تحریر : رضی طاہر
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک بے گناہ انسان کے قتل کو انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا۔ سورۃ المائدہ میں اللہ نے ارشاد فرمایا ’’ جس نے کسی ایک انسان کو قتل کیا، اِس کے بغیر کہ اُس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں کوئی فساد برپا کیا ہو تو اُس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی ایک انسان کو زندگی بخشی، اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی‘‘گویا انسانی جان کی حرمت مذہب اسلام کی روح ہے۔
یہاں یہ بھی واضح ہے کہ مسلمان کے قتل کی نہیں بلکہ انسان کے ناحق قتل کی بات ہورہی ہے، یہ اتنا حسین و جاوداں دین ہے کہ انسانوں کے زندہ رہنے کے حق کو بیان کرتا ہے، آج دنیا کے تمام مہذب معاشروں نے جینے اور زندگی کے حق کو اپنے قانون کا حصہ بنایا، اقوام متحدہ کے چارٹر زندگی ، آزادی اور تحفظ کا حق کے آرٹیکل ۲ میں ہے کہ ہر انسان کو زندگی، آزادی اور اپنے شخص کی سلامتی کا حق حاصل ہے۔ جدید دنیا نے جس قانون کو بیسیویں صدی میں اپنایا وہی قانون ساڑھے 14 سو سال قبل ریاست مدینہ کا قانون تھا۔
اب اس تناظر میں کربلا کی بات کریں تو کربلا کے کثیر الجہتی مقاصد و اہداف میں امام حسین علیہ السلام کے پیش نظر انسانوں کے جینے کے حق کی پامالی بھی تھی۔ امام نے یزید کیخلاف اپنی مبارک زبان سے جو 7 وجوہات اپنے قیام کی بیان کیں وہ کچھ یوں ہیں،پہلی وجہ یہ تھی کہ یزید ایک فاسق شخص تھا، دوسری وجہ کہ یزید علی الا اعلان برے کاموں کو انجام دیتا ہے، تیسری وجہ یہ تھی کہ یزید حرام قرار دی گئی شراب پیتا تھا، چوتھی وجہ یہ تھی کہ حاکم ہوتے ہوئے اپنا وقت کتوں اور شیروں کے کھیل میں گزارتا، پانچویں وجہ اہل بیت اطہار سے دشمنی تھی جبکہ چھٹی وجہ بیان کی کہ یزید بے گناہ افراد کو قتل کرنے والا تھا یہ ساری وجوہات بیان کرکے کہا کہ یہ ممکن نہیں کہ مجھ جیسا یزید جیسے کے ہاتھ پر بیعت کرے ۔
امام حسین علیہ السلام کے قیام کی چھٹی وجہ بے گناہ افراد کے قتل کیخلاف صف آراء ہونا تھا، جسے قرآن مجید نے ایک انسان کے قتل کو تمام انسانوں کے قتل کے برابر قرار دیا۔ آپ نہ صرف انسانیت کے جینے کے حق کے خلاف صف آراء تھے بلکہ خود انسانوں کے جینے کے حق کے علمبردار بھی تھے۔ امام عالی مقام علیہ السلام کے سامنے جب حر اپنے لشکر کے ہمراہ آیا تو ان کے چہرے پر تھکن واضح تھی، اس وقت وہ آپ کے دشمن تھے لیکن آپ نے ان کے لشکر اور جانوروں کو پانی سے سیراب کرکے رہتی دنیا تک یہ پیغام دیا کہ امام حسین اپنے دشمن کے جینے کے حق کا بھی احترام کرتے ہیں، دوسری جانب کربلا کے میدان میں امام حسین علیہ السلام کا پانی بند کردیا گیا گویا یزید کے حواریوں نے جینے کا حق چھین لیا، پانی جو انسان کے جینے کا بنیادی جزو ہے وہی بند کردیا، امام کی سیرت میں مخالف لشکر کو پانی پلانے کی مثال ہی نہیں ملتی بلکہ میدان جنگ کے اندر 10 محرم کی سہ پہر جب امام حسین علیہ السلام کے 72 ساتھیوں کو شہید کردیا گیا تو آپ علیہ السلام میدان میں آئے تو ان کے مقابل ایک پہلوان تمیم نامی شخص اترا، کتب سیرت و تاریخ نے یہ واقعہ لکھا کہ امام حسین علیہ السلام پر حملہ آور ہوا تو امام کے وار سے زخمی ہوکر زمین پر گر پڑا، ایسے وقت میں جب امام نے اسے ختم کرنے کیلئے تلوار چلانا چاہی تو اس نے زندگی کی بھیک مانگی ، امام عالی مقام علیہ السلام نے مارنے کا ارادہ ترک کردیا اور جنگ میں زخمی ہونے والے اپنے بچوں و خانوادے کے قاتل دشمن کو بھی معاف کردیا کیونکہ اس نے تلوار پھینک کر زندگی کی بھیک مانگی تھی۔ یہ بے مثال امام حسین علیہ السلام کی بے مثل سیرت کا ایک نمونہ تھا، گویا کربلا کی جنگ کے بنیادی مقاصد میں یہ انسانوں کے جینے کا حق ایک اہم ترین مقصد اور ہدف تھا۔
یزید نے انسانوں کے جینے کے حق کی پامالی کی اور امام حسین علیہ السلام نے اس کیخلاف قیام کرکے رہتی دنیا تک انسانیت کو سبق دیا۔ میں اکثر یہ کہا کرتا ہوں کہ کربلا سے پہلے روح زمین پر انسانیت کا احساس زندہ تھا اور کربلا کے بعد انسانیت کو حسینیت کا نام مل گیا۔ انسانیت کے مقام، شرف، فضلیت، عدل اور ظلم و جبر کیخلاف امام حسین علیہ السلام کی جدوجہد ہی کربلا کا پیغام ہے۔ مولائے کائنات امام علی علیہ السلام کی حالت مورخین بیان کرتے کہ جب وہ مسجد میں بیٹھتے تو بعد اوقات ان کی حالت کچھ یوں ہوجاتی کہ تڑپنے لگتے، ایک ایسے شخص کی مانند جسے کسی زہریلے سانپ نے ڈسا ہو، بھلا وہ کون سا غم تھا جو امام علی علیہ السلام کو تڑپاتا تھا، وہ غم انسانوں کے جینے کی حق تلفی تھی، وہ غم عدل کا نفاذ تھا، یہی غم پسر علی و فاطمہ سلام اللہ علیہم امام حسین علیہ السلام کا غم تھا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ کربلا کو اس تناظر میں سمجھا، پڑھا اور بیان کیا جائے ۔ بدقسمتی سے ہم پاکستان میں ایک ایسے معاشرے اور نظام میں جکڑے ہیں جہاں انسانی خون ارزاں ہوچکا ہے اور جینے کے حق کی پامالی مسلسل کی جارہی ہے، ہمارا نظام عدل بھی بدبودار ہوچکا ہے جہاں انصاف کا گزر نہیں ہے، گزشتہ دنوں معروف پاکستانی صحافی ارشد شریف کے کیس میں کینیا کے ایک تاریخی فیصلے میں انسانوں کے جینے کے حق کا حوالہ دیتے ہوئے ایک عیسائی جج نے تاریخ ساز فیصلہ دیا، فیصلے کے کئی جملے پڑھے تو اس نے بار بار جینے کے حق پر زور دیا، مجھے کینیا کے جسٹس موٹوکو امام حسین کے نظریے پر دکھائی دی اور اپنے کئی قابل قدر جج یزید کی صف میں دکھائی دیئے۔