پرانے وقتوں میں بادشاہوں کے محلات میں وزیروں ، مشیروں او ر مبصرین کی فوج ظفر مو ج ہوا کرتی تھی ، جن کا تقرر قیمتی مشوروں کے بجائے خوشامدی قصیدوں کی وجہ سے ہوا کرتا تھا ۔ مگر ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا، اسلام کے ماضی پر نگاہ دوڑائیں تو حضرت عمر فاروق ;230; کا دور خلافت ہمارے تابناک ماضی کی ایک اعلیٰ مثال ہے، حضرت عمر;230; کی خلافت زمین پر 22لاکھ 52ہزار تیس مربع میل پر پھیلی ہوئی تھی، مگر ان کے امورمملکت چلانے کیلئے مجلس شوریٰ چھ افراد پر مشتمل تھی جبکہ انہوں نے 9 محکمے قائم کرکے ہر محکمے کا ایک سربراہ مقرر کردیا، امور خزانہ، احتساب، ٹیکس اورآڈٹ کے لئے چار افراد کا تقرر کیا ۔ یوں ایک اندازے کے مطابق ان کی مرکزی کابینہ کم وبیش19افراد پر مشتمل تھی جبکہ ہر صوبے اور ریاست کیلئے گورنرز کا تقرر کیا گیا ۔ عباسی دور حکومت کی بات کریں تو امور سلطنت چلانے کیلئے محکموں کے لئے 8سے10حاکم، تین سے پانچ وزراء جبکہ 14صوبوں کے گورنرز پر مشتمل خلیفہ وقت کی کیبنٹ ہوتی تھی ۔ مختصر وزراء اور معاونین کے ساتھ یہ حکومتیں تاریخ کی کامیاب ترین حکومتوں میں شامل ہیں ، تاہم وقت بدلتا گیا ، وزراء اور مشیروں کے چناءو کا سلسلہ تو جاری رہا مگر ان کی اہلیت کے معیار بدلتے گئے ۔
دنیا میں آج بھی کامیاب ممالک کے وزراء کی تقرریوں کے معیار ان کی اہلیت ہے ، اگر ہم دور حاضر میں مختلف ممالک کی مثالیں پیش کریں تو متحدہ ہائے امریکہ کے صدر کیلئے مرکزی کابینہ میں 22وزراء،برطانیہ میں وزیراعظم کی معاونت کیلئے 29وزراء ہیں ۔ ترکی میں 26، ایران میں 18، چین میں 23وزراء امور مملکت سرانجام دے رہے ہیں ۔ اس کے برعکس دنیا میں منفرد پاکستا ن اور بھارت ہیں جہاں وزارتیں صرف امور مملکت چلانے کیلئے ہی نہیں بلکہ سیاسی مفادات کی خاطر بھی دی جاتی ہیں ، جہاں اہلیت کا معیار بھی ہمارے ماضی کے مغل بادشاہوں والا ہے ۔ کہنے کو تو ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے لیکن ہمارے ہاں اسلامی روایات کہیں دکھائی نہیں دیتیں ۔ ہمارے صدر مملکت، وزیراعظم اور وزرائے اعلی کی زندگی بادشاہوں جیسی ہے جن کے ارد گرد وزیروں ، مشیروں اور معاونین کی قطاریں ہیں ۔ شاہد خاقان عباسی کی کابینہ 88رکنی ہے جس میں 29وفاقی وزراء، 18وزرائے مملکت اور4 مشیر ،5معاون خصوصی اور32پارلیمانی سیکرٹریز شامل ہیں ۔ سادگی کی مثالیں دینے والے خادم اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی ٹیم میں 34وزرا ء ،43پارلیمانی سیکرٹریز، 5معاونین و مشیر شامل ہیں ۔ سندھ کی بات کریں تو مراد علی شاہ کی ٹیم میں 18وزراء ، 1مشیراور 8معاون خصوصی شامل ہیں ۔ خیبر پختونخوا کی کابینہ میں 12وزراء، 4 مشیر،5معاون خصوصی اور 18 پارلیمانی سیکرٹریز موجود ہیں ۔ بلوچستان میں 13وزراء اور4مشیر وزیراعلیٰ کے شانہ بشانہ ہیں ۔ ذیل میں ہم وفاق کے چند وزراء کی کارکردگی قارئین کے سامنے رکھتے ہیں تاکہ ہ میں انداز ہ ہوسکے کہ کیا واقعی وزراء اپنے فراءض منصبی نبھارہے ہیں یا یہ قوم پر اضافی بوجھ کے سوا کچھ نہیں ، وزارتیں انہیں سیاسی مقصد کیلئے دی گئیں ہیں یا یہ صاحبان اپنی وزارتوں کے ذریعے عوام کی خدمت بھی کررہے ہیں ۔
