آئی جی اسلام آباد پولیس سے سوال و جواب کی نشست

آج 16 جنوری 2023، آئی جی اسلام آباد پولیس ناصر اکبر خان سے نوجوانوں کا ایک سوال و جواب کا سیشن ہوا، جس میں مجھے بھی مدعو کیا گیا، سیشن کا مقصد غلط فہمیوں کا ازالہ، سیف سٹی کنٹرول روم کا وزٹ، اسلام آباد پولیس اور عوام کے رابطے کے حوالے سے تجاویز لینا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب نوجوان اسلام آباد پولیس کے ہیڈ سے براہ راست تلخ و شیریں سوال کرسکتے تھے، سیشن کے آغاز میں گفتگو کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد پولیس نے سب کو خوش آمدید کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد پولیس پچھلے ایک سال میں بالخصوص انتہائی صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں قانونی دائرہ کار میں رہتے ہوئے ادا کررہی ہے۔

سینئر صحافی نادر بلوچ نے جہاں ٹرکوں کے ذریعے ہونے والے حادثات کا ذکر کرکے ٹرکوں کو انکی لائن پر چلنے کا پابند کرنے کی شکایت کی وہیں پر سیاسی نوعیت کا سوال کیا اور پوچھا کہ اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ ہے لیکن کیا وہ ایک جماعت کیلئے مختص ہے جس پر انہوں نے بتایا کہ جب ہمیں تھریٹس ہوتے ہیں کہ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال خراب ہوگی تب ہم دفعہ 144 پر پابندی کرواتے ہیں، پرامن ریلیاں کسی بھی جماعت کی ہوں اس پر ہم سیکیورٹی بھی مہیا کررہے ہوتے ہیں۔

موقع کو غنیمت جانتے ہوئے میں آئی جی اسلام آباد سے مخاطب ہوا اور بتایا کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے بعد اب ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے، جڑواں شہروں میں کم و بیش 250 ڈیجیٹل میڈیا کے نمائندے کام کرتے ہیں، جن میں سے سیاست، جرائم اور حالات حاضرہ پر رپورٹنگ کرنے والے بھی 50 سے زائد ہیں لیکن اکثر سیاسی صورتحال خراب ہوتی ہے تو وہ بھی اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے گرفتار ہوجاتے ہیں، کچھ تو دہشت گردی کے پرچے بھگت رہیں ہیں، اسلام آباد پولیس ڈیجیٹل جرنلسٹس کے ساتھ فاصلے کم کرے اس سے نہ صرف غلط فہمیوں کا ازالہ ہوگا بلکہ محکمے سے متعلق مثبت رپورٹنگ بھی ہوسکے گی۔

صحافی سید حماد نقوی نے اس میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد پولیس سوشل میڈیا کیلئے فوکل پرسن تعینات کرے تاکہ جس سے رابطہ رکھا جاسکے۔

اسی طرح میں نے اسلام آباد پولیس کے ٹوئیٹر اکاؤنٹ کے بارے میں کہا کہ اسے “غیر سیاسی” ہونا چاہیے، میں نے کہا کہ اب تو لگتا ہے کہ اسلام آباد پولیس کے ٹوئیٹر اکاؤنٹ کی حکمت عملی کو پنجاب پولیس نے بھی اپنا لیا ہے۔

جس پر آئی جی اسلام آباد پولیس نے مفصل جواب دیا اور کہا کہ ہم رابطے کا یہ سلسلہ جاری رکھیں گے، ڈیجیٹل میڈیا کی اہمیت کا اندازہ ہے لیکن یہ کمی رہی کہ ہم نے ان سے نشستیں نہیں کیں جو کہ ہونے چاہیے تھیں۔ تاہم ڈیجیٹل جرنلسٹس کو بھی چاہیے کہ رپورٹنگ کرتے ہوئے اسلام آباد پولیس پر تنقید ضرور کریں لیکن کسی پروپیگنڈا کا حصہ نہ بنیں۔

نوجوان صحافی شمائلہ تبسم نے سوال کیا کہ سیف سٹی کیمروں کی مدد سے کیا واقعی جرائم میں کمی واقع ہورہی ہے؟ یا اس سے صرف ٹریفک یا سیاسی سرگرمیوں کی مانیٹرنگ ہی ہورہی ہے جس پر آئی جی نے بتایا کہ ہم سیف سٹی کیمروں کی مدد سے مجرموں تک پہنچے ہیں، جیسا کہ اسلام آباد آئی 10 میں دھماکے کے ملزمان کو انہی کیمروں کی مدد سے گرفتار کیا گیا، انہوں نے بتایا کہ ہم روز بروز اپنے سسٹم کو بہتر کررہے ہیں تاکہ جرائم کی شرح کم سے کم کی جائے۔

نوجوانوں نے اس سیشن میں اسلام آباد پولیس کی کارکردگی پر سوال بھی اٹھائے۔ جس کے سیرحاصل جواب آئی جی اسلام آباد پولیس نے دئیے۔

اداروں اور عوام بالخصوص یوتھ کے درمیان فاصلوں کو کم کرنے اور رابطوں کو مستحکم کرنے کیلئے ایسی نشستیں مسلسل ہونی چاہیے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں