ایران کا اسرائیل پر حملہ، یہ چھ نکات جاننا ضروری ہیں

ایران حملہ، 6 اہم ترین نقاط ، جو جاننا ضروری ہیں

ایرانی حملہ اسلامی جمہوریہ اورقابض اسرائیلی حکومت کے درمیان پہلا براہ راست تصادم تھاجو تاریخی لحاظ سے اہم ہے۔ مقبوضہ علاقوں کے اندر موثر حملے 1967 سے اسلامی ممالک کا ایک ادھورا خواب رہا ہے جو اب خطے میں اسلامی مزاحمت کی کوششوں کی بدولت پورا ہو گیا ہے۔

ایرانی فوجی کارروائی، جو دمشق میں ملک کے سفارتی احاطے پر اسرائیلی جارحیت کے جواب میں تھی، اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے دفاع اور جارحیت کے جواب کیلئے تیار ہے۔

ایرانی حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو ایرانی سفارتی مشن پر حملہ کرکے غزہ میں حکومت کی بھاری شکست کے باعث پیدا ہونے والے دباؤ سے بچنے اور منقسم صہیونی رائے عامہ کی توجہ مبہم فتوحات کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کر رہے تھے، ایران نے انتہائی اہم وقت میں نیتن یاہو کو جکڑا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کا اسرائیلی ٹھکانوں پر حملہ 7 اکتوبر کو فلسطینی الاقصیٰ طوفان آپریشن کے بعدقابض حکومت پر دوسرا اسٹریٹجک حملہ ہے۔ الاقصی طوفان آپریشن نے مسئلہ فلسطین کو دنیا کا سب سے اہم ترین مسئلہ بنایا، جو اب عالمی دنیا کی مکمل توجہ حاصل کرچکا ہے۔الاقصیٰ طوفان آپریشن اور ایرانی کارروائی دونوں نے اسرائیلی حکومت کی جعلی عظمت اور وقار کو ختم کر دیا۔

پاسدارن انقلاب ایران نے آپریشن اس وقت کیا گیا جب عالمی ذرائع ابلاغ نے پہلے حملے کے قریب آنے کی اطلاع دی تھی۔ اسرائیلی حکومت کی زیادہ سے زیادہ تیاری اور امریکہ اور حکومت کے دوسرے اتحادیوں کی سیاسی، سفارتی، انٹیلی جنس اور فوجی حمایت کے باوجود ایران نے 72گھنٹے پہلے برادر اسلامی ممالک کو اطلاع دیتے ہوئے اپنے اہداف کو نشانہ بناکر نہ صرف اسرائیل بلکہ اس کے اتحادیوں کو بھی بدترین شکست سے دوچار کیا۔

ایرانی ڈرونز اور میزائلوں نے پہلے سے طے شدہ فوجی اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا اورقابض حکومت، امریکہ اور برطانیہ کے دفاعی نظام ناکام ہو گئے۔ آپریشن کے پیمانے، درستگی اور تزویراتی منصوبہ بندی نے اسرائیل اور اتحادیوں کو حیران کیا جس کی وجہ سے اسرائیل نے فوری طور پر سلامتی کونسل سے رابطہ کرنے میں عافیت جانی

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں