رات کے 1بجے زمین پھرتھرتھرانا شروع ہوگئی پلازے کے دیواروں کیساتھ سہارا لیے بیٹھے ہمارے دوست ایک دم کھڑے ہوگئے۔ ایک کمزور دل والے ساتھی نے پلازے کے دوسرے فلور سے چھلانگ لگادی۔۔ اللہ اللہ کا نام کمروں میں گونجنے لگا، ایک منٹ بعد زمین پرسکون ہوئی اور ہم نے اللہ کے حضور سر جھکا لیے۔ 18اکتوبر 2005، جذبہ خدمت خلق لیے میں اور میرے گاﺅں کے 20ساتھی بالاکوٹ موجود تھے۔ ہم اس شہر میں جارہے تھے جہاں دس دن قبل 8اکتوبر کی صبح8بج کر 52منٹ پر چند لمحات نے برسوں کا بسایا شہر زمین بوس کردیا تھا۔ عمارتیں زمین میں ایسی دھنس گئیں تھیں کہ جیسے ان کا وجود ہی نہ تھا۔۔۔ بس اس پورے شہر سے ایک مدنی پلازہ محفوظ رہا تھا اور دوسرا بالاکوٹ کے شہر کے دوحصوں کو ملانے والا پُل۔۔۔ باقی کچھ نہیں بچا تھا۔۔۔۔ 8اکتوبر کے زلزلے کے بعد اگلے ایک ماہ کے اندر مسلسل زلزلوں کا سلسلہ بھی جاری رہا تھا جس کی وجہ سے لوگ اس پلازے میں بھی نہیں سوتے تھے۔۔ تاہم لوگوں کے مدد کیلئے آئی ہوئی تنظیموں کے کیمپ اس پلازے میں لگائے گئے تھے۔ ہم نے بھی اپنے دوستوں کے ہمراہ اسی خوش نصیب پلازے کو مسکن بنایا تھا۔ 10دن کے قیام میں روز صبح سامان اٹھا کر نکلتے اور پہاڑوں کی بلندی پر بے سہارا امداد کے منتظر لوگوں تک سامان پہنچاتے۔ وہ کیسا جذبہ تھا کہ جو تھکنے نہیں دیتا تھا۔۔۔ ایک دن میں 20سے50کلومیٹر کا پہاڑی سفر کرتے۔ زلزلے نے جو تباہی مچائی اس کے مناظر ساری دنیا نے دیکھے۔ با لاکوٹ کا ایک سکول جس میں معصوم کلیاں کلاس میں حاضری دے رہی تھیں کہ بس سکول کی عمارت زمین میں ایسی دھنس گئی کہ اسکی چھت ہی زمین کا حصہ دکھائی دے رہی تھی۔ ۔۔ جب میں نے اس سکول کو دیکھا تو مجھے اپنا سکول یاد آگیا۔ میں بالاکوٹ اپنے سکول ٹیچر کو بتائے بغیر گیا تھا۔ لیکن مجھے یاد ہے جس دن میں واپس آیا تھا تو میری کلاس کے انچارج یونس راحت صاحب نے کلاس میں کھڑا کرکے میری حوصلہ افزائی کی تھی۔
میں نے جتنے دن گزارے وہاں کے حالات کولفظوں میں بیان نہیں کرسکتا ، لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ کم ا زکم ایک سے دو ماہ میں مسکرانا بھی بھول گیا تھا۔ میں نے وہاں پران بے سہارابزرگوں ، بچوں اور خواتین کو دیکھاجن میں سے ہر کسی کو کوئی اپنا زمین کی تہوں میں دب گیا تھا۔ کتنے بچے یتیم ہوچکے تھے اورگھر تو سارے ہی اجڑگئے تھے۔ آنکھیں چاروں طرف دوڑاتا تو خود سے سوال کرتا کہ کیا اس بستی میں کبھی کوئی بستا تھا؟ کیا یہاں بچے کھیلتے تھے ؟ کیا یہ وہی شاہرائیں ہیں جہاں سے گزرکر وادیوں کی سیرکو دنیا بھرسے سیاح آتے جاتے تھے؟ ہاں یہ وہ راہ گزر تھی۔ یہ وہ حسین وادیا ں تھیں جہاں کے خوبصورت بچے روز صبح سکول جاتے تھے مگر وہ دن آخری تھا۔ جہاں کی سرخ گلابی گالوں والی لڑکیاں گھر کے کام کاج کیساتھ وادی میں دوڑتی کھیلتی تھیں لیکن وہ دن آخری تھا۔ جہاں کے بزرگ فولادی ہاتھ اور گھٹنوں میں جان رکھتے تھے کہ پہاڑوں کے اوپر نیچے جانا جن کیلئے کوئی مشکل کام نہ تھا لیکن وہ دن آخری تھا۔۔۔ جہاں دریا کنارے سیاح محظوظ ہوتے تھے مگر وہ دن آخری تھا۔ میں نے تصویر کے دو رخ دیکھے ایک جانب پاکستان بھرسے جذبہ خدمت لیے لاکھوں لوگ اپنے بہن بھائیوں کیلئے پیش پیش تھے جبکہ دوسری جانب ان آفت زدہ علاقوں میں لوٹ مارکرنیوالے ظالم انسانوں کو دیکھا۔ ایک جانب دنیا بھر سے رضاکاروں کیساتھ تنظیمیں مصروف مدد تھیں تو دوسری جانب کچھ انسانیت کی دشمن تنظیمیں امداد کے نام پر اپنے بینک بیلنس بھر رہی تھیں۔ ایک جانب خوف میں مبتلا پہاڑی لوگ کچھ بولتے نہیں تھے۔ وہ ایسے ہوگئے تھے کہ جیسے ان کی آواز اس زلزلے نے چھین لی ہو، دوسری جانب وہیں کے وہ عظیم لوگ بھی تھے جن کے اپنے تو بچھڑے مگر اپنے علاقے کو پھر سے سنوارنے کیلئے پہلے روز سے ہی مصروف عمل ہوگئے تھے۔ میں نے خوف بھی دیکھا اور امید بھی، وفا بھی دیکھی اور جفا بھی، صبر بھی دیکھا اورشکربھی، وہ دس دن بالاکوٹ میں جو گزرے تھے، میں کم عمری میں اتنا جان گیا تھا کہ میں اس قوم کا بیٹا ہوں جس کے سامنے مصیبت کا ماﺅنٹ ایورسٹ بھی آجائے تو یہ سرکرجاتی ہے۔
آج سے کچھ دن قبل دوبارہ بالاکوٹ جانا ہوا تو میری آنکھوں میں وہی تصویر آگئی۔ 10سال پرانی تصویرلیکن اب بالاکوٹ زیادہ حسین ہوگیا تھا اب اس کی بنیادیں اورزیادہ مضبوط بنائی جاچکی تھیں۔ انسان کو اللہ نے جتنی عقل دی وہ اتنی ہی مضبوط پناہ گاہیں بناتا ہے لیکن زندگی اور موت کے خالق کیلئے ایک جھٹکا کافی ہے۔ 8اکتوبر2005کے زلزلے کو یاد کرکے ہمیں ہر سال رب ذوالجلال کے حضور دعا کرنی چاہیے کہ اللہ پاک پاکستان کو ایسی آفات سے محفوظ رکھے۔