عمران ریاض خان پر ریاستی جبر کی داستان، رضی طاہر کی رپورٹ

عمران ریاض خان پر ریاستی جبر کی داستان، رضی طاہر کی رپورٹ

٭  حرف آغاز

رپورٹ پی ڈی ایف میں ڈاونلوڈ کرنے کیلئے یہاں کلک کریں۔

عمران ریاض خان پاکستان کی صحافت میں ایک نمایاں نام ہیں، آپ نے17سالہ صحافتی کیرئیر میں بہادری کے ساتھ اپنے فرائض منصبی بخوبی سرانجام دیئے۔ اپریل2022سے لے کر اب تک کا ان کا صحافتی سفر یقینا ان کے لئے مشکل ترین صحافتی سال رہا ہے لیکن وہ پرعزم ہوکر حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے۔ جیلیں کاٹنے اور جعلی مقدمات بھگتنے کے باوجود ان کے جذبے میں کمی نہیں آئی، عمران ریاض خان کو 11مئی کو گرفتار کیا گیا اور اس کے بعد سے وہ جبری گمشدگی کا شکار ہیں، جو رپورٹ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے اندر میں نے عمران ریاض خان کے خلاف ریاستی جبر کی کہانی رقم کی ہے۔ کچھ اہم سوالات اٹھائے ہیں جن کے جواب ہر پاکستانی جاننا چاہتا ہے۔ جب یہ رپورٹ آپ کے ہاتھ میں ہے اور آپ اسے پڑھ رہے ہیں،ممکن ہے کہ مجھے ان تلخ سوالات اٹھانے کی وجہ سے گرفتار کرلیا گیا ہو۔ اس وقت عمران ریاض خان کیلئے خدشات بڑھ چکے ہیں۔ پاکستان اور دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں،صحافی آزادی کا نعرہ لگانے والوں اور آزادی اظہار رائے کا علم بلند کرنے والوں سے میری اپیل ہے کہ آئیں سب مل کر عمران ریاض خان کی فوری بازیابی کیلئے آواز اٹھائیں، اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے۔

٭  تعارف

              عمران ریاض خان سینئر صحافی، تجزیہ کار، اینکر اور سماجی کارکن ہیں، آپ 29دسمبر1983کو کراچی میں پیدا ہوئے، جبکہ آپ کی مستقل رہائش پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ہے۔ آپ کے آباؤ اجداد کا تعلق بھارت کے زیراہتمام کشمیر کے شہر بانڈی پور سے ہے، قومیت بانڈے ہے۔ آپ نے2010میں پنجاب یونیورسٹی سے جرنلزم میں ماسٹرز کیا۔آپ کے مشاغل میں صحافت کے بعد سیاحت، شکار اور کرکٹ شامل ہے۔

٭  صحافتی کیرئیر

               آپ کے صحافت کے کیرئیر کا آغاز 2006 میں ہوا۔2007کے آخر میں آپ ایکسپریس نیوز کا حصہ بنایا، جبکہ آپ کی کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے ایکسپریس نیوز نے آپ کو پرائم ٹائم شو دیا، تکرار کے نام سے معروف زمانہ پروگرام کے اینکر بنے۔ اپنے اب تک کے 17سالہ صحافتی کیرئیر میں آپ نے ایکسپریس نیوز میں رات8بجے پروگرام کیا، جبکہ2014میں 6ماہ کیلئے دنیا نیوز کے ساتھ وابستہ ہوئے جہاں رات10بجے کے پروگرام سوال کے میزبان رہے۔ دنیا نیوز کے بعد پھر ایکسپریس نیوز میں آئے اور تین سال تک تکرار کے اینکر کے طور پر کام کیا۔ 2019میں انہوں نے جی این این نیوز چینل جوائن کیا اور احتساب عمران خان کے ساتھ کے عنوان سے رات10بجے کا پرائم ٹائم شو کیا۔ 2021کے آخر میں سماء نیوز جوائن کیا اور چند ماہ رات10بجے کے پروگرام کے میزبان رہے۔ سماء نیوز چھوڑنے کے بعد ایک بارپھر ایکسپریس نیوز کا حصہ2022میں بنے لیکن صرف2ہفتے پروگرام کرنے کے بعد آپ کو آف ائیر کردیا گیا۔ بعدازاں آپ نے بول نیوز جوائن کیا ہے اور2023کے مارچ تک بول نیوز کا حصہ رہے۔ سال 2020میں آپ نے یوٹیوب کے ذریعے سیاسی صورتحال پر وی لاگز کا سلسلہ شروع کیا، جبکہ مئی2023تک آپ کے یوٹیوب پر چار ملین سبسکرائبرز ہیں، آپ پاکستان میں سب سے زیادہ دیکھے جانیوالے تجزیہ کار سمجھے جاتے ہیں۔ٹوئیٹر پر5ملین فالوروز جبکہ فیس بک پر2.5ملین فالورز رکھتے ہیں۔ آپ کا ایک وی لاگ کم و بیش 1.5ملین لوگ روزانہ سنتے ہیں۔

