ترجمہ: رضی طاہر
اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان، نہایت رحم کرنے والا ہے
میری پیاری بیٹی : کیا یہ سفر میرا آخری سفر ہوگا، یا پھر میری قسمت کچھ اور ہوگی، جو بھی ہو میں اس پر راضی ہوں، میں سفر کے دوران آپ کو خط لکھ رہا ہوں ، شاید یہ خط آپ کیلئے میری یاد بنے یااس میں کچھ ایسا ہو کہ جو تنہائی میں آپ کیلئے سہارا بن جائے۔ ہر بار جب میں سفر پر نکلتا ہوں، مجھے لگتا ہے کہ شاید میں آپ کو دوبارہ نہ دیکھ سکوں گا۔ میں نے اکثر آپ سب کے خوبصورت چہرے ایک ایک کرکے اپنی آنکھوں کے سامنے تصور کیے ہیں اور اسی تصور اور دکھ میں میری آنکھیں چھلک پڑتی ہیں۔ میں آپ سب بچوں کو یاد کرتا ہوں لیکن میری بیٹی ، میں نے آپ سب کو اللہ کے حوالے کر دیا۔میں جانتا ہوں میری بیٹی کہ مجھے آپ سے اپنی محبت کا اظہار کرنے کا زیادہ موقع نہیں ملا اور میں اپنے بچوں تک اپنی وارفتہ محبت بھی نہیں پہنچا سکا۔ لیکن میری پیاری بیٹی، کیا کبھی کسی نے آئینے میں دیکھ کر اپنی آنکھوں سے کہا ہے: “میں تم سے محبت کرتا ہوں؟” ایسا زیادہ تر نہیں ہوتا، لیکن آنکھیں انسان کے لیے سب سے قیمتی ہوتی ہیں۔۔۔ آپ میری آنکھیں ہیں۔۔۔ میری بیٹی ۔۔ آپ میرے لئے دنیا کی ہر شے سے عزیز ہیں چاہے میں اس کا اظہار کرسکوں یا نہیں۔۔۔مجھے ادراک ہے کہ بیس سال سے زیادہ ہو گئے ہیں، میں نے ہمیشہ آپ کو پریشانی میں رکھا ہے، عجیب یہ ہے کہ اللہ نے مجھے زندہ رکھا اور آپ ہمیشہ خوفزدہ رہی ہیں۔۔ میرے بچھڑ جانے کا خوف۔۔۔ میری عزیز بیٹی، میں نے بہت سوچا اور ہر ممکن کوشش کی کہ آپ کو کم پریشانی میں مبتلا کروں، لیکن میں ایسا نہیں کر سکا، یہ اس لیے نہیں کہ میں فوجی خدمت میں دلچسپی رکھتا ہوں۔ میرا کام کبھی وجہ نہیں تھا اور نہ ہی ہوگا۔ نہیں، میری بیٹی۔ میں کبھی نہیں چاہتا تھا کہ آپ کو پریشان کروں، کجا یہ کہ آپ کو کام، ذمہ داری، اصرار یا مجبوری کی وجہ سے ایک لمحے کے لیے بھی رلاؤں۔۔۔
میری عزیز بیٹی: میں جانتا ہوں کہ اس دنیا میں ہر شخص نے اپنے لیے ایک راستہ چنا ہے۔۔۔ ہر شخص نے اپنے لئے منزل کا تعین کیا ہے۔۔۔ کوئی طالب علم ہے تو کوئی استاد کے منصب پر فائز ہے، کوئی شخص کاروبار کرنے کا انتخاب کرتا ہے اور کوئی کسان ہے اور کھیتی باڑی اس کا روزمرہ کا مشغلہ ہے۔ لاکھوں راستے ہیں، یا بلکہ، اس دنیا میں جتنے انسان ہیں اتنے ہی راستے ہیں، اور ہر کوئی اپنے لیے ایک راستہ چنتا ہے۔میں نے اپنا راستہ چنا ہے۔ میں نے بہت سوچا، چند مسائل پر نظرثانی کی اور سب سے پہلے میں نے خود سے پوچھا کہ یہ راستہ کتنی دیر تک چل سکتا ہے، یہ کہاں ختم ہوتا ہے، میرے پاس اس راستے کیلئے کتنا وقت بچا ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ میری منزل کیا ہوگی۔ میں نے محسوس کیا کہ ہم سب یہاں کچھ وقت کے لیے ہیں۔ کچھ لوگ چند دن رہتے ہیں اور پھر چلے جاتے ہیں، کچھ چند سال، کچھ دس سال، لیکن بہت کم لوگ سو سال جی سکتے ہیں۔ لیکن ہر کسی کو جانا ہے اور ہم سب یہاں تھوڑے وقت کے لیے ہیں۔۔۔ میں نے پایا کہ اگر میں کاروبار کروں تو آخر میں میرے پاس کچھ چمکدار سکے، کچھ گھر اور کچھ گاڑیاں ہوں گی۔ لیکن یہ میرے راستے پر میری آخرت کے لیے کارآمد نہیں ہیں۔ میں نے سوچا کہ میں آپ کے لیے زندہ ر ہوں۔۔۔ میں نے سمجھا کہ آپ میرے لیے اتنے اہم اور قیمتی ہیں کہ اگر آپ کے جسم کا کوئی حصہ درد میں ہو تو میرا سارا جسم درد میں مبتلا ہوگا۔۔اگر آپ کو کچھ ہو جائے تو میں آگ میں جل جاؤں گا۔ اگر آپ ایک دن مجھے چھوڑ دیں تو میں گر جاؤں گا۔ میں نے سوچا کہ میں اپنے خوف اور پریشانیوں سے کیسے نکل سکتا ہوں! میں نے سمجھا کہ مجھے کسی سے جڑنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس معاملے کو روشن کر سکے اور وہ اللہ کی ذات بابرکات ہی ہے۔ آپ میرے وجود کے پھول ہیں اور آپ کو دولت اور طاقت سے نہیں بچایا جا سکتا، ورنہ امیر اور طاقتور لوگوں کو موت سے بچایا جاتا۔ یا ان کی دولت اور طاقت انہیں ناقابل علاج بیماریوں سے بچاتی اور بستر پر گرنے سے روک لیتی۔ میں نے اللہ اور اس کے راستے کو چنا ہے۔
میری جان سے پیاری بیٹی۔۔۔ یہ پہلی بار ہے کہ میں اعتراف کر رہا ہوں کہ میں نے کبھی فوجی بننے کی خواہش نہیں کی۔۔۔میں نے ہتھیار اس لیے اٹھائے ہیں کہ قاتلوں اور ظالموں کا مقابلہ کر سکوں۔۔۔ میں نے کبھی فوجی عہدوں کو پسند نہیں کیا۔ میں کبھی بھی کسی عہدے اپنے خوبصورت نام “قاسم” پر ترجیح نہیں دیتا۔۔۔ میری خوشی کی انتہا نہیں ہوتی جب یہ نام کسی سپاہی ، غازی یا شہید کے منہ سے ادا ہوتا ہے۔۔۔ میں قاسم بننا چاہتا تھا اور اب بھی چاہتا ہوں بغیر القاب کے بس مجھے قاسم پکارا جائے۔۔۔ اس لیے میں درخواست کرتا ہوں کہ میری قبر پر صرف “سپاہی قاسم” لکھا جائے، یہاں تک کہ میرے نام کے ساتھ سلیمانی بھی نہ لکھا جائے، یہ لفظ میں اپنے نام کے ساتھ بوجھ سمجھتا ہوں۔۔۔
میری پیاری بیٹی، میں نے اللہ سے دعا کی کہ وہ مجھے اپنی محبت سے بھر دے۔وہ مجھے اپنے عشق سے لبریز کردے۔۔۔ میں نے یہ راستہ کسی کو مارنے کے لیے نہیں چنا، آپ جانتی ہیں۔ میں ایک مکھی کو بھی تکلیف نہیں دے سکتا۔ ۔۔میں نے ہتھیار اس لیے اٹھائے ہیں تاکہ قاتلوں کا مقابلہ کر سکوں، نہ کہ لوگوں کو مارنے کے لیے۔۔۔ میں خود کو ہر مسلمان کے لیے ایک سپاہی سمجھتا ہوں جو خطرے میں ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اللہ مجھے ہر مظلوم انسان کی حفاظت کی طاقت دے۔ ۔۔ میں اس قابل نہیں ہوں کہ میری زندگی اسلام کیلئے قبول کی جائے۔۔۔ نہ ہی کسی مظلوم شیعہ کیلئے لڑنے کا میں مستحق ہوں۔۔۔نہیں، ہرگز نہیں، بلکہ، میں اُس خوف زدہ اور بے گھر بچے کے لیے لڑ رہا ہوں جس کے پاس کوئی پناہ نہیں ہے، اس عورت کے لیے جو اپنے بچے کو خوف سے اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہے، ان زخمی پناہ گزینوں کے لیے جو زندگی کی تلاش میں بھاگ رہے ہیں۔۔۔ میری پیاری بیٹی میں ایک ایسی فوج سے ہوں جو راتوں کو جاگتی ہے تاکہ وہ مظلوم سکون سے سو سکیں۔ میں اپنی نیند قربان کرتا ہوں تاکہ وہ اطمینان سے زندگی گزار سکیں۔
میری پیاری بیٹی، آپ کو اس بات کی سعادت ملی ہے کہ آپ میرے گھر میں عزت و امان کے ساتھ ہیں لیکن میں اس بے بس لڑکی کے لیے کیا کروں جس کے پاس کوئی پناہ نہیں ہے، اس روتے بچے کے لیے ، جس نے سب کچھ کھو دیا ہے؟ ۔۔ اسلئے میری بیٹی۔۔ مجھے اللہ کی راہ میں نذر کردو۔۔۔ مجھے اللہ کی راہ میں قربان کردو۔۔۔ مجھے اس راستے پر سپرد کردو۔۔۔۔ جب میراسارا قافلہ ہی جاچکا ہےاور میں پیچھے رہ گیا ہوں تو میں کیسے رک سکتا ہوں؟
میری بیٹی، میں بہت تھک گیا ہوں۔۔۔ میں تیس سال سے نہیں سویا ہوں، اور میں سونا نہیں چاہتا۔ میں اپنی آنکھوں میں نمک ڈال کر انہیں کھلا رکھتا ہوں تاکہ کسی بے بس بچے کا سر کاٹے جانے سے بچا سکوں۔ آپ مجھ سے کیا توقع کرتی ہیں جب میں سوچتا ہوں کہ وہ خوفزدہ لڑکی آپ ہیں، یا نرجس، یا زینب، اور وہ نوجوان جو سر کٹنے کے قریب ہے وہ حسین اور رضا ہیں؟ کیا آپ توقع کرتی ہیں کہ میں دیکھتا رہوں، بے پرواہ رہوں، کاروباری بن جاؤں؟ نہیں، میری بیٹی میں اس طرح زندہ نہیں رہ سکتا۔سلام ہو آپ پر اور ہمیشہ اللہ کی رحمتو ں کے حصار میں رہو۔