور پر بڑھا دیا۔ آج، قطر، کویت، بحرین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی، اردن، عراق اور شام سمیت کئی ممالک میں اس کے مستقل یا نیم مستقل فوجی اڈے موجود ہیں۔
یہ اڈے مختلف نوعیت کے ہیں، کچھ فضائی حملوں کے مراکز ہیں، کچھ لاجسٹک اور کمانڈ سینٹرز، اور کچھ انٹیلیجنس یا اسپیشل فورسز کی سرگرمیوں کے لیے مختص ہیں۔ بظاہر یہ اڈے علاقائی سلامتی اور انسداد دہشت گردی کی غرض سے قائم کیے گئے، مگر ان کی موجودگی کئی سیاسی، معاشرتی اور جغرافیائی تنازعات کو جنم دے رہی ہے۔
سب سے پہلے قطر کی بات کرتے ہیں۔ قطر میں قائم العدید ایئربیس امریکہ کا سب سے بڑا فضائی اڈہ ہے، جو خطے میں اس کی عسکری حکمت عملی کا دل ہے۔ یہاں سینٹ کام کا اہم کمانڈ مرکز موجود ہے، جہاں سے عراق، شام، افغانستان اور حتیٰ کہ ایران کے خلاف سرگرمیوں کی نگرانی کی جاتی ہے۔ اگرچہ قطری حکومت نے اس اڈے کو امریکہ کے ساتھ اسٹریٹیجک تعلقات کے طور پر پیش کیا، لیکن خطے کے اندرونی تنازعات، مثلاً سعودی قطر تناؤ، نے اس اڈے کو علاقائی سیاست کا ایک متنازع پہلو بنا دیا ہے۔
اب بات کرتے ہیں دوسری خلیجی ملک کویت کی جنہوں نے اپنی سرزمین برائی کے اڈے کے طور پر دے رکھی ہے۔ کویت میں علی السالم ایئربیس اور کیمپ عریجان جیسے اڈے امریکہ کے لیے زمینی کارروائیوں کے لیے اہم ہیں۔ خاص طور پر عراق میں امریکی مداخلت کے دوران کویت نے لاجسٹک بیس کے طور پر مرکزی کردار ادا کیا۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کویتی سرزمین پر اس قدر امریکی انحصار ملک کی خودمختاری پر اثرانداز نہیں ہوتا؟ مقامی حلقوں میں یہ بحث موجود ہے کہ امریکہ کی موجودگی کوتی ریاست کے فیصلوں کو براہ راست متاثر کرتی ہے۔
برائی کا ایک اور مرکز بحرین میں واقع ہے۔ بحرین جس کا کردار کئی سالوں سے مشکوک ہے۔بحرین میں امریکہ کا پانچواں بحری بیڑہ تعینات ہے، جو خلیج فارس میں نیویگیشن کی آزادی کے نام پر سرگرم ہے۔ لیکن یہ بیس بارہا ایران، یمن اور دیگر علاقائی طاقتوں کی تنقید کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ خاص طور پر ایران کا مؤقف یہ رہا ہے کہ یہ بیس خطے میں امریکی تسلط کی علامت ہے۔ بحرینی عوام کی ایک بڑی تعداد، خاص طور پر وہاں کی شیعہ برادری، اسے غیرملکی تسلط اور مقامی حکومت کی کمزوری کی علامت تصور کرتی ہے۔
اب شام اور عراق کے امریکی اڈوں کی بات کریں گے جہاں امریکہ کی موجودگی جنگ کے دوران سے ہے اور اسے حکومتوں اور عوام کی تمناؤں کے برعکس مسلسل طول دیا جارہا ہے، گو کہ عراق سے 2026 تک امریکی اڈے مکمل ختم ہونے کا معائدہ ہوچکا ہے۔۔ یہ اڈے غیرقانونی طور پر قائم ہیں۔ امریکہ کا شام میں التنف بیس اور عراق میں الاسد بیس اسٹریٹیجک لحاظ سے ایران کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے لیے قائم کیے گئے۔ تاہم، ان اڈوں کی موجودگی بین الاقوامی قانون اور شام و عراق کی خودمختاری کے حوالے سے شدید سوالات کو جنم دیتی ہے۔
شام کے معاملے میں تو امریکہ کی موجودگی کو آزاد حلقے ایک غیرقانونی قبضہ قرار دیتے ہیں، کیونکہ یہ اڈے حکومتِ دمشق کی اجازت کے بغیر قائم کیے گئے۔ عراق میں عوامی احتجاج، خاص طور پر 2020 کے بعد، امریکی فوج کے انخلاء کا مسلسل مطالبہ کر رہا ہے، لیکن امریکہ ان مطالبات کو نظر انداز کرتا آیا ہے۔
اب ترکی بات کریں تو ترکی میں امریکی ایئربیس نیٹو کے تحت قائم کیا گیا، مگر حالیہ برسوں میں امریکہ اور ترکی کے درمیان تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔ خاص طور پر شام میں کردوں کی حمایت پر ترکی کی برہمی نے اس بیس کی ساکھ کو متاثر کیا ہے۔ ترک عوام میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ انجرلیک بیس ملکی سلامتی کے بجائے امریکی مفادات کے تحفظ کا ذریعہ ہے، اور کسی بھی بحران کی صورت میں یہ بیس ترکی کو براہِ راست خطرات میں دھکیل سکتا ہے۔ اردن میں امریکی فوجی اڈے کی موجودگی نسبتاً کم توجہ کا مرکز رہی ہے، لیکن اس کی جغرافیائی اہمیت اور خفیہ نوعیت اسے امریکی اسٹریٹیجی میں نہایت اہم بناتی ہے۔
اردن میں امریکہ کا سب سے نمایاں فوجی اڈہ موافاق ائیربیس ہے، جو کہ الازرق کے علاقے میں واقع ہے۔ اس اڈے کا استعمال بنیادی طور پر امریکی فضائیہ کرتی ہے۔ یہاں سے امریکی ڈرونز اور جنگی طیارے عراق اور شام میں مشنز انجام دیتے ہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے اردن کا محلِ وقوع شام، عراق، اسرائیل اور سعودی عرب کے بیچ میں ہے، جو اسے اسٹریٹیجک نقطہ بناتا ہے۔
امریکی اڈے نام نہاد انسداد دہشت گردی اور خطے کی سلامتی کے نام پر قائم کیے گئے، وہیں یہ حقیقت نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ ان کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں ایک فوجی بیلنس بگڑ چکا ہے۔ مجموعی طور پر مشتق وسطی کی عوام امریکہ کو قابض قوت سمجھتے ہیں۔ ان اڈوں کی موجودگی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خطے میں اسلحے کی دوڑ، پراکسی جنگیں، اور غیرملکی مداخلت مسلسل بڑھ رہی ہے۔
مشرق وسطیٰ کے اکثر ممالک میں عوامی سطح پر امریکی اڈوں کے خلاف شدید ردعمل موجود ہے، خاص طور پر عراق، بحرین، شام اور ترکی میں۔ ان ممالک میں عوامی احتجاج، پارلیمانی قراردادیں، اور مقامی سیاستدانوں کی طرف سے امریکہ کے انخلاء کے مطالبے سامنے آ چکے ہیں، مگر امریکہ اکثر ان آوازوں کو نظرانداز کرتا ہے۔ یہ رویہ جمہوریت اور خودمختاری جیسے امریکی دعووں سے متصادم نظر آتا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں امریکی اڈے بظاہر سلامتی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے قائم کیے گئے، لیکن ان کا اصل مقصد خطے پر اسٹریٹیجک کنٹرول قائم رکھنا ہے۔ یہ اڈے طویل المدتی طور پر یہ نہ صرف خطے کی خودمختاری کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اگر امریکہ واقعی خطے میں امن اور استحکام چاہتا ہے تو اسے اپنے فوجی اثر و رسوخ کی بجائے سفارت کاری، اقتصادی تعاون اور احترامِ خودمختاری کی بنیاد پر اپنی پالیسی تشکیل دینا ہو گی۔ اپنے اڈے ختم کرنا ہوں گے اور مداخلت کو ترک کرکے، احترام کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