عمران خان کے ساتھ وہی ہورہا ہے جو قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ ہوا، لیاقت علی خان کے ساتھ بیتا، فاطمہ جناح کے ساتھ ہوا، ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ہوا، بونے لوگ ’’بین الاقوامی‘‘ معروف قیادت کو اسلئے ختم کرتے ہیں تاکہ کٹھ پتلیاں ان کے سامنے بالکل ایسے ہی ناچتی رہیں جیسے ان کے پیشوا امریکہ و برطانیہ چاہتے ہیں۔ خودمختار پاکستان کا خواب تبھی شرمندہ تعبیر ہوگا جب ملک کی باگ دوڑ عمران خان جیسے جری، بہادر، محب وطن اور خودی پر نہ سمجھوتہ کرنے والے عوامی رہنما کے ہاتھ ہوگی۔
لیاقت علی خان کے قتل کا اعتراف سی آئی اے کرچکی ہے، کیونکہ لیاقت علی خان کا رحجان مغرب کے بجائے مشرق کی جانب تھا۔
فاطمہ جناح پاکستان کو مقدم رکھتی تھیں لہذا پہلے ان کی تذلیل کی پھر نظربند کردیا۔
ذوالفقار علی بھٹو عالم مغرب کو اسلئے کھٹکتے تھے کہ وہ عالمی سطح پر مقبول ہوچکے تھے، پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس کی میزبانی کی اور پھر عالمی بدمعاش کو آنکھیں دکھائیں۔
عمران خان کو اسلئے رجیم چینج کے ذریعے اقتدار سے علیحدہ کیا گیا کیونکہ عمران خان آئی ایم ایف کی زنجیر سے قوم کو آزاد کرنے کیلئے پہلا قدم اٹھا چکے تھے اور امریکہ کی غلامی کے بجائے برابری کے تعلقات کے حامی تھی، روس و ایران سے بھی اچھے تعلقات کے خواہاں تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ کشمیر پر سمجھوتہ کرنے اور اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکاری تھے۔
پاکستان کے مفاد میں کیا ہے؟
کیا اپنی خارجہ و داخلہ پالیسی اپنے ملک کے لوگوں اور ریاست کے مفاد میں بنانا پاکستان کے مفاد میں نہیں؟ کیا مغرب پر انحصار کے بجائے، مشرق کی جانب دیکھنا پاکستان کے مفاد میں نہیں؟ کیا امریکہ اور آئی ایم ایف کی غلامی پاکستان کے مفاد میں ہے یا قرض سے نجات اور اپنے فیصلوں میں خودمختاری؟ کیا روس اور ایران سے سستے داموں تیل و گیس لینا اور برکس کا حصہ بن کر ڈی ڈالرائزیشن کی مہم میں شامل ہونا پاکستان کے مفاد میں نہیں؟
اب دیکھیں بھارت کیا کررہا ہے؟
بھارت کے روس کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں بلکہ روسی پٹرول روس سے لے کر یورپ کو سپلائی کررہا ہے۔ بھارت کے ایران سے اچھے تعلقات ہیں اور ایران سے لین دین میں عالمی پابندیوں کو جوتی کی نوک پر رکھتا ہے۔ بھارت اور چین میں دشمنی کے باوجود چین اور بھارت کی تجارت کا حجم خطے کے کسی بھی ملک سے کئی گنا زیادہ ہے۔ بھارت برکس کا حصہ بن کر ڈی ڈالرائزیشن کی مہم میں شامل ہوچکا ہے لیکن اس کے امریکہ و برطانیہ کے ساتھ بھی تعلقات مثالی ہیں۔
ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
ایک ہی کام ہے جو ہمیں کرنا ہے۔ غلامی سے آزاد ہونا ہے اور اپنے فیصلے اپنے ملک کے مفاد میں خود کرنے ہیں۔
یہ کیسے ممکن ہے؟
خودمختار پاکستان کا خواب تبھی شرمندہ تعبیر ہوگا جب ملک کی باگ دوڑ عمران خان جیسے جری، بہادر، محب وطن اور خودی پر نہ سمجھوتہ کرنے والے عوامی رہنما کے ہاتھ ہوگی۔
رضی طاہر اسلام آباد، پاکستان