یمن کے سو سال: جنگ بندی سے اسرائیل کی ناکہ بندی تک

حصہ سوئم
تحریر : رضی طاہر

یمن پر مسلط سعودی اتحاد کی جنگ کے بعد یمن کے بڑے آبادی والے حصے پر انصار اللہ نے حکومت شروع کردی جبکہ کچھ حصے منقسم قوتوں کے پاس ہیں جنہیں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات یا کچھ آزاد گروپ کنٹرول کرتے ہیں۔ انصار اللہ کے زیر کنٹرول شمالی یمن کا علاقہ صعدہ سے البیدہ تک پھیلا ہوا ہے جبکہ دوسری جانب الحدیدہ سے الجوف تک شہری علاقے اس میں شامل ہیں۔ پائے تخت صنعا سمیت 15 اہم ترین شہر شمالی یمن میں آتے ہیں جبکہ بحرالحمر کی الحدیدہ بندرگاہ بھی اسی کے ساتھ متصل ہے۔ جنوبی یمن میں عدن شہر اور بندرگاہ اور کچھ ملحقہ علاقوں پر منصور ہادی کی حکومت قائم ہے ، جنوبی یمن کے کچھ دیگر علاقوں میں القاعدہ سمیت عرب نواز گروپس کی انفرادی و منقسم حکومتیں ہیں۔ تاہم یمن میں بیرونی مداخلت کے خاتمے کے ساتھ ہی یمن میں انتخابات کے ذریعے اتحاد ممکن ہوسکتا ہے۔ سعودی عرب کے اتحاد کی جنگ کے بعد یمن کو بدترین انسانی بحران کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارے کی رپورٹ کے مطابق نو سال کی جنگ نے 45 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو بے گھر کیا ، صرف 2022 میں 234,000 افراد نقل مکانی پر مجبوری ہوئے۔ یمن بدستور دنیا میں داخلی طور پر بے گھر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ انصار اللہ کی حکومت کیلئے بڑی آبادی والے شمالی علاقوں کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد یہ سب سے بڑا مسئلہ تھا کہ ایک جانب دنیا انہیں تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھی اور دوسری جانب داخلی انسانی بحران سے نبٹنا تھا۔ تاہم 2022 سے 2024 تک یمن نے اپنی عوام کو دوبارہ آباد کرنے اور تعمیر کی جانب توجہ دی، غیرمعمولی طور پر انتہائی کم مدت میں انصار اللہ کی حکومت اپنے لوگوں کو سنبھالنے، متحد رکھنے، بحران سےا پنی مدد آپ کے تحت نبٹنے اور اپنے زیرکنٹرول علاقوں میں امن قائم کرنے میں کامیاب دکھائی دی۔ اتنے بڑے انسانی المیے کے بعد داخلی سطح پر خانہ جنگی نہ ہونا یقینا یمنی عوام کے عظیم صبر کو ظاہر کرتا ہے اور یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے کہ یمنی قوم بیرونی مداخلت ختم ہونے پر مزید مضبوط سے مضبوط ہوسکتی ہے۔

شمالی یمن کی حکومت نے دنیا کو تب سرپرائز دیا جب انہوں نے غزہ کی حمایت میں باب المندب میں اسرائیلی بحری جہازوں کی ناکہ بندی کردی۔ یہ بات بعید از خیال تھی کہ دو سال قبل جنگ زدہ یمن اچانک اتنی طاقت سے ابھرے گا کہ وہ اسرائیل کی ہی ناکہ بندی کردے گا۔ اکتوبر میں شروع ہونے والے طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا تو نومبر میں یمن نے اعلان کیا کہ وہ اسرائیل کی بندرگاہوں کی طرف جانے اور آنے والے تمام بحری جہازوں کو نشانہ بنائیں گے۔ اس سلسلے میں پہلا سرپرائز انہوں نے تب دیا جب اسرائیل سے منسلک بحری جہاز گیلکسی لیڈر کو اپنے قبضے میں لے کر اپنے پانیوں میں لے آئے۔ یمن کے ان مسلسل حملوں اور اسرائیل کی ناکہ بندی کی وجہ سے اسرائیل کی ایلات بندرگاہ ویران ہوگئی اور اسرائیل کے ساتھ تجارت کیلئے بحرالحمر کے چھوٹے روٹ کے بجائے افریقہ کے سمندروں سے طویل سفر طے کرکے دنیا بھر کے بحری جہازوں نے اسرائیل جانا شروع کردیا ، جہاں 8 دن کا مختصر سفر کم از کم 38 دن میں کرنا پڑتا ہے، جس سے اسرائیل کوبدترین معاشی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔

اسرائيل کی وزارت خزانہ کی طرف سے جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق، یمنی فوج کے حملوں سے بچنے کے لئے بحیرہ احمر کا راستہ چھوڑنے کی وجہ سے کرائے میں کئي گنا اضافہ ہو گيا ہے۔ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر غزہ کی جنگ اور بحیرہ احمر و باب المندب میں کشیدگي جاری رہنے کی صورت میں اسرائيل کے لئے بحری راستے کا خرچ کئي گنا بڑھ جائے گا اور ماہرین کے مطابق اسرائيل کو سالانہ ایک ارب ڈالر زيادہ کرایہ دینا پڑے گا۔اس دوران امریکہ و برطانیہ کی زیر قیادت ایک اور فوجی اتحاد یمن کے خلاف وجود میں آیا ، دسمبر سے جون تک اس اتحاد نے کئی فضائی حملے الحدیدہ ، صنعا اور یمن کے دیگر شہروں میں کیے لیکن الحدیدہ سے اب بھی اسرائیل کی ناکہ بندی جاری رکھنے کیلئے آپریشنز جاری ہیں۔

امریکی میری ٹائم ایڈمنسٹریشن کے مطابق، یمن نے نومبر سے اب تک 50 سے زیادہ بحری جہازوں پر حملے کیے ہیں، ایک بحری جہاز کو قبضے میں لیا جبکہ ایک جہاز کے مکمل ڈوبنے کی اطلاعات ہیں۔یمن کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے کم از کم 90 بحری جہازوں کو نشانہ بنایا ہے، کمرشل بحری جہازوں کے ساتھ ساتھ ڈسٹرائرز بھی شامل ہیں جبکہ امریکہ آئزن ہاور کو دو بار نشانہ بنانے کی بھی اطلاعات ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ یمن کی جانب سے 6 ایم کیو 9 امریکی ڈرونز کو یمن کی فضا پر مار گرانے کی خبریں بھی موصول ہوئی ہیں۔ رفح پر اسرائیلی حملے کے بعد یمن نے نہ صرف بحرالحمر بلکہ بحرہند اور بحیرہ روم کے سمندروں تک اسرائیل سے منسلک بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا ہے، جس سے یمن کی میزائل صلاحیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

اسرائیل کی ناکہ بندی یمن کی مزاحمت کا نیا رخ ہے۔ 100 سالوں سے یمن اپنی حریت، آزادی ، خودمختاری اور بقا کی جنگ لڑرہا ہے۔ بیرونی مداخلت، عالمی طاقتوں کی سازشوں ، براہ راست جنگوں نے یمن کے غیور عوام کا حوصلہ پسپا نہ کیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یمن کے مستقبل کا فیصلہ پڑوسی ممالک یا عالمی طاقتوں کے بجائے یمن کی عوام کو کرنے دیا جائے اور یمن کے اتحاد اور ترقی کی ضمانت شمالی وجنوبی یمن میں شفاف انتخابات کے ذریعے ایک ایسی حکومت کا قیام ہے جس پر یمن کے ہر شہری کو اعتماد ہو۔ جنوبی یمن میں منقسم طاقتیں انتخابات کی مخالف صرف اس وجہ سے ہیں کہ یہ سعودی عرب یا دیگر عرب ممالک کے مفاد میں نہیں ہیں لیکن یمن کا مفاد پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا ۔ دنیا انقلاب اور تبدیلی کوتسلیم کرے۔ یہی جمہوریت ہے اور جمہور کا فیصلہ ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں