پاکستان تحریک انصاف جب سے برسراقتدار ہے آئے روز کئی ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جس کے بعد سوشل میڈیا پر بالخصوص اور عوامی حلقوں میں بالعموم کئی دنوں تک اس پر بحث جاری رہتی ہے، حال ہی میں فردوس عاشق اعوان صاحبہ کا ایک اسسٹنٹ کمشنر کے ساتھ تلخ رویہ خبروں کی زینت بنا رہا ، ہر واقعے کے پیچھے تحریک انصاف کی اندرونی سیاسی لڑائی کا کھرا ضرور نکلتا ہے، سیالکوٹ میں بھی کچھ ایسے ہی ہوا، کیونکہ وہاں کی اسسٹنٹ کمشنر عثمان ڈار کی منظور نظر تھیں تو چاہے کتنی ہی لائق فائق کیوں نہ ہوتیں، فردوس آپا بھلا اس کی تعریف کیسی کرسکتیں تھیں لہذا انہوں نے محترمہ کو بے عزت کرکے اس حد تک لے گئیں کہ اب ان کی چھٹی کروانے کے حیلے بہانے کیے جارہے ہیں، تحریک انصاف کا یہ مسئلہ سب سے گھمبیر ہے، ایک ایک حلقے میں کئی کئی لیڈرز ہیں جو ایک دوسرے کے خلاف بھی صف آراءہیں تو ایسے میں انتظامیہ کس کو خوش رکھے اور کسے ناراض کرے ، یہ ان کیلئے ریاضی کے کسی ناحل ہونے والے مسئلے کی طرح ہے، سونے پر سہاگا یہ ہوا کہ وزیراعظم نے اب ایک اور بیان جاری کردیا ہے جس کے مطابق اب تحریک انصاف کے رہنما افسر شاہی کو نکیل ڈالیں گے، فیصلہ یہ کیا جارہا ہے کہ ضلعی اور تحصیل سطح پر کمیٹیاں بنائی جائیں گی جس میں تحریک انصاف کے عہدیدار اور ورکر شامل کیے جائیں گے جو غفلت اور کوتاہی کرنیوالے افسران کے خلاف رپورٹ کریں گے جس پر ایکشن ہوگا، سیالکوٹ میں جیسے تحریک انصاف تقسیم ہے ویسے ہی ہر جگہ یہی حال ہے، اب اٹک کی مثال لے لیں، بالفرض وزیراعظم کے اس فارمولے پر کمیٹیاں بننا شروع ہوجاتی ہیں تو نمائندگی کس کو ملے گی، اٹک کے بخاری گروپ کے عہدیداران و کارکنان کو یا پھرمیجر گروپ کے منجھے سیاسی ورکرز کو، ملک امین اسلم کے دھڑے کو یا پھر کسی ایسے عام ورکر کو جو ان تینوں دھڑوں سے نالاں ہے، چلیں ایک لمحے کیلئے یہ تسلیم کرلیتے ہیں کہ ان کمیٹیوں میں نمائندگی بخاری گروپ کو مل جاتی ہے تو کیا اس سے ملک امین اسلم گروپ خوش ہوگا؟ یہ تینوں گروپ پہلے ہی ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہیں، لہذا ایسی صورتحال میں ایسی کمیٹیوں کی تشکیل بندر کے ہاتھ میں ماچس دینے کے مترادف ہوگا۔انتظامیہ پریشانی کے عالم میں رہے گی کہ کس عہدیدار کو خوش رکھا جائے اور کس عہدیدار سے کنارہ کشی کی جائے ، اس سے کارکردگی بہتر ہونے کے بجائے مزید متاثر ہوگی،ہم نے کئی علاقوں کے اندر ایسے معاملات دیکھے ہیں کہ انتظامیہ زبردست کام بھی کررہی ہو تو تحریک انصاف کا ایک دھڑا ان کے خلاف سرگرم دکھائی دیتا ہے، اب آتے ہیں حل کی جانب، اس سارے معاملے کا حل یہ تو ہرگز نہیں ہوسکتا کہ انتظامی افسران کی لگام خودغرض،مفاد پرست، دھڑے باز اور نااہل و منقسم تحریک انصاف کی مقامی قیادت کو دی جائے تو حل کیا ہے، وزیراعظم کو چاہیے کہ سب سے پہلے اپنی جماعت کی لگام کو اہل لوگوں کے ہاتھ دیں،آپ اپنی حکومت میں آنے کے فورا بعد ہی اٹک میں غلط سیاسی فیصلوں سے پہلا ضمنی انتخاب ہارے ہیں،اب گزشتہ دوماہ میں ہار کا ایک سلسلہ ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا اور اس کے ذمہ دار آپ کے نااہل نمائندے ہیں جنہیں آپ ٹکٹ سے نواز رہے ہیں، آپ اپنی پارٹی کو منظم کرکے پہلے اس کے دھڑے ختم کریں ، سخت فیصلے اپنے گھر سے شروع کریں، جب آپ کی جماعت میں اہل لوگ آجائیں تو پھر انہیں میدان میں اتاریں ، کیونکہ سرکاری بابوﺅں کے احتسا ب سے قبل آپ کے گھر کے بابوﺅں کا احتساب ہونا ضروری ہے۔
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments