~ رضی طاہر
خبروں، تجزیوں اور تبصروں میں الجھی ہوئی غریب و لاچار قوم کو یہ بھی نہیں معلوم کہ ہر گزری رات ان کے نام نہاد سیاسی زعماء ان کے مستقبل کو مزید تاریک کیے جارہے ہیں۔
حالت زار یہ ہے کہ “صحافی” سچ بولنے سے قاصر ہے۔ “کل تک” جو کچھ آزادیاں تھیں وہ بھی چھین لی گئیں۔ کسی ’’خبر کے پیچھے‘‘ سے کوئی اچھی خبر نہیں ملتی، کوئی ’’حسب حال‘‘ قوم کے حال پر مرہم رکھنے سے قاصر ہے، پابندیوں کی وجہ سے ظلم کے ’’مقابل‘‘ کوئی نہیں ہے، ’’کھرا سچ‘‘ جھوٹ کے پیرہن میں مل رہا ہے، شہر شہر سے ’’پکار‘‘ نکلتی ہے، “خبر نشر” ہوتی ہے جسے کوئی سنتا ہی نہیں، ’’اختلافی نوٹ‘‘ لکھتے جائیں، ’’دنیا‘‘ آگے کے نغمے الاپتے رہیں۔ ’’آواز‘‘ اٹھاتے جائیں، ’’سرعام‘‘ بولیں یا ’’آف دی ریکارڈ‘‘ کہیں، “سیدھی بات” کریں، “جرگہ” کریں، “تجزیہ” دیں یا “حرف راز” کہیں، سچ تو یہ ہے کہ بار بار ’’تکرار‘‘ سے بھی حکمرانوں کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔ “سوال یہ ہے” کہ “ذمہ دار کون”، جواب “دوٹوک” ہے کہ “ہم” خود ہی ذمہ دار ہیں۔
یقین مانیے ’’تبدیلی‘‘ کا سوچا بھی نہیں جاسکتا، ’’ہم دیکھیں گے‘‘ کیا جو دیکھ نہ پائیں گے، ’’سچی بات‘‘ بار بار ’’بے نقاب‘‘ کرتے جائیں، کچھ نہیں ہوگا۔ “آپس کی بات” یہ ہے کہ “فیصلہ عوام کا” تبھی ممکن ہے کہ جب “بیانیہ” عوام کا ہو۔ ’’ہو کیا رہا ہے‘‘ کا جتنی بار بھی ’’جائزہ‘‘ لیں، ’’آئینہ‘‘ دکھائیں۔ کچھ نہیں ہوگا۔ اس وقت تک جب تک یہ قوم شعور کی آنکھیں نہیں کھولتی اور شعور کبھی میڈیا نہیں دے گا۔ ہم میں سے ہر ایک کو یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ “میری جنگ” ہے جو میں نے اپنی سمجھ کر لڑنی ہے۔ “سیاست اور ریاست” سمجھنی اور بچانی ہے تو اپنے اردگرد حالات کو بھانپ کر اب خود فیصلہ لینا ہوگا۔
تحریر: رضی طاہر