بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے قوم کو واضح ہدایت کی تھی کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، شہ رگ 70 سال سے زخمی تھی اب بھارت میں حالیہ الیکشن میں واضح اکثریت حاصل کرنے والی ہندو انتہاپسند جماعت زخمی شہ رگ کو کاٹنے کا انتظام کررہی ہے، یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ شہ رگ کٹ جائے تو وجود مردہ ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی کے حالیہ خودکش اقدام کے بعد دنیا بھر کی توجہ کشمیر پر مرکوز ہے، عالمی میڈیا ہوں یا عالمی ادارے اس وقت کشمیر کی روز بروز کی بدلتی صورتحال کو دیکھ رہے ہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ماضی میں کشمیر کا مسئلہ صرف چند مذہبی جماعتوں کا مسئلہ بن کر رہ گیا تھا، ہم بحثیت قوم کشمیر سے غافل ہوگئے تھے، یہاں تک کہ یوٹیلٹی سٹورز پر ہمیں یہ جملے پڑھنے کو ملتے کہ “کشمیر کی آزادی تک ادھار بند ہے” کشمیر کیلئے ترجمان حقیقت چند افراد ہی تھے جن میں حافظ سعید کا نام نہ لیا جائے تو زیادتی ہوگی، جن کی جماعت پابندیوں کا شکار ہے۔ یہ بات مشاہدے میں آتی تھی کہ جب بھی کشمیر میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت ہوتی تھی مذہبی جماعتوں کے کارکنان سڑکوں پر نکلتے، قوم کو صرف سال میں ایک دن کشمیر کی یاد رہتی جب یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا۔
ماضی میں بحثیت قوم کشمیر کیساتھ ہمارا یہ سوتیلا سلوک انتہائی غیر مناسب تھا، شاید اس کی ذمہ دار سیاسی قیادتیں بھی ہیں جو ہمیشہ قوم کو دوسرے معاملات پر الجھائے رکھتیں اور کشمیر پر توجہ نہ رہتی، بچپن میں ہم صرف پی ٹی وی پر شام 6 بجے کشمیر سیل کی جانب سے 15 منٹ کی اپ ڈیٹس دیکھتے، اس سب کے باوجود کنٹرول لائن کی دوسری طرف بہادر اور حریت پسند کشمیری نوجوان، بزرگ خواتین اور بچے پاکستان کا نام لے کر شہید ہوتے رہے، نابینا ہوتے رہے، جان کی بازی لگاتے رہے۔
غفلتوں کی اس سیاہی کے باوجود کشمیر کیلئے ضمیر پکارتا رہا اور کہیں نہ کہیں پاکستانی قوم کشمیر کے لئے بے چین رہی، 5 اگست کے بھارتی اقدام کے بعد پاکستان کی حکومت کی کاوشیں کہیں، میڈیا کی کامیابی کہیں یا کشمیر میں جان ہتھیلی پر رکھ کر جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کی قربانیوں کا صدقہ کہیں پوری قوم کشمیر کیلئے یک زبان ہے۔ کراچی سے پشاور تک اور گوادر سے وادی نیلم تک ہر پاکستانی کشمیر کے لئے بے چین ہے، حکمران سے لے کر عام عوام تک ہر ذی نفس اپنی آواز اپنی پہنچ کے مطابق بلند کررہا ہے، میں نے اپنے شعور کی عمر میں پہلی دفعہ مسلسل کشمیر کیلئے مظاہرے ہوتے دیکھے ہیں۔
سکول کے بچے ہوں، یا یونیورسٹی کے طلبہ و اساتذہ، چھابڑی والا ہو یا ہوٹل والا، فیکٹری مالکان ہوں یا ملازمین، یونینز ہوں یا سول سوسائٹیز، یوتھ تنظیمات ہوں یا سیاسی کارکنان، ہر مرد و عورت، بزرگ جواں اور بچے لے کے رہیں گے آزادی کے نعرے بلند کرتے دکھائی دے رہے ہیں، مگر راستہ ابھی مزید صبر آزما ہے، کٹھن ہے اور شاید لمبا بھی، یہ صدائیں خاموش نہیں ہونی چاہییں، ناامیدی سے بچتے ہوئے مسلسل آواز بلند کرنا ہوگی،
پاکستان سمیت دنیا بھر میں رہنے والے پاکستانیوں اور کشمیریوں کیلئے میرا پیغام ہے کہ اب اگر ہم خاموش ہوگئے تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی، منزل دور سہی مگر ناممکن نہیں، راستہ کٹھن سہی، مگر طے تو کرنا ہے، اگر 70 سالوں میں اپنی جان، عزت آبرو کی قربانیوں کے باوجود مظلوم کشمیری قابض بھارتی فوج کے سامنے خاموش نہیں بیٹھے اور ناامید نہیں ہوئے تو ہمیں بھی چند دن دھوپ پر پسینہ خشک کرکے، بارش برداشت کرکے، موسم کی سختیاں جھیل کر خاموش نہیں ہونا چاہیے۔
غیور پاکستانیوں، قومیں امید کے ساتھ زندہ رہتی ہیں اور منزلیں امید کا دامن تھامنے سے ہی ملتی ہیں، آئیے ہر شخص ہم میں سے کشمیر کا سفیر بن جائے اور آزادی کا سورج طلوع ہونے تک آواز اٹھائے۔