پاکستان کو معرض وجود میں آئے 70سال گزر گئے، ہمارے آباؤ اجداد نے جب ہمیں پاکستان دیا تو ساتھ میں یہ بھی بتایا کہ یہ اسلامی نظریے پر معرض وجود میں آنے والی ونیا کی دوسری ریاست ہے ، ریاست مدینہ کو بھی نظریاتی بنیادوں پر قائم کیا گیا اور ریاست پاکستان کی بنیاد بھی وہی ہے، جسے لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ سے تعبیر کیا جاتاہے۔ قرارداد مقاصد میں بھی یہ اعلان کیا گیا کہ اسلام کے جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری اور عدل ِعمرانی کے اصولوں کے مطابق مملکت کو چلایا جائے گا، مگر کیا آج کے پاکستان کو مدینہ ثانی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے؟ پاکستان بننے سے لے کر اب تک ہم نے کونسی ایسی مثال پیش کی جس سے ہم ثابت کرسکیں کہ ہمارے لئے مشعل راہ نقوش مصطفی ﷺ ہیں۔
یہ سب کچھ بیان کرنے سے پہلے ریاست مدینہ کے خدوخال قارئین کے سامنے رکھنا ضروری ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی ، جس کی پارلیمنٹ کا درجہ مسجد نبوی کو تھا۔ تعریف وہ جو اپنے ہی نہیں پرائے بھی کریں، انگریز تاریخ دان فلپ کے ہٹی کی کتاب History of Arabکے مطابق10سال میں یہ ریاست دس لاکھ مربع میل تک پھیل گئی ، جس میں فلسطین اور عراق کے علاقے بھی شامل ہوئے ۔ایک اور مغربی تاریخ دان ہملٹن ، اے آر گب کی کتاب Mohammedanism: An Historic Surveyکے مطابق ریاست مدینہ قلیل عرصے میں اتنی مضبوط ہوئی کہ اس وقت کی دو عالمی طاقتوں روم اور ایران سے ٹکرانے کے قابل ہوگئی۔ یہ سب 10سال میں کیسے ممکن ہوا، وہ کونسی حکمت عملی تھی جسے اپناکر ہم بھی پاکستان کو مسلم دنیا کی حکمرانی کے قابل بناسکتے ہیں۔ اس کے نقوش ہمیں تاریخ پڑھنے ہی سے ملیں گے۔
ریاست مدینہ کا قیام : ریاست مدینہ کے قیام کے لیے پہلا معاہدہ یا پہلی بیعت ، جسے ہم اعتماد کا ووٹ قرار دے سکتے ہیں وہ اللہ وحدہ لاشریک کی وحدانیت کے اقرار، رسالت کے اقرار اور معاشرتی برائیوں(زنا، خواتین کے قتل، چوری چکاری) کے خاتمے پر تھا۔نبی کریم ﷺ کو بنواوس، بنو عوف،بنوسالم اور بنو عمروقبائل کی تائید و حمایت اوراعتماد کا ووٹ حاصل ہوا، اس بیعت کو ریاست مدینہ کی بنیاد رکھنے کے لیے پہلی سیڑھی کہا جاسکتا ہے۔ آگے چل کر ریاست مدینہ کی بنیاد تاریخ انسانی کے پہلے تحریری دستور میثاق مدینہ سے رکھی گئی۔ جس سے مدینہ منورہ کے تمام طبقات نے نبی کریم ﷺ کو ریاست کا سربراہ تسلیم کیا۔
شعبہ تعلیم : تعلیم وتدریس کے لیے شعبہ نبی کریم ﷺ نے مکہ سے مدینہ ہجرت سے قبل ہی بنادیا تھا، جس کی سربراہی حضرت مصعب بن عمیر ؓ کو دے دی ۔ بعدازاں تحقیق و تخریج کے لیے اصحاب صفہ کے نام سے علیحدہ کیبنٹ تشکیل دی گئی۔
بلدیاتی نظام کا خاکہ : نبی کریم ﷺ نے مدینہ آنے سے قبل ہی اپنی طرز کا بلدیاتی نظام متعارف کروادیا، مدینہ کی آبادی قبائل کے اندر تقسیم تھی ، آپ نے ہر قبیلے پر ایک نقیب لگایا جو اپنے یونٹ یا قبیلے کی نگرانی ، تعلیم وتربیت اور دیگر امور کا ناظم تھا۔
