تحریر: رضی طاہر
کہتے ہیں سفر وسیلہ ظفر بھی ہے اور حکم خداوندی بھی، 6نومبر2023کو میری عمرکے 33ویں سال میرا پہلا بین الاقوامی دورہ شروع ہواا ور میں نے ایران کے شہر تہران میں قدم رکھا، تہران کے بارے میں اقبال لاہوری نے لکھا تھا کہ
تہران ہوگرعالم مشرق کا جنیوا
تو شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
اقبال مرد قلندر تھے جو ماضی، حال اور مستقبل کے شاعر تھے، خود انہوں نے اپنی شاعری میں اس کا اظہار کیا، وہ کہتے ہیں کہ
نغمہ ام، اززخمہ بے پرواستم
من نوائے شاعرِ فرداستم
میں وہ نغمہ ہوں جو سازِ مضراب کا محتاج نہیں، میں آنے والے کل یعنی مستقبل کے شاعر کی آواز ہوں۔
مستقبل کے شاعر نے جس شہر کو اقوام مشرق کا جنیوا قرار دیا، اس شہر بے مثال میں سحر کے وقت ہمارے جہاز نے لینڈ کیا تو واقعی سحر طاری ہوگیا، ائیرپورٹ پر ہی محسوس ہوا کہ ہم کسی اور دنیا میں آچکے ہیں، ہمارے اذہان میں ڈالے گئے مغربی میڈیا کے کئی سوالات کے جواب تو ائیرپورٹ پر ہی مل چکے تھے لیکن پھر بھی سوال گھومنے لگے، نگاہیں تلاش کرنا شروع ہوگئیں کہ پاسداران انقلاب کے امین چھتر اٹھائے کھڑے ہوں گے اور خواتین کو پردے کیلئے ہانک رہے ہوں گے، تہران کی گلیوں میں سناٹا ہوگا، کوئی عورت دکھائی نہیں دے گی، ہر جگہ اسلحہ بردار دکھائی دیں گے جو کہ اقدار اسلامی کے نام نہاد امین بن کر ظلم و بربریت کی تاریخ رقم کررہے ہوں گے۔صحافی جیسی ساری صلاحیتیں تو راقم کے اندر موجود ہی ہیں تو متاثر ہونے سے قبل ہی تنقید کی لاٹھی اٹھائے میں ارد گرد دیکھنے لگا۔
اس سفر میں میری خوش نصیبی تھی کہ سینئر کالم نگار و صحافی مظہر برلاس اور سینئر صحافی و اینکر پرسن امیر عباس میرے ہمراہ تھے، جن سے بہت کچھ سیکھنا بھی نصیب ہوا، تہران پہنچنے کے بعد چند گھنٹے کی نیند کی تو ہماری گائیڈ شائستے قلیجائی ہوٹل کی لابی میں ہماری منتظر تھی،جس کے پاس حکومت ایران کے ثقافتی شعبے کی جانب سے دیا گیا شیڈول تھا، آج پہلا دن تھا اور ہم نے پہلے دن انقلاب ایران، عراق ایران وار، ایران کے انقلاب کے عروج و زوال کی کہانی سمجھنے میوزیم جانا تھا،میوزیم میں داخل ہوئے تو سکتے میں آگئے، میوزیم کے چھ مختلف حصے تھے جہاں ایران کی تاریخ، انقلاب اور جنگوں کو تھری ڈی،پروجیکٹرز،وائبریٹرز، بڑی سکرینوں، ماڈلز، گیلریز، ویڈیوز، آڈیوزاور تقریباً ہر قسم کی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے پیش کیا گیا، میوزیم میں داخل ہونے سے لے کر خارج ہونے تک آپ ایران کے بارے میں نہ صرف بہت کچھ جان جاتے ہیں بلکہ خود کو عراق ایران جنگ کے اندر محسوس کرتے ہیں۔تاریخ قبل از انقلاب، انقلاب کے واقعات، بعد از انقلاب ایران کی ترقی و استحکام، عراق جنگ، جنگ کی تباہ کاریاں، ایران کی خارجہ پالیسی، شہدائے ایران سمیت مختلف حصوں کو مختلف انداز سے دکھایا گیا ہے۔
میوزیم کو جلدی جلدی دیکھنے میں بھی ہمیں تقریباً دو گھنٹے ہمیں لگے،پہلے دن کی شام ہماری گائیڈ ہمیں طبیعت پل یعنی نیچر بریج پر لے گئی، رات ڈھل رہی تھی اور تہران کے نیچر بریج پر مناظر ہی کچھ اور تھے، نوجوان لڑکے لڑکیاں، فیملیز، بزرگ، بچے نیچر بریج پر موجود تھے، تین لیئرز پر بنا نیچر بریج تہران کا شاہکار ہے، جو لیلیٰ نامی خاتون کی تخلیق ہے، بریج پر پہنچتے ہی آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ کسی ترقی یافتہ ملک کے دارلحکومت کا جائزہ لے رہے ہیں، دور تک اونچی اونچی عمارتیں، ہارن کی آواز کے بغیر تین سے پانچ لائنوں پرچلنے والی ٹریفک اور مختلف رنگ کی روشنیاں سحر طاری کردیتی ہیں۔ یہاں ہم نے نوجوان لڑکیوں کو سکارف کے بغیر بھی دیکھا، لڑکے لڑکیوں کو آپس میں گپیں لگاتے، چہل قدمی کرتے دیکھا اور مایوسی اس بات پر ہوئی کہ ہمیں پاسداران انقلاب کا کوئی اہلکار بھی ڈنڈا اٹھائے نظر نہیں آیا۔
نیچر بریج کے ساتھ ہی فوڈ سٹریٹ تھی جہاں بیٹھ کر آئس کریم کے مزے لیے، نیچر بریج سے واپس ہوٹل جانا تھا، تہران میں ٹریفک کی وجہ سے ہمیشہ پریشانی رہتی ہے، اگر آپ نے کسی کو دو بجے کا وقت دیا ہے تو ساڑھے 12بجے اس منزل کی جانب نکلنا پڑے گا، یہی وجہ ہے کہ تقریبا ڈیڑھ گھنٹے ٹریفک میں رینگتے ہوئے ہوٹل پہنچے اور اگلے دن کا بے چینی سے انتظار کرنے لگے۔ میں نے سینئر اینکرپرسن امیر عباس سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ پروپیگنڈے سے متاثر لوگوں کو تہران آخر خود اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہیے کہ عالمی پابندیوں کے باوجود ایران آج کس مقام پر ہے۔