شام میں نئی حکومت کی فورسز جنگی جرائم میں ملوث؛ ناقابل تردید ثبوت سامنے آگئے

شام کی نئی حکومت کی بے لگام فورسز جنگی جرائم میں ملوث ہیں۔جس کے اب ٹھوس ثبوت سامنے آچکے ہیں۔ دوسری جانب شام کے شہر حمص میں اجتماعی قتل و غارت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہونے کا امکان ہے۔عالمی اداروں اور شام کے آبزرورز نے خطرے کی گھنٹی بجادی ۔

سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے بتایا ہے کہ شام کے شہر حمص کے دیہی علاقوں اور ساحلی دیہاتوں میں شہریوں کے خلاف خلاف ورزیاں شدت اختیار کر گئی ہیں، جہاں نئے طریقوں سے بلیک میلنگ اور دھمکیاں دی جا رہی ہیں جو شدید انسانی بحران کے خدشات کو جنم دے رہی ہیں اور بین الاقوامی انسانی حقوق اور انسانی حقوق کے اصولوں کی واضح خلاف ورزی کر رہی ہیں۔

جبلہ گاؤں میں عینی شاہدین کی دستاویزی گواہیوں کا حوالہ دیتے ہوئے، آبزرویٹری نے رپورٹ کیا کہ مقامی رہائشیوں کو مسلح گروپوں نے دھمکیاں دی تھیں کہ وہ 300 فوجی سطح کے اسلحے کی قیمت کے برابر رقم ادا کریں، حالانکہ گاؤں والوں کے پاس ایسا کوئی اسلحہ نہیں تھا۔دھمکی میں یہ بات بھی شامل تھی کہ اگر مطالبہ پورا نہ کیا گیا تو اجتماعی قتل کی کارروائی کی جا سکتی ہے، جس کے بعد بڑی تعداد میں لوگ خوف کے مارے گاؤں چھوڑ کر بھاگ گئے۔اسی طرح کے ایک اور واقعے میں، بنیاس کے قریب الحطانیہ گاؤں کے مقامی ذرائع نے بتایا کہ رہائشیوں کو ایک انتخاب دیا گیا یا تو 60 ملین شامی پاؤنڈز ادا کریں یا ایک مسلح گروہ کے گاؤں میں داخل ہونے کا سامنا کریں۔

سویدا کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک گروپ کے سرگرم کارکنوں نے، ان خلاف ورزیوں اور استحصال کے بارے میں آواز اٹھائی ہے جن کا انہوں نے سامنا کیا۔کارکنان کا کہنا ہے کہ خاص طور پر خواتین کو نشانہ بنا کر سر پر تشدد اور موت کی دھمکیاں شامل تھیں۔ یہ کارروائیاں فرقہ وارانہ نوعیت کی تھیں، جن میں علوی اور دروز کمیونٹیز کے ارکان کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ جو کچھ ہوا وہ آئینی اعلامیہ کی خلاف ورزی تھی، جسے انہوں نے مکمل طور پر مسترد کر دیا۔مارچ کے وسط میں، شام کے عبوری صدر احمد الشعارا نے شامی آئینی اعلامیہ کے مسودے پر دستخط کیے تھے، جسے قانونی ماہرین کی کمیٹی نے تیار کیا تھا۔جس میں سب کمیونٹیز کے تحفظ کی ضمانت دی گئی تھی۔

دوسری جانب ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شام کے ساحلی علاقے میں ہونے والے واقعات کو جنگی جرائم قرار دیا ہے اور شام کی عبوری حکومت کی فورسز کو قتل عام کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس بات کی نشاندہی کی کہ حکومت کے حامی ملیشیا نے 8 اور 9 مارچ 2025 کو سمندر کنارے کے شہر بنیاس میں 100 سے زائد افراد کو قتل کیا۔ گروپ نے 32 واقعات کی تحقیقات کیں اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ حملے جان بوجھ کر کیے گئے تھے اور ان کا مقصد علوی اقلیت کو نشانہ بنانا تھا۔عینی شاہدین نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بتایا کہ مسلح افراد نے متاثرین سے پوچھا کہ آیا وہ علوی ہیں، اس کے بعد ان کو دھمکیاں دی گئیں یا قتل کر دیا گیا۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان ہلاکتوں کا حجم اور طریقہ جنگی جرم کی حیثیت رکھتے ہیں، اور ریاستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر قانونی ہلاکتوں کے دعووں کی فوری، آزاد، مؤثر اور غیر جانبدار تحقیقات کو یقینی بنائیں اور مجرموں کو جوابدہ ٹھہرائیں۔

شامی حکومت نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی مارچ میں شام کے ساحلی علاقے میں ہونے والے واقعات پر رپورٹ کے حوالے سے ردعمل بھی دیا ہے، حکومت نے اس بات پر زور دیا کہ وہ رپورٹ کا جائزہ لینے کے لیے آزاد قومی کمیشن آف انکوائری بنا کر تحقیقات کرے گی۔ حکومت نے مزید کہا کہ ساحلی علاقے میں ہونے والے بدقسمت واقعات کی ابتداسابقہ حکومت کے باقیات کی طرف سے ایک سازشی اور سوچی سمجھی حملے سے ہوئی، جس کا مقصد عوامی سلامتی کی فورسز اور فوج کو نشانہ بنانا تھا اور یہ بھی کہا کہ ان عناصر نے علاقے کے رہائشیوں کے خلاف خلاف ورزیاں کیں۔

دوسری جانب شام میں امریکہ و اسرائیل کی ایماء پر خدمات سرانجام دینے پر ترکیہ کے صدر کو شاباشی مل چکی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ میری ترک صدر ایردوان سے بہت اچھی دوستی ہے، میں انہیں پسند کرتا ہوں اور وہ بھی مجھے پسند کرتے ہیں، جس سے میڈیا پاگل ہو جاتا ہے۔ہم نے بہت کچھ برداشت کیا مگر کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے کہا اگر تمہیں ترکیے سے کوئی مسئلہ ہے تو میں اسے حل کر سکتا ہوں۔ میری ایردوان سے بہت اچھی انڈرسٹینڈنگ ہے۔میں نے صدر ایردوان سے کہاآپ نے وہ کام کیا جو پچھلے 2 ہزار سال میں کوئی نہیں کر سکا ، آپ نے شام پر قبضہ کر لیا۔وہ بہت سمجھدار اور ہوشیار لیڈر ہے۔ اس نے جو کیا وہ کسی سے نہ ہو سکا، اس کی تعریف بنتی ہے۔نیتن یاہو سے، اگر تم ترکیے کے ساتھ معقول رویہ رکھو، تو میں تمہارا مسئلہ حل کر سکتا ہوں۔ یعنی شام میں امریکہ اور اسرائیل جو کچھ نہ کرسکا وہ ترکی کے صدر نے کر دکھا یا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes
اپنا تبصرہ لکھیں