عالمی تنہائی کا شکار پاکستان کے دفتر خارجہ کی عالمی معاملات میں لاتعلقی اور پاکستان کی عالمی سفارت کاری میں مسلسل ناکامی سے عوام پاکستان میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ محض دو سال قبل ہی موثر ترین کردار ادا کرنے والا دفتر خارجہ اچانک ’’دفتر جائزہ ‘‘ بن چکا ہے، جس کا کام محض اندرونی و بیرونی صورتحال پر جائزہ لینا ہے اور جائزے کے نتائج تک بھی جاری نہیں کیے جاتے۔
عالمی معاملات میں ممالک اپنی پوزیشن واضح اور دوٹوک رکھتے ہیں۔ افغانستان جیسا ملک بھی خارجہ محاذ پر واضح اور دوٹوک موقف رکھتا ہے لیکن ہمارے دفتر خارجہ کے کمالات کے کیا کہنے، ایٹمی صلاحیت رکھنے والے ملک کے خارجہ امور جائزے سے آگے بڑھتے ہی نہیں۔
گزشتہ رات اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے کی غلط خبریں مغربی میڈیا پر زیرگردش رہیں، جس کے بعد خطے میں کشیدگی بڑھنے کے امکانات واضح ہوئے تو پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے بھی بیان سامنےآنا، بیان میں کہا گیا کہ ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی میڈیا رپورٹس اور خطے کی صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔مجھے لگا کہ لفظوں کے ہیر پھیر کے ساتھ یہ پرانی خبر ہے۔ لیکن بعدازاں تصدیق ہوگئی کہ یہ نئی خبر اور درست خبر ہے۔
مجھے غلط فہمی تب ہوئی جب میں نے ایک ہفتہ قبل ایران کے اسرائیل حملے پر دفتر خارجہ کے ردعمل کو دوبارہ سے دیکھا تو وہ بھی کچھ یوں تھا کہ ایران کے اسرائیل پرحملے کا جائزہ لے رہے ہیں۔ مجھے شدت سے احساس ہوا کہ دفتر خارجہ اب دفتر جائزہ بن چکا ہے۔
محض دوسال قبل دیکھیں تو پاکستان دنیا بھر کے معاملات میں متعلقہ تھا جو کہ اب غیر متعلقہ ہوچکا ہے۔ مثال کے طور پر 2022 میں 17 سال بعد عالمی اسلامی سربراہی کانفرنس پاکستان میں ہونا، 2021 میں دنیا بھر کے مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ کا او آئی سی کا افغانستان پر اجلاس ہو، یا پھر کشمیر و فلسطین کے محاذ پر موثر سفارت کاری، عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی قیادت میں دفتر خارجہ نے ٹھوس موقف پیش کیا۔
حالیہ غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے 192 دن کے اندر پاکستان کا موقف افریقی ملک جبوتی سے بھی کمزور دکھائی دیتا ہے۔ جبکہ ہمارے ملک کے پاسپورٹ پر واضح لکھا ہے کہ ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے اور اسے اپنا کھلا دشمن تصور کرتے ہیں۔ لیکن موجودہ قیادت نے پاکستان کو ہر بین الاقوامی معاملے میں بے وقعت کردیا ہے۔
پاکستان کے موجودہ وزیر خارجہ محض ایک منشی ہیں اور منشی کے نزدیک خارجہ امور کو چلانا جائزے کے جیسا ہی ہوسکتا ہے۔ اسحاق ڈار تاریخ کے ناکام ترین وزیر خزانہ کے بعد ناکام ترین وزیر خارجہ ہیں لیکن انہیں نواز شریف کا سمدھی ہونے کا اعزاز جو حاصل ہے لہذا وہ اہم ترین وزارت پر رہیں گے چاہے اس میں ملک کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہوجائے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کا دفتر جائزہ کب تک جائزے سے ہی معاملات چلاتا رہے گا۔ ایسی صورتحال میں جب بھارت پاکستان میں گھس کر کاروائیاں کررہا ہے، کم از کم بھارت کے ہائی کمشنر کو بلا کر احتجاج تو کرلیں اور دنیا کو بھارتی دہشتگردی کے ثبوت تو فراہم کریں ۔
لیکن ۔۔۔ ہم اس پر بھی جائزہ لے رہے ہیں اور یہ اسحاق ڈار نے گزشتہ روز کہا تھا کہ ہم خاموش ہیں لیکن صورتحال دیکھ رہے ہیں۔