داخلہ پالیسی : نبی کریم ﷺ نے تاریخی معاہدات فرمائے جو آپ کی داخلہ پالیسی میں تدبر کو ظاہر کرتے ہیں۔ آپ نے یہودیوں کو توحید پر یکسانیت کی وجہ سے اپنے ساتھ شامل کیا۔ریاست کاحصہ بنانے کے لیے بنوثقیف کے ساتھ معاہدے میں آپ نے فرضیت زکوة اور فرضیت حج تک کا استثنیٰ دے دیا۔بنی غفار، بنی ضمرہ،نجران کے عیسائیوں کو بھی ریاست کا مفید شہری بنانے کے لیے معاہدے کیے۔ ان معاہدات کی وجہ سے دشمن کی قوت بھی کم ہوگئی۔ ریاست مدینہ کے قیام کے بعد نبی کریم ﷺ کا پہلا تاریخ ساز اعلان اخوت تھا۔ ریاست میں رہنے والوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا گیا جس کے بعد وہاں بسنے والے انصار اور مکہ سے آنے والے مہاجرین میں تمام تر تعصبات کے پڑنے کا شائبہ بھی ختم ہوگیااور مہاجرین کی معاشی بحالی ممکن ہوئی۔
خارجہ پالیسی : نبی کریم ﷺ نے خارجہ پالیسی کے عالمی اصول وضع فرمائے ،دنیا بھر میں دعوت و تبلیغ کے لیے وفود مقرر کیے، جنہوں نے بڑی بڑی سلطنتوں میں جاکر نبی کریم ﷺ کے سفیر کا کام کیا۔ ان سفیروں کو تمام تر سفارتی آداب سکھائے گئے ۔ آپ نے دشمن کومائل کرنے کے لیے تدبیرات کیں ، قحط کے زمانے میں500اشرفیاں مکہ کے غریبوں میں بھجوائیں جو غیرمسلم تھے، مکہ کی یمامہ میں غلہ منڈی بندکروائی ، بعدازاں یہ اقتصادی پابندی اٹھالی گئی ۔ اسلام قبول کرکے ریاست کی رٹ تسلیم کرنیوالوں کے لیے اچھے عہدے مقرر کیے گئے۔ ریاست مدینہ کے سفیروں کی تعداد39تھی۔
عدالتی نظام : سربراہ مملکت کو چیف جسٹس کے اختیارات دیئے گئے جبکہ اس کے نیچے قاضیان شہر تعینات کیے گئے، مرکز پر حضرت عمرؓسمیت9افراد پر مشتمل ججز تعینات کیے گئے۔ بعدازاں گورنرز کو بھی قاضی کے اختیارات سونپے گئے۔ مذہبی امور پر رہنمائی کے لیے مفتیوں کا تقرر کیا گیا۔ فوری انصاف کے لیے موثر نظام قائم کیا گیا۔
معاہدہ حدیبیہ : نبی کریم ﷺ کی سیاسی فہم وفراست کی سب سے بڑی مثال صلح حدیبیہ تھا، جہاں کمزور شرائط پر 1400مسلمانوں نے مکہ میں داخلے کا ارادہ ترک کیا، حالانکہ وہ صرف ادائیگی حج کے لیے جارہے تھے، مگر اس کے پس پردہ نبی کریم ﷺ کی حکمت عملی کامیاب ہوئی اور مکہ کے ساتھ امن کا دس سالہ معاہدہ طے پایا اور ریاست مدینہ کو کفار کے ساتھ بار بار کی جنگوں سے چھٹکارا مل گیا۔
سیاست اور مذہب :ریاست مدینہ میں مذہب وسیاست کی مسلسل یکتائی نظرآتی ہے‘ جیسے کہ علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں لکھا ہے کہ ”جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی“ دوسری جگہ فرماتے ہیں ”قوم مذہب سے ہے ، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں “ ۔
دفاع : آپ ﷺ نے دفاع کے لیے بھرپور حکمت عملی اپنائی، تمام قبائل میں دفاعی بجٹ کے اخراجات کو تقسیم کیا گیا تاکہ ریاست کے فنڈز پر اس کا بوجھ نہ آئے۔ عساکر کا تعین خود کرتے، آپ کی کامیاب حکمت عملی ہی سے پہلی جنگ ”غزوہ بدر“ جو دوسال کی نوزائیدہ مملکت پر مسلط کردی میں کامیابی حاصل کی۔ نبی کریم ﷺ کی زندگی کے تمام غزوات دفاعی نوعیت کے تھے ۔
ریاست مدینہ کے بنیادی ڈھانچے کا یہ ایک مختصر خاکہ ہے ،نبی کریم ﷺ نے قلیل عرصے میں دشمنوں کے ناپاک ارادوں کو کامیاب حکمت عملی سے ناکام کیا،دس سال انہوں نے تمام سرحدوں پر کسی کو دشمن نہیں بنایا بلکہ ہمیشہ دوستی کا ہاتھ بڑھایا، متنازعہ معاملات پر خارجہ پالیسی اتنی مضبوط بنائی کہ وہ حل ہوئے۔