٭  ریمنڈڈیوس کیس:             27جنوری 2011میں لاہور میں امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس نے دو نوجوانوں کو قتل کردیا یہ سٹوری عالمی سطح پر زیر بحث رہی، عمران ریاض خان نے بحثیت رپورٹر سب سے پہلے اس خبر کو ایکسپریس نیوز پر بحثیت رپورٹر بریک کیا۔ جس کے بعد یہ تمام میڈیا پر دکھائی جانے لگی۔

٭  لیاری گینگ وار:             2012میں لیاری گینگ وار کے عروج کے موقع پر عمران ریاض خان پہلے   پاکستانی صحافیہیں جنہوں نے ایک ماہ تک لیاری کے اندر رہ کر تمام تر حالات کو کوریج دی۔ پہلی دفعہ لیاری گینگ وار میں خواتین فائٹرز کی موجودگی کو بریک کرنے والے اور ان کی ٹریننگ سے لے کر خواتین کو استعمال میں لاکر جرائم کرانے تک کی منصوبہ بندی کو بینقاب کرنے والے صحافی عمران ریاض خان ہیں۔

٭            انتخابات2013کی منفرد کوریج:            پاکستان میں جنرل انتخابات2013میں عمران ریاض خان نے تین ماہ تکرار الیکشن ٹرین کے نام سے ٹرین کے ذریعے شہر شہر جاکر خصوصی کوریج کی اور تمام حلقوں سے عوام کی آراء، سروے کو اپنے پروگرام کے ذریعے پہنچایا۔

٭   بلند ترین محاذ جنگ سیاچن:           سال2015میں عمران ریاض خان دنیا کے بلند ترین محاذ جنگ سیاچن پر جانے والے پاکستان کے پہلے ٹی وی جرنلسٹ ہیں۔ آپ نے تین دفعہ مختلف موسموں میں جاکرسیاچن میں خصوصی پروگرامز کیے اور پاکستانی قوم نے ٹی وی پر پہلی باروہ مناظر دیکھے۔

 ٭   کچے کے ڈاکواور سندھ پولیس:     عمران ریاض خان وہ پہلے صحافی ہیں جنہوں نے سندھ میں کچے کے ڈاکوؤں اورسندھ پولیس کے گندےNexusکو بے نقاب کیا۔ آپ نے سٹنگ آپریشن کے ذریعے سندھ پولیس اور کچے کے ڈاکوؤں کی مشترکہ وارداتوں کو بے نقاب کیا۔ بعدازاں اس قسم کے پروگرامز اے آر وائی نیوز اور دیگر چینلز پر بھی دیکھے گئے۔

٭   محاذ جنگ پر رپورٹنگ:   عمران ریاض خان نے سوات آپریشن، آپریشن ضرب عضب، آپریشن ردالفساد سمیت دہشتگردی کے خلاف پاک فوج کے تمام آپریشنز پر متعدد پروگرامز کیے۔ اور اپنی جان کو خطرات میں ڈالتے ہوئے تمام تر صورتحال پر کوریج کی۔ آپ نے تحریک طالبان پاکستان کے کمانڈر ملا فضل اللہ کے مرکز سمیت دہشتگردوں کے اہم پناہ گاہیں دکھائیں۔

٭   شہبازشریف کی کرپشن:  پنجاب میں شہباز شریف کے10سالہ دور کے دوران عمران ریا ض خان نے ان کی مالی کرپشن کے حوالے سے متعدد پروگرامز کیے اور اپنے پروگرامز میں ثبوتوں کے ساتھ شہبازشریف کی کرپشن کو بے نقاب کیا۔

٭  عثمان بزدار کے غیرقانونی ٹھیکے: عمران ریاض خان نے تحریک انصاف کی پنجاب کی حکومت کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے غیرقانونی طور پر دئیے گئے ٹھیکوں کو بے نقاب کیا اور اس پر تحقیقاتی پروگرامز کیