تحریر: رضی طاہر
پانچ جولائی کی شب 11بجے اسلام آباد موٹروے ٹول پلازہ پر مقبول صحافی وتجزیہ کار عمران ریاض خان گرفتار ہوئے اور جیسے ہی ان کی گرفتاری کی خبر سامنے آئے پاکستان کے ٹوئیٹر پینل پر 8منٹ کے اندر میں بھی عمران ریاض خان ہوں ٹرینڈ بن گیا جو کہ ایک ہی گھنٹے میں ورلڈ وائیڈ ٹرینڈ میں منتقل ہوگیا، یہی نہیں بلکہ ٹوئیٹر پینل پر ٹاپ10موضوعات میں 10گھنٹوں سے صرف عمران ریاض خان زیر بحث رہا۔ جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عمران ریاض خان نوجوانوں کے مقبول ترین صحافی ہیں۔ گو کہ انہوں نے ایکسپریس نیوز جوائن کررکھا ہے لیکن انہیں ابھی تک سکرین نہیں دی جاسکی، تاہم ان کا یوٹیوب چینل پاکستان کے صحافیوں میں سے سب سے زیادہ دیکھا جانے والا یوٹیوب چینل ہے۔
عمران ریاض کی گرفتاری کے ایک گھنٹے کے اندر لاہور لبرٹی چوک اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر سینکڑوں شہریوں نے احتجاج کیا۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے بھرپور مذمت کرتے ہوئے احتجاج کی کال دی، پاکستان تحریک انصاف نے اپنے کارکنوں کو پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہروں کی کال دی جبکہ ڈیجیٹل میڈیاجرنلسٹ ایسوسی ایشن آف پاکستان نے بھرپور آواز اٹھانے کا اعلان کیا۔ اگر ماضی پر نگاہ دوڑائیں تو صحافیوں پر تشدد، گرفتاریاں اور غیرقانونی حربے اپنائے گئے لیکن کسی صحافی کی گرفتاری پر اتنا سخت ردعمل دیکھنے کو نہیں ملا جتنی پذیرائی پاکستان کی عوام اور بالخصوص نوجوانوں نے عمران ریاض خان کو دی۔ نوجوانوں کی جانب سے یہ اظہار کہ میں بھی عمران ریاض خان ہوں،درحقیقت مبینہ طور پر رجیم چینج آپریشن کے بعد عمران ریاض خان کا بطور مضبوط آواز ابھر کر سامنے آنے کی وجہ سے ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے جس دن خط لہرا کر قوم کو امریکی سازش سے مطلع کیا اس دن عوام مہنگائی، بیروزگاری اور بیڈگورننس کو بھول گئی اور عمران خان کی ہر کال پر لبیک کہا۔ اس سارے دورانیے میں عمران ریاض خان نے اپنی آواز کے ذریعے رجیم چینج آپریشن کے تمام کرداروں کو بے نقاب کیا۔ میں بھی عمران ریاض خان ہوں دراصل اہل پاکستان کی جانب سے رجیم چینج آپریشن کے کرداروں کو پیغام ہے کہ آپ بے نقاب ہوچکے ہیں اب کسی صحافی کی گرفتاری سے یہ آواز نہیں رکے گی۔ موجودہ حکومت کے 80دنوں کے اندر اندر بحثیت اپوزیشن اس حکومت کی صحافت کیلئے اٹھائی گئی آوازوں کی منافقت کی قلعی کھل کر سامنے آگئی۔
اپوزیشن میں پی ڈی ایم صحافیوں کے دھرنوں کی زینت بنتی رہی جبکہ حکومت میں آنے کے بعد اب تک سمیع ابراہیم پر درجنوں پرچے، صابر شاکر پر پرچے بیرون ملک جانے پر مجبور، ارشد شریف پر پرچے،عمران ریاض خان کے خلاف 20پرچے، ایاز امیر پر حملہ، سیاست ڈاک پی کے کو بند کرنے کوششیں، نجی ٹی وی اے آر وائی نیوز پر پیمرا کی جانب سے جرمانے اور لیگی رہنماؤں کے چینل مخالف بیانات سمیت کیا کیا دیکھنے کو مل رہا ہے۔کہا جارہا ہے کہ اگلا نشانہ ارشد شریف ہیں، اگر ایسا جاری رہا تو فہرست طویل ہوتی جائے گی، تھانے بھرتے جائیں گے لیکن آواز نہیں رکے گی، اگر یقین نہیں آتا تو ایک بار سوشل میڈیا سکرول کرکے دیکھ لیں، ہر دیوار پر لکھا ہے میں بھی عمران ریاض خان ہوں۔