صحت کے لحاظ سے کمزور مگر ہمت اور حوصلے کی بات کی جائے تو پہلوانوں سے بھی مضبوط اسلام آباد کے ایوان صحافت کا چمکتا ستارہ صدیق جان جنوبی پنجاب کے شہر بھکر سے تعلق رکھتا ہے، وہ بچپن سے ہی منفرد، اچھوتااور بے پناہ صلاحیتوں کا مالک پایا گیا ہے، اس کے اندر تلاطم برپا رہا ہے ، کچھ کرنے کا جذبہ ، اور جس کا م کو کرنے کی ٹھان لیتا ہے پھر کرکے دکھاتا ہے، میں جس صدیق جان کو جانتا ہوں وہ ظلم کے خلاف ٹکرا جانے والا، باطل کے خلاف حق کی شمشیر لہرانے والے اور منافقت کے دور میں اخلاص کی شمعیں جلانے والا صدیق ہے، یہی وجہ ہے کہ دوستوں کی جان رہا ہے جس بزم میں رہا اس کی شان رہا ہے۔
ہم نے صدیق جان کو اسلامی جمیعت طلبہ کے پلیٹ فارم پر بھی للکارتے دیکھا، اس کے بعد مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کے ساتھ ہم سفر ہوا تو اس کے اپنے ہی انداز رہے، وہ لاکھوں میں ایک ابھر کر سامنے آیااور طلبہ سیاست میں نام کمایا، یہی وجہ ہے کہ اسے متحدہ طلبہ محاذ کے اندر بھی اتنی ہی مقبولیت حاصل رہی جتنا کہ اپنی تنظیم کے اندر، بعدازاں ڈاکٹرز کے حقوق کی بات آئی تو یہ کبھی بہاولپور اور کبھی لاہور کی سڑکوں پر ڈنڈے کھاتا دکھائی دیا، ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے ساتھ اس کا یارانہ ہے، ن لیگ کے دور میں اس نے لاہور کی سڑکوں پر ینگ ڈاکٹرز کے ساتھ ماریں بھی کھائیں، یہی وجہ ہے کہ لاہور سے بہاولپور تک ینگ ڈاکٹرز کا قبیلہ بھی اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، وہ آج کل میدان صحافت میں ہے، اس میدان کا انتخاب اس نے کرنا ہی تھا، کیونکہ انفارمیشن کی دنیا کا وہ سکندر تھا۔
جب انڈریائرڈ موبائلز ابھی پاکستان کی مارکیٹ میں قدم جما رہے تھے تو ایس ایم ایس کے ذریعے ہزاروں افراد تک پیغام رسانی کیلئے مشکل ہوا کرتی تھی، اس دور میں صدیق جان کا انفارمیشن نیٹ ورک اتنا پختہ تھا کہ وہ ایک ایک دن میں اپنے تقریباً نصف ٹوٹے ہوئے موبائل سے دس دس ہزار افراد تک پیغام رسانی کا ذریعہ تھا، آج اگر کوئی صدیق جان کی اڑان دیکھ کر چونک رہا ہے تو اسے یہ جاننے میں زیادہ دلچسپی ہوگی ، اس دور میں اکثر ہم اسے موبائل کا کیڑا کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے ، لیکن یہ دراصل اس کے اندر خبر کو پہنچانے کے جنون اور صحافی بننے کی عملی تربیت کا آغاز تھا، صدیق جان نے2012کے آخر اور2013کے شروع میں میرے ساتھ کام کیا، تب اسے ٹوئیٹر اور ٹویٹ کا زیادہ علم نہیں تھا، لیکن وہ ہم زیادہ علم رکھنے والوں کو آہستہ آہستہ پیچھے چھوڑتا گیا اور موبائل ایس ایم ایس کی دنیا کے بعد ٹوئیٹر کی دنیا میں آگیا، سماجی کارکن تو وہ اﺅل روز سے تھا اب اسے ایک اور پلیٹ فارم ملا تو یہیں سے اس نے باقاعدہ طور پر الیکٹرانک میڈیا میں جانے کی ٹھانی۔
