انتخابات 2018کا طبل بج گیا ہے اور سیاسی جماعتیں میدان میں اترچکی ہیں، امیدواروں کے اعلانات کا سلسلہ ختم اور گلی گلی مہم کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، عید سے قبل تک تاثر یہی تھا کہ شاید الیکشن تاخیر کا شکار ہوجائیں مگر اب یوں محسوس ہورہا ہے کہ قوم 25جولائی کو ووٹ دے کر اپنی آئندہ قیادت کا انتخاب کرے گی اور اس عمل میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہے ۔ الیکشن2013میں قوم نے بجلی بنانے پر ووٹ دیا، جبکہ 2018میں گلی اور محلوں کے چوراہوں پر بھی یہ بات زیر بحث ہے کہ ہمیں ایسے حکمران چاہیں جو پاکستان کی عزت بحال کرسکیں اور ہمیں عالمی تنہائی سے بچائیں ، اسے قومی شعور کا نام دیا جائے یا ٹرمپ کی افغان پالیسی کے اعلان کے بعد چلنے والی میڈیا ئی مہم ۔۔۔ خصوصاً بڑے شہروں میں عوام کی سوچ کسی حد تک وسیع ہونا شروع ہوگئی ہے۔ خارجہ پالیسی کا بھی جتنا رونا پچھلے ایک سال سے رویا جارہا ہے اس وجہ سے بھی اب عام شہری بھی خارجہ پالیسی پر گفت و شنید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
پاکستان اس وقت تاریخ کے نازک ترین دوراہے پر ہے، ہمیں بڑے فیصلے کرنے ہیں ، خارجہ و داخلہ پالیسی از سرنو ترتیب دینی ہے، سی پیک مکمل کرنا ہے، مسئلہ کشمیر کا مضبوط حل تلاش کرنا ہے، پانی کے ذخائر بڑھانے ہیں، بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ ہونے کے بجائے دنیا کو اپنے ساتھ ملا کر مودی کے ارادے خاک میں ملانے ہیں۔ عالمی تنہائی کی طرف جاری سفر کو عالمی پذیرائی میں بدلنا ہے اور اپنا قومی بیانیہ دنیا کو نہ صرف پڑھانا ہے بلکہ دکھانا، سمجھانا اور ثابت بھی کرنا ہے اور یہ سب کچھ انتخابات 2018کے نتیجے میں ایک مضبوط حکومت ہی کرسکتی ہے۔
نوازشریف کی برطرفی کے بعد شاہد خاقان عباسی کا تجربہ ہم دیکھ چکے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کو دنیا نے پاکستان کی اتھارٹی تسلیم ہی نہیں کیا ، دنیا کٹھ پتلیوں اور قائدین کا فرق اچھی طرح سمجھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ شاہد خاقان عباسی کے عالمی دوروں کو خاطرخواہ پذیرائی نہ مل سکی ، بلکہ جہاں ان کے ساتھ شہبازشریف جاتے تو زیادہ پروٹوکول وہ لے اڑتے۔اس وقت تمام بڑے ممالک جو دنیا میں فیصلہ سازی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں سب ایک قائد کے بل بوتے پر ہی اپنا لوہا منوارہے ہیں، یقیناًقومیں بھی قائدین کے ساتھ ہی ہوتی ہیں مگر روس کے پیوٹن ، چین کے ژی جن پنگ، ترکی کے اردوان ، سعودی عرب کے شاہ سلمان، ایران کے روحانی ، امریکہ کے ٹرمپ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، جو دنیا میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے اثرانداز ہورہے ہیں ، ایسے حالات میں اگر ہم کوئی ایسا تجربہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو سینیٹ میں کیا گیا تو اس کا نقصان وطن عزیز پاکستان کو ہوگا،پاکستان مزید اندھیروں میں چلا جائے گا اورعالمی تنہائی ممکن ہے پابندیوں ، بائیکاٹس ، دہشت گرد ریاست وغیرہ کا روپ دھار لے۔
کھیل کے تمام کرداروں کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ عالمی تنہائی کا شکار پاکستان الیکشن2018کے نتیجے میں ایک کمزور اور لولی لنگڑی حکومت کا متحمل نہیں ہوسکتا، ایسا تجربہ یا کسی کی یہ خواہش خودکشی کے مترادف ہوگی اور ہم داستانوں میں اپنی داستان سنانے میں ہی ناکام رہیں گے، لکھنا تو کجا؟ اب حالیہ قیادت کو دیکھیں تو نواز شریف کی تاحیات نااہلی، آصف علی زرداری کی مسلسل ناکامی کے بعد اب ایک آپشن عمران خان کی صورت میں موجود ہے ۔ عمران خان کی عالمی سطح پر پذیرائی سے سبھی واقف ہیں ، ان کا عالمی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کرنا رائے عامہ پر گہرا اثر چھوڑے گا ، سب سے بڑھ کر وہ ذاتی مفادات کی قید سے تقریباً آزاد ہیں جس کی وجہ سے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ قومی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے بین الاقوامی رابطے قائم کرنے میں کامیاب ہوپائیں گے۔
دوسرا آپشن شہبازشریف ہیں ، اگرچہ عمران خان کے مقابلے میں شہبازشریف کو وہ بین الاقوامی پذیرائی ملنا ناممکن ہے مگر ترکی، چین اور سعودی عرب جیسے ممالک کے ساتھ ان کے مراسم سے سب واقف ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ یہ مراسم قومی مفاد کیلئے کتنے کارگر ثابت ہوسکتے ہیں، میری ذاتی رائے میں قوم کو پہلے آپشن کی جانب غور کرنا چاہیے اور ایک موقع عمران خان کو دینا چاہیے تاکہ وہ عالمی سطح پر پاکستان کا کیس لڑسکیں اور ہمارے اوپر آنیوالی بڑی آفات اور پریشانیوں کا ازالہ ہوسکے۔ اس کے لئے عمران خان کے پیچھے ایک مضبوط حکومت ہونا ضروری ہے، ٹوٹی پھوٹی پوزیشن اور روز بروز گرنے ، گرانے ، روٹھنے منانے کا سلسلہ جاری رہا تو ان کی ساری توجہ اسی انتشار کو سلجھانے میں رہے گی ، اور ہمارا اندرونی انتشار ہی ہمیں لے ڈوبے گا۔