پچھلے سال تھر میں ۔۔
برسات جب خوب برسی تھی
ننھی عائشہ کی کاغذ کی کشتیاں ۔۔
پانی میں کہیں کھوگئیں تھیں
اس سال وہ ننھی عائشہ ۔۔
صحرا کی سخت گرمی میں
اپنی کشتیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
پیاس سے آخر خود کھوگئی۔۔۔ !!
صحرائے تھر میں غذائی قلت اور ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے آئے روز وہاں کے مکینوں کی زندگی کے چراغ گل ہورہے ہیں،پچھلے دو ماہ میں39جبکہ 11ماہ میں273بچوں کی ہلاکت کے بعد پارلیمنٹ کے فلور پر ہلکی سی آواز سنائی دی جبکہ تھر میں جب پہلا بچہ بھوک کی وجہ سے تڑپ سسک کر دارفانی سے کوچ کر گیا تھا اسی وقت میڈیا پر بریکنگ نیوز چلنا شروع ہوگئی تھیں، پہلے پہنچنے کی لگن میں سارا کا سارا میڈیا ایک ایک بچے کی بے بسی کی تصویر دکھا رہا تھا ۔ سوشل میڈیا چیخ و پکار میں مصروف تھا، عین اسی وقت سلطنتِ سندھ کے شہزادے، مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں کے خالق فیسٹیول اور ناچ گانے میں مست تھے جبکہ پاکستان کے وزیراعظم بیرون ملک دوروں میں پاکستان کیلئے امداد بٹورنے میں کاسہ پھیلائے ہوئے تھے۔حکمران قوم کے اثاثوں کی بولیاں لگانے میں سرگرم جبکہ اپوزیشن جن کی اسی صوبے میں حکومت بھی ہے بیوقوف بنانے کی نئی نئی ترکیبیں کررہی تھی۔ تبدیلی پسند دھاندلی کا رونا رورہے تھے اور انقلاب کے دعویدارو ں پر حکومتی غیض و غضب پہاڑ بن کر ٹوٹ رہا تھا۔ ”ایسے میں تھر کے 273بچے مر گئے“
میں حضرت سیدنا عمرفاروق ؓ کا قول مبارک اگر یہاں پہ حوالہ دیکر حکمرانوں کو آئینہ دکھانے کی کوشش کروں گا تو میری کوشش رائیگاں جائیگی اور بعید نہیں کہ کوئی رانایا میمن اس قول کا مذاق بھی اڑا دے۔تھر میں انسان بھوک سے مرتے رہیں گے مگر جمہوریت پر کوئی آنچ نہیں آنی چاہئے یہ ساری روایتیں جذباتی اور یہ ساری باتیں اب قصہ پارینہ بن چکی ہیں آج کے پاکستان میں ماڈل ٹاﺅن کے 14شہداءاور 100کے قریب زخمیوں کی ایف آئی آر درج کرانے کیلئے مہینوں دھرنا بھی دیا جائے تو پرچہ ہی درج ہوتا ہے انصاف کیلئے نہ کوئی قانون ہے نہ عدالت، اگر کوئی انصاف کیلئے کوئی بھی قدم اٹھائے گا تو اسے جمہوریت کیخلاف سازش قرار دیا جائے گا۔ بات تھر کی ہورہی تھی حال تو یہ ہے کہ جب 367کلومیٹر کا سفر کرکے بزرگ وزیراعلیٰ سندھ تھر کی بھوکوں کے پاس پہنچتے ہیں تو ان کی آمد کے پروٹوکول میں کروڑوں خرچ ہوجاتے ہیں اور وہ چند تھر واسیوں کو ایک ایک ہزار روپے دیکر ان کی اوقات بتاکر، صبر و شکر کی تلقین کرتے ہوئے، جمہوریت کی تقریر سنا کر واپس چل پڑتے ہیں۔
خبردار۔۔!! اکیسیویں صدی میں پاکستان جیسے زرعی اور قدرتی وسائل سے مالامال ملک میں 273بچوں کی ہلاکت پر شور شرابہ نہ کیجئے کیونکہ شرجیل میمن صاحب نے حکماً منہ کردیا ہے ” کہ چند بچوں کی ہلاکت پر شور شرابہ کیوں ؟ بچے تو روز مرتے ہیں ؟“ وہ علیحدہ بات کے کہ مجھ جیسے بعد ناہنجار لوگ حکم تلفی کرکے خواہ مخواہ کا شور شرابہ کرنے اور فتنہ گری میں مصروف ہیں۔ ان دنوں میں میڈیا پر چلنے والی چند خبریں اور فوٹیج کا خلاصہ بھی ملاحظہ کیجئے ۔۔ مٹھی ہسپتال میں سینکڑوں بچوں کی دیکھ بھال کیلئے صرف ایک ہی ڈاکٹر ۔۔ ہسپتال میں کوڑا کرکٹ اور فضلے کے ڈھیر ۔۔ سرکاری گودام میں گندم خراب ہونے لگی۔۔ سرکاری امدادی کیمپ محض نظر کا دھوکہ۔۔ یہ خبریں یقیناً جمہوری نظام لپیٹنے کی سازش کا حصہ ہیں۔
کچھ عرصہ قبل ایک ترک افسانے کا اردو ترجمہ نظر سے گزرا جس کا ایک اقتباس قارئین کی نظر کرتا ہوں جو مصنوعی قحط زدہ تھر کی ایک جھلک پیش کرتا ہے۔ ایک غریب خاندان کا واحد سہارے کو کسی انجانے مرض نے آ گھیرا جو ان کی ہنستی مسکراتی زندگی اور خوشیوں کو چھین لے گیا۔ جمع پونجی خاندان کے واحد کفیل کے علاج معالجے میں لگ گئی مگر وہ چل بسا رواج کے مطابق ایک ہفتے تک پڑوسی کھانا بھیجتے رہے اور گھر میں بیوہ اور اس کے دو بچے گزارہ کرتے رہے ۔ دو تین اگلے دنوں بچا کچا کھایا ۔ اب حالت یہ ہوگئی کہ گھر میں کھانے کو کچھ نہ بچا ۔ آٹھ سالہ بیٹا بیمار اور5سال کی بیٹی بھوک سے نڈھال ہوگئی ۔ ایک دن اور گزر گیا ۔۔ ۔ ماں اپنے بچے کے تپتے بدن پر پٹیاں رکھ رہی تھی ایسے میں ننھی سی بیٹی کو نجانے کیا سوجھی۔ اچانک اٹھی ۔۔ ماں کے پاس آئی اور کان سے منہ لگا کر بولی۔۔
اماں ۔۔!! بھائی کب مرے گا؟
ماں کے دل پر تو گویا خنجر چل گیا ، بچی کو سینے سے لگایا اور کہا بیٹی یہ کیا کہہ رہی ہوں۔
معصوم بیٹی نے معصومیت سے کہا۔۔۔ ہاں ماں بھائی مرے گا تو کھانا آئے گا نا۔۔!!
تھر واسیوں کے بچے مر گئے کیا ہوا۔ اب بھوک مٹانے کیلئے اچھی خبریں ملنا شروع ہوگئی ہیں ۔ سرکاری گوداموں کے منہ کھلنا شروع ہوگئے ہیں۔ سماجی ویلفیئر کی تنظیمات متحرک ہیں۔ زندگی رواں دواں ہے۔ بس میرے دل میں ایک ہی بوجھ ہے کہ 273بچے مر گئے لیکن اس بات پہ خوشی بھی کہ جمہوریت پر کوئی آنچ نہ آئی۔