سال2014کے وسط میں وہ الیکٹرانک میڈیا کا حصہ بن چکا تھا، اس کا طریقہ واردات بہت مختلف رہا ہے ، وہ جہاں کام کرنا چاہتا تھا وہاں اپنی سروسز بغیر پیسے کی لالچ کے پیش کردیتا تھا، اور پھر اپنی صلاحیتوں سے اپنی جگہ بنالیتا، اس نے 92نیوز میں اپنی جگہ بنائی اور اللہ کی کرنی دیکھئے اسے وہ مل گیا جس کا وہ مستحق تھا، خبرکوصحیح طرح سے سمجھا، جانا، اس کا پیچھا کیاا ور دیکھا کہ کہاں سے اور کون سی ایسی خبر ہے جو عوام کو مکمل نہیں ملتی تو اسے سپریم کورٹ میں متحرک چیف جسٹس ثاقب نثار دکھائی دیئے، جن کے بڑے بڑے ریمارکس اور اہم ترین فیصلوں نے میڈیا کے دامن کو تنگ کررکھا تھا، میڈیا دن بھر بھی ثاقب نثار کی خبریں چلاتا رہے خبر کی تفصیل کی پیاس پھر بھی تشنہ رہتی اور یہی پیاس صدیق جان نے اپنے یوٹیوب کے ذریعے بجھانا شروع کردی، رپورٹنگ میں اپنے منفرد انداز کی وجہ سے وہ آہستہ آہستہ مشہور ہونے لگا، وہ کورٹ میں گھنٹوں ہونے والی سماعت کا احوال چند منٹ میںا تنی جامع انداز میں پیش کردیتا کہ اگر اس کا وی لاگ دوبارہ وہ جج بھی سن لیں تو وا ہ واہ کہیں، بس پھر دیکھتے دیکھتے وہ کورٹ رپورٹر بن گیا، اور اسے عروج ملتا گیا، اس کے اس عروج کے پیچھے شب و روز کی کوششیں تھیں۔
مجھے یاد ہے جب ہم سورہے ہوتے وہ پوری پوری رات بیٹھ کر کرنٹ افئیرز کے تمام پروگرامز کو سنتا، تجزیوں پر غور کرتا ، ہم جیسے صحافیوں کو بھی کہتا کہ فلاں فلاں پروگرام دیکھا کرو، فلاں فلاں کالم پڑھا کرو،اور خود بھی مکمل عمل کرتا، آج صدیق جان کی اپنی ایک پہچان ہے، پاکستان اور دنیا بھر سے پاکستانی اسے جانتے ہیں ، اس کے وی لاگ پر ہزاروں ویوز آتے ہیں، یہ اسی جہد مسلسل کا نتیجہ ہے، عروج اکثر انسان سے کئی خطائیں بھی کرادیتا ہے لیکن آزمائشیں انسان کو اپنے مقام پر واپس لے آتی ہیں، صدیق جان پر آزمائشیں ہمیشہ اس کو زمین پر قدم جما کر اور نگاہیں جھکا کر چلنے کا ہنر سکھا دیتی ہیں،ماضی کے ایک دوست ، رفیق اور بھائی ہونے کے ناطے اتنا کہوں گا کہ صدیق جان قدم جمائے رکھنا ابھی نجانے اور کتنی آندھیاں تمہاری پرواز کو کاٹنے کیلئے آئیں گی ، تمہیں روکنے کی کوشش کی جائے گی ، بس قدم جمائے رکھنا اور تندی باد مخالف سے گھبرائے بغیر اونچا اڑنے کا عزم نہ چھوڑنا، اللہ قدم قدم پر تمہارا حامی و ناصر رہے گا ۔
(گزشتہ دنوں گوادر کے ایک پروگرام میں صدیق جان پر صحافت کا لباد ہ اوڑھے چند غنڈے حملہ آور ہوئے، جن کا مقصد صدیق جان کو ایذا دینا تھا لیکن وہ رسواءہوگئے صدیق جان سرخرو ہوگیا، اسی ضمن میں یہ تحریر لکھی گئی )