اکرم خان درانی ہاءوسنگ اینڈ ورکس کے وزیر ہیں ، وزارت کے فراہم کردہ ڈیٹا کے مطابق ان کی وزارت سے دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ ان کی آخری ملاقات13جولائی 2017کو سابق برطرف وزیراعظم نوازشریف سے ہوئی تھی ، مگر اس ملاقات میں بھی وزارت کے امور پر کوئی بات نہ ہوئی ۔ وزارت کی پالیسی 2001 میں وضع کی گئی جس کو اپ ڈیٹ کرنے میں انہوں نے کوئی کردار ادا نہیں کیا ۔ سال2014 میں انہوں نے وزارت میں کمپیوٹرائزڈ ونگ کے افتتاح کا کارنامہ سرانجام دیا ۔ انسانی حقوق کی وزارت ممتاز تارڑ کے پاس ہے ، اس سے قبل کامران مائیکل کے پاس یہ وزارت رہی ہے، وزارت کے ڈیٹا میں ممتاز تارڑ کا کوئی کارنامہ ،سرگرمی دستیاب نہیں ہے، تاہم سابق وزیر کامران مائیکل کا کردار متحرک رہا ۔ بین الصوبائی رابطوں کی وزارت مسلم لیگ ن سے اختلاف رکھنے والے سینئر رہنما ریاض پیرزادہ کے پاس ہے، کما ل کی بات یہ ہے کہ خبروں میں اپنے بیانات کی وجہ سے زندہ رہنے والے ریاض پیرزادہ بین الصوبائی روابط کی وزارت کیلئے کام تو دور کی بات خبر تک نہیں بناسکے ۔ ان کی وزارت کی سرکاری ویب ساءٹ پر ;82;untime ;69;rrorمنہ چنگھاڑ رہا ہے ۔ یہی حال سمندر پار پاکستانیز کی وزارت کی سرکاری ویب ساءٹ کا ہے جس کے روح رواں پیر سید صدرالدین شاہ ہیں ۔ وزیر موصوف کی وزارت سے متعلقہ مصروفیت کا کوئی ریکارڈ نہ مل سکا ۔ مولانا امیرزمان پوسٹل سروس کے وزیر پائے گئے ہیں ، پوسٹل سروسز میں نہ ہی ان کا کوئی خاطرخواہ تجربہ ہے اور نہ ہی انہوں نے کوئی کارنامہ سرانجام دیا ہے، اس وزارت کی آخری کارکردگی پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں الیکٹرانک منی آرڈر کا اجراء تھا ۔
ڈاکٹر حافظ عبدالکریم کے پاس تعلقات عامہ کی وزارت ہے، مگر ان کی;67;ommunicationکا یہ عالم ہے کہ انہیں 99فیصد افراد جانتے ہیں نہیں ہیں ۔ گزشتہ دنوں ایک سعودی وفد سے ملاقات کے علاوہ ان کا کوئی ریکارڈ مل نہ سکا ۔ جبکہ اس وزارت کی کوئی پالیسی ہی نہیں ہے ۔ مشاہد اللہ خان وزیر ماحولیات ہیں ، مگر ماحولیاتی تغیرات پر کسی قسم کی کوئی پالیسی انہوں نے وضع نہیں کی، سموگ کے عذاب سے لاہور گزر رہا ہے مگر انہیں فکر نہیں ہے، ہوا کی آلودگی کے حوالے سے جانچنے کیلئے پاکستان کے پاس ابھی کوئی باقاعدہ نظام ہی نہیں مگر وفاقی وزیر اس سے نہ صرف بے خبر ہیں بلکہ وزارت میں دکھائی بھی نہیں دیتے ۔ میر دوستین خان ڈومکی کے پاس وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی ہے، اس وزارت کے دستیاب ڈیٹا کے مطابق 2013کے بعد سائنس اور ٹیکنالوجی کی کوئی پالیسی ہی وضع نہیں کی گئی ہے ۔ اگر ہم مجموعی طور پر سب کے احوال کا جائزہ لیں تو سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار،وزیرمنصوبہ بندی احسن اقبال، وزیر ریلوے سعد رفیق ، وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے علاوہ کسی وزیر نے کبھی اپنی وزارت کی کارکردگی میڈیا کے ذریعے بتانا پسند نہیں کیا ۔ ان وزراء کی بھی کارکردگی پر کئی سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں لیکن کم از کم انہوں نے باقاعدہ طور پر اپنی وزارت کی کارکردگی کو عوام کے سامنے لانا تو گوارہ کیا ۔ جب سیاست خدمت کے بجائے کاروبار بن جائے اور ایک ایم این اے کروڑوں کی سرمایہ کاری کے بعد ایم این اے بنے اور جب اسے وزارت ملے تو اسے وہ اپنے کاروبار کی پروموشن سمجھے ایسے نظام میں وزراء کی کارکردگی کہاں سے ہوگی، وزراء کے تقرر کیلئے کون سے اصول ، ضابطے اور قابلیت دیکھی جاتی ہے اس کا انداز ہ آپ موجودہ کیبنٹ کی فہرست نکال کر بھی کرسکتے ہیں ۔ گویا یہ کابینہ جو نوازشریف کے دور میں 38رکنی تھی ، عباسی کیلئے 88رکنی کردی گئی ، اس کے پیچھے صرف ایک مقصد ہے وہ یہ ہے مسلم لیگ ن پر مشکل حالات میں پارٹی چھوڑنے کا سوچنے والوں کو نوازدیا جائے تاکہ کسی قسم کا کوئی فارورڈ بلاک نہ بن سکے اور زیادہ تر ان افراد کو وزارت کی کنجیاں دی گئیں جنہوں نے پنامہ کیس میں نوازشریف اور ان کے خاندان کا بھرپور انداز میں دفاع کیا، یہی وجہ ہے کہ وزراء کے پاس نہ تو کوئی پالیسی ہوتی ہے او ر نہ ویژن ، وزارتیں بیوروکریٹس کی مرہون منت ہوتی ہیں ۔ ماضی میں نگاہ دوڑائیں تو پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں وفاقی کابینہ 91رکنی تھی مگر پانچ سال مکمل ہونے کے باوجود کسی وزیر کی کارکردگی کی کوئی رپورٹ دستیاب نہیں ہے ، نہ سیاسی جماعتیں پوچھتی ہیں ۔ 7اپریل2016کو سینیٹ میں پیش کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق 38رکنی وفاقی کابینہ کے اخراجات 9 کروڑ 80لاکھ تھے، اخراجات میں اضافے کے باوجود اگر ہم انہی اعدادوشمار سے اندازہ لگائیں تو اس وقت وفاقی کابینہ پر ماہانہ 22کروڑ 60لاکھ روپے خرچ ہورہے ہیں ۔ یہ وہ کم ترین اخراجات ہیں جو وزیر موصوف کے گھر بیٹھے بھی قوم کے خزانے پر بوجھ ہیں ، وزراء کے بیرون ملک کے دورے اور خصوصی اخراجات اس سے علیحدہ ہیں ۔ صرف شاہد خاقان عباسی کی کابینہ آٹھ ماہ میں ملکی خزانے پر کم وبیش دو ارب کا بوجھ ڈالیں گے ، اس کے باوجود وزراء سے یہ نہیں پوچھیں گے کہ آپ کی کارکردگی کیا ہے نہ ہی اس قسم کی کرپشن پر احتساب کا کوئی فورم ہے،کوئی ایسا نظام بنانے کے ضرورت ہے جس میں وزراء کی اہلیت کا تقرر کیا جاسکے اور ان کی سہ ماہی رپورٹ میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے لائی جائے تاکہ عوام بھی اپنے منتخب رہنماءوں کی کارکردگی جان سکیں ۔ یہ وہی پاکستان ہے جس کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح سرکاری خرچے سے مادر ملت فاطمہ جناح کیلئے ایک کرسی خریدنے پر سیخ پا ہوگئے تھے ، جبکہ قومی اسمبلی میں چائے کی فرمائش پر انہوں نے کہا کہ کیا آپ کو گھر پر چائے نہیں ملتی ;238; کہاں قائداعظم محمد علی جناح کا خواب اور کہاں آج کا پاکستان ۔ ۔ ۔ پاکستان کی 21کروڑ عوام کیلئے سوچنے کا مقام ہے ۔