آئیے اب 70سال سے اسلامی جمہوریہ کہلانے والے پاکستان کا حال دیکھیں تو ہم ریاست مدینہ سے کوسوں دور دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان بننے کے ساتھ ہی بعد مواخات کے بجائے مہاجرین کے حقوق سلب کرنے کا معاملہ شروع ہوگیا، زمینوں کی بندربانٹ اور اختیارات اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم نے ابتدا ہی میں تعصب کے بیج بو دیئے ، جس کی وجہ سے آج بھی ہم سندھی، بلوچی، مہاجر، پختون اور پنجابی کی تقسیم کا شکار ہیں، جس کی شدت ہمیں کراچی، سندھ اور بلوچستان کے علاقوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔
نبی کریم ﷺ نے متنازعہ معاملات کو جس سیاسی تدبر سے حل کیا اس سیاسی تدبر کی اگر1فیصد خیرات بھی ہمارے کسی حاکم کو حاصل ہوتی اور اقتدار کی رسہ کشی کے بجائے کسی بھی دور حکومت میں پاکستان اور صرف پاکستان کے بارے میں سوچا جاتا تو مسئلہ کشمیر کب کا حل ہوچکا ہوتا، نبی کریم ﷺ نے غیرریاستی جہاد سے منع فرمایا اور ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو ہم اس کے متضاد سفر پر چل نکلے،نتیجتاً آج مسئلہ کشمیر کی وجہ سے دشمن ہمارے بلوچستان کو متنازعہ بنانے کے درپے ہے، پاکستان کی سالمیت پر حملے ہورہے ہیں۔
نبوی ﷺ فہم و فراست کا تو یہ عالم تھا کہ یہودی بھی اتباع میں آگئے اور ہمارے مسلم ہمسائے ہم سے دور ہیں، ایران اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کے بگاڑ کی وجہ وہاں کے حکمران بھی ہوسکتے ہیں مگر اس میں ہم بھی اپنا حصہ ڈال رکھا ہے۔ خارجہ پالیسی کی اس سے بڑھ کر ناکامی کیا ہوگی کہ ہم دنیا بھر میں اپنی لابنگ کرنے میں مسلسل ناکام ہوئے ہیں، 55مسلمان ممالک میں سے بھی دوچا ر کے علاوہ کوئی ہمارے ساتھ کھڑا ہونے کو تیار دکھائی نہیں دیتا، اور ہوبھی کیسے ہم نے40سال تو امریکی جنگ میں گزار دیئے ، کوئی ہم پر بھروسہ کیونکر کرے گا؟ ۔
معاشی طور پر ہماری کسمپرسی کا احوال بھی سب کے سامنے ہے۔ تعلیم کے میدان میں ہم اتنے پیچھے ہیں کہ دنیا کی100بڑی یونیورسٹیز میں ہماری صرف دو یونیورسٹیز شامل ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اسلام کے نام پر بننے والی ریاست میں اسلام کے چند ٹھیکیداروں نے جینادوبھر کررکھا ہے، لاٹھی ، گولی اور فتوے کی سیاست نے لوگوں کا مذہبی سیاست سے اعتبار ختم کردیا ہے۔ میں ان سارے معاملات کی ذمہ داری کسی ایک شخص، ایک طبقے اور ایک فرد پر نہیں ڈال سکتے ، ہم سب چمن کی تباہی میں برابر کے شریک ہیں۔
ضرورت اس امرکی ہے کہ قرارداد مقاصد کے سنہری اصولوں پر عمل پیرا ہوکر مذہب اور سیاست کے حسین امتراج کے ساتھ پاکستان کی ڈوریں ایسے حکمرانوں کو دی جائیں جن کے اندر ایمان کی طاقت، یقین کی قوت اور جرات ہو تاکہ دنیا کی واحدمسلم ایٹمی ریاست ، اسلامی ممالک کے لیے مثال بن سکے۔ مگر اس کے لیے آپریشن ردالفساد کا دائرہ کار بڑھانا ہوگا، فساد فی الارض کا سبب بننے والے ہر شخص کا قلع قمع کرنا ہوگا ، چاہے پھر اس کا تعلق کسی بھی ادارے سے کیوں نہ ہو، سب سے پہلے پاکستان ہی ہم سب کے مفاد میں ہے۔ اگر ہم یہ کرنہ سکے تو ہماری آئندہ آنیوالی نسلوں کے لیے جو پاکستان ہم چھوڑکر جائیں گے وہ کچھ بھی ہوسکتاہے مگراسلامی جمہوریہ پاکستان ہرگز نہیں ہوگا۔