مرتب: رضی طاہر
ماخذ از: کتاب ذبح عظیم از ڈاکٹر طاہر القادری
شاعری: نوشی گیلانی
تمام تر اختیارات کو اپنی ذات میں مرتکز کر کے خدا بننے کا جنون تاریخ انسانی کے ہر دور اور ہر عہد میں مسند اقتدار پر براجمان مطلق العنان بادشاہوں کے ذہنوں میں فتور برپا کرتا رہا ہے۔ انسانی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کر کے اپنی انا کو تسکین دینے کے اس شیطانی عمل نے اس کرہء ارضی پر شاداب موسموں کی چاندنی بکھرنے کی بجائے تاریخ کے اوراق پر جبر و استبداد کی ان گنت داستانیں رقم کی ہیں۔
امام عالی مقام امام حسین علیہ السلام کی جنگ اسی پاور پالیٹکس کے خلاف تھی، آپ کا قیام ظلم ، جبر کیخلاف اور انسانی جان کی حرمت کیلئے تھا، یہی وجہ تھی آپ نے نانا کے حرم اور اللہ کے گھر چھوڑا اور سفر کرتے ہوئے کربلا کے ریگزار پر آگئے، المختصر شب عاشور کی رات آگئی، ابن کثیر روایت کرتے ہیں حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے رفقاء کو جمع کیا اور فرمایا دیکھو کل کا دن دشمن سے مقابلے کا دن ہے، میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ تم اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ قیامت کے دن اپنے نانا جان کے حضور تمہاری بے وفائی کا گلہ نہیں کروں گا اور گواہی دوں گا کہ نانا جان یہ میرے وفادار تھے، میں نے بخوشی انہیں جانے کی اجازت دی تھی۔ جس جس کو ساتھ لے کر جانا چاہتے ہو لے جاؤ، یزیدیوں کو صرف میری گردن کی ضرورت ہے جب میری گردن کاٹ لیں گے تو ان کے کلیجے ٹھنڈے ہوجائیں گے تم اپنی جانیں بچاؤ اور حفظ و امان سے واپس چلے جاؤ۔ لیکن عزیمت کے مسافروں کو آفرین کہ انہوں نے اپنی وفاداری کو زندگی کی عارضی مہلت پر ترجیح دیا۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کے جان نثار اصحاب اور شہزادوں نے عرض کیا کہ امام عالی مقام! خدا وہ دن نہ لائے کہ ہم آپ کو چھوڑ کر چلے جائیں، 10 محرم الحرام کا سورج طلوع ہوا تو خون میں ڈوبا ہوا تھا، آسمان خون کے آنسو رو رہا تھا۔ آج علی اصغر کے حلقوم میں تیر پیوست ہونا تھا خاندان رسول ہاشمی کے بھوکے پیاسے شہزادوں کے خون سے ریگ کربلا کو سرخ ہونا تھا۔کربلا کا منظر تو دیکھئے۔۔ تین دنوں کے پیاسے حسینی سپاہیوں نے منافقت کے خلاف فیصلہ کن معرکے کی تیاری شروع کر دی۔ انفرادی جنگ کا آغاز ہوا۔ جناب حر اصحاب حسین رضی اللہ عنہ کے پہلے شہید تھے اب ایک مجاہد لشکر حسین رضی اللہ عنہ سے نکلتا اور ایک لعین یزیدی لشکر سے۔ آپ کے جان نثار دشمن کی صفوں کی صفیں الٹ دیتے، یزیدیوں کو واصل جہنم کر کے اور پھر خود بھی جام شہادت نوش کر کے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں پر نثار ہوجاتے، اصحاب حسین ایک ایک کرکے حق شجاعت دیتے ہوئے صفت شہادت سے سرفراز ہوئے۔اب پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کے افراد کی باری تھی۔ ان کے چہرے تمتما رہے تھے۔ بھوک اور پیاس سے برا حال ہو رہا تھا لیکن جذبہ شہادت کے جوش میں دنیا کی یہ چیز ان کے نزدیک بے وقعت ہوکر رہ گئی تھی۔ علی اکبر، جسے ہمشکل پیغمبر ہونے کا اعزاز حاصل تھا، بارگاہ حسین علیہ السلام میں حاضر ہوتے ہیں کہ ابا جان! اب مجھے اجازت دیجئے۔ حضرت امام حسین نے اس کی پیشانی پر الوداعی بوسہ ثبت کرتے ہوئے جواں سال بیٹے کو سینے سے لگا لیا اور بیٹے کو حسرت بھری نظروں سے دیکھا اور دعائیں دے کر مقتل کی طرف روانہ کیا کہ بیٹا! جاؤ اللہ کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرو علی اکبر شیر کی طرح میدان جنگ میں آئے، سراپا پیکر رعنائی، سراپا پیکر حسن، سراپا پیکر جمال مصطفیٰ اور جناب رسول اللہ کی تصویر کامل، یزیدی لشکر سے نبرد آزما تھا۔ اچانک لڑتے لڑتے آواز دی۔يا ابتاه ادرکنی ۔۔۔ابا جان آ کر مجھے تھام لیجئےامام حسین علیہ السلام سمجھ گئے کہ جواں سال بیٹے کی شہادت کی گھڑی آگئی، دوڑ کر علی اکبر کی طرف آئے، قریب ہوکر دیکھا تو ہمشکل پیغمبر علی اکبر زمین پر تھا۔ علی اکبر شہید ہوگئے۔
امام عالی مقام دیکھ رہے ہیں کہ اب کونسا گل رعنا عروس شہادت سے ہمکنار ہونے کے لئے مقتل کی طرف روانہ ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب کون مفارقت کے داغوں سے سینہ چھلنی کرتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب کون تشنہ لب ،،حوض کوثر پر پہنچ کر اپنی پیاس بجھاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب کون اپنے لہو سے داستان حریت کا نیا باب تحریر کرتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ نظریں اٹھا کر دیکھتے ہیں تو سامنے امام حسن علیہ السلام کے لخت جگر قاسم کھڑے ہیں، یہ وہ جوان ہیں جن کے ساتھ حضرت سکینہ کی نسبت طے ہوچکی ہے، عرض کرتے ہیں چچا جان! اجازت دیجئے کہ اپنی جان آپ کے قدموں پر نثار کردوں۔۔۔ہزاروں دعاؤں کی چھاؤں میں خانوادہء رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ چشم و چراغ بھی میدان شہادت کی طرف بڑھنے لگا۔حمید بن زیاد، ابن زیاد کی فوج کا سپاہی ہے، وہ بیان کرتا ہے کہ ہم نے اچانک دیکھا کہ اہل بیت کے خیموں میں سے ایک خوبصورت اور کڑیل جوان نکلا، اس کا چہرہ چاند کا ٹکڑا معلوم ہوتا تھا۔ اس کے ہاتھ میں تلوار لہرا رہی تھی۔وہ شیر کی طرح حملہ آور ہوا، ابن سعد کے لشکر پر ٹوٹ پڑا اور یزیدیوں کو واصل جہنم کرنے لگا، یزیدیوں نے چاروں طرف سے حملہ کر دیا کسی بدبخت نے شہزادہ قاسم کے سر پر تلوار ماری آواز دی یا عماہ! اور چکرا کر گر پڑے، علی اکبر اور قاسم کی جدائی نے امام حسین علیہ السلام کو دکھی کیا تو سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے خیموں کے اندر سے علی اصغر کو آپ کے پاس آپ کا دل بہلانے کیلئے بھیج دیا۔ امام عالی مقام نے اپنے ننھے منے بیٹے کو اپنی گود میں سمیٹا، بے ساختہ پیار کیا اور اس کا سر منہ چوم کر آنے والے لمحات کے لئے نصیحتیں فرمانے لگے کہ بنی اسد کے قبیلے کے ایک بدبخت نے تیر مارا جو معصوم علی اصغر کے حلق میں پیوست ہوگیا۔ ننھا بچہ اپنے ہی خون میں نہا گیا۔ امام عالی مقام نے اس معصوم کے خون سے چلو بھر کر آسمان کی طرف اچھال دیا کہ باری تعالیٰ ہم تیری رضا اور خوشی کے طلب گار ہیں۔
وہ لمحے اپنے تخیل میں لائیے ۔۔۔ آسمان سے سورج آگ برسا رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نینوا کے سینے سے فرات بہہ رہا تھا آج خانوادہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ یہ پانی ہر شخص کے لئے عام ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امام عالی مقام کے جان نثار ایک ایک کر کے راہ حق میں توحید کی گواہی دیتے دیتے جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گلستان رسول اجڑ چکا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چمنستان فاطمہ رضی اللہ عنہا کو موت کی بے رحم ہواؤں نے اپنے دامن میں سمیٹ رکھا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عون و محمد بھی رخصت ہوچکے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عباس علمدار مقام شہادت پاچکے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شہزادہ قاسم موت کو گلے سے لگاچکے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شہزادہ علی اکبر کا بے گور و کفن لاشہ ریگ کربلا پر پڑا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معصوم علی اصغر کا خون بھی فضا کربلا کو رنگین کرگیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امام عالی مقام اپنے جان نثاروں کے لاشے اٹھاتے اٹھاتے نڈھال ہوچکے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب وہ لمحات ہیں کہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کربلا کے میدان میں تنہا کھڑا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن شیر خدا مولاعلی علیہ السلام کا شیر اپنے تمام اثاثے لٹانے کے بعد بھی استقامت کی تصویر بنا ہوا ہے۔ ایمان کی روشنی آنکھوں سے جھلک رہی ہے۔ چہرے پر اعتماد کا نور بکھرا ہوا ہے، گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں، زینب رضی اللہ عنہا رکاب تھامتی ہیں، امام عالی مقام میدان کربلا میں تلوار لئے کھڑے ہیں، یزیدی عساکر پر خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ فرزند شیر خدا کا سامنا کرنے سے ہر کوئی کترا رہا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ مدمقابل کون کھڑا ہے۔ نواسہ رسول کو پہچانتے ہیں ان کی عظمت اور فضیلت سے آگاہ ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، وہ جانتے ہیں کہ نبض حسین نبض رسول ہے، لیکن مصلحتیں پاؤں کی زنجیر بنی ہوئی ہیں۔ مفادات نے ہونٹوں پر قفل ڈال رکھے ہیں۔ لالچ، حرص اور طمع نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال رکھا ہے اور وہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کر کے دربار یزید میں مسند شاہی کا قرب حاصل کرنے کے آرزو مند ہیں۔
یزیدی لشکر نے جان نثاران حسین سلام اللہ علیھم کی استقامت، شجاعت اور جرات دیکھ کر انفردی جنگ بند کردی تھی، جب حسین مقتل میں آئے تو اجتماعی حملہ جاری تھا لیکن پورا لشکر بھی اجتماعی طور پر نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کرنے سے ڈر رہا تھا۔ دور دور سے تیر چلاتے رہے کیونکہ قریب آ کر علی کی شجاعت کے وارث سے جنگ کرنے کا کسی کو حوصلہ نہ ہوا۔ تیروں کی برسات میں امام عالی مقام کا جسم اطہر چھلنی ہوگیا۔ زخموں سے چور امام پر، چاروں طرف سے حملہ کیا گیا۔ شمر اور یزید کے بدبخت سپاہی قریب آگئے، یکبارگی حسین علیہ السلام کو تلواروں کے نرغے میں لے لیا گیا۔ آخر مردانہ وار جنگ کرتے کرتے شہسوار کربلا گھوڑے سے نیچے آگئے۔ نیزوں اور تلواروں سے بھی امام عالی مقام کا جسم چھلنی کردیا گیا۔ زندگی کا آخری لمحہ آپہنچا، امام عالی مقام نے دریافت فرمایا کہ کون سا وقت ہے جو اب ملا نماز کا وقت ہے۔ فرمایا : مجھے اپنے مولا کے حضور آخری سجدہ کرلینے دو۔ خون آلودہ ہاتھوں کے ساتھ تیمم کیا اور بارگاہ خداوندی میں سجدہ ریز ہوگئے باری تعالیٰ یہ زندگی تیری ہی دی ہوئی ہے اسے تیری ہی راہ میں قربان کر رہا ہوں اے خالق کائنات! میرا یہ آخری سجدہ قبول ہو۔ اسی حالت میں بدبخت شمرلعین آگے بڑھا اور سر اقدس کو تن سے جدا کردیا۔ ادھر روح نے قفس عنصری سے پرواز کی ادھر ندا آئی۔ اے اطمینان پاجانے والے نفس۔ تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آ کہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی (گویا اس کی رضا تیری مطلوب ہو اور تیری رضا اس کی مطلوب)۔۔۔ بارگاہ ایزدی سے آواز آئی۔۔۔حسین! میں تجھ پر راضی ہوگیا۔
اے روح حسین! میرے پاس لوٹ آ جنت کے دروازے کھلے ہیں، حوض کوثر پر آپ کے نانا استقبال کیلئے کھڑے ہیں،باب جنت پر سیدہ فاطمہ اور جناب مولا علی تیرے راہ دیکھ رہے ہیں، قدسیان فلک تیرے انتظار میں ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
سلام رہبرِ آزادئ حیات سلام
سلام شاہِ شہیدانِ شش جہات سلام
سلام تجھ پہ کہ تیری جسارتوں سے ملی
جہانِ کرب و بلا کو لہو کی سچائ
تِرےہی نام سے روشن ہوا چراغِ وفا
تِرے وجود سے قائم سحر کی رعنائ
سلام تجھ پہ کہ تیری محبتوں سے ملا
سُراغ۔۔۔ عشقِ محمد کی انتہاؤں کا
تعصبات کو رَد کرکے رکھ دیا تُونے
سبق عمل سے دیا تُونے بس وفاؤں کا
سلام تجھ پہ کہ تیرے لہو کی خوشبو سے
خیال و فکر میں خیمہ تِرا مہکتا ہے
یہ میرے لفظ جو اَب جگمگانے لگتے ہیں
تِرے گھرانے کے علم و ہنر کا صدقہ ہے
سلام تجھ پہ کہ تیری صداقتوں کے طفیل
کبھی رُکا نہیں صحرا میں بھی سفر میرا
مِلا ہے صبر مجھے تیرے عزم سے ایسا
کہ بےکسی میں بھی قائم ہے کرّوفر میرا
سلام رہبرِ آزادئ حیات سلام
سلام شاہِ شہیدانِ شش جہات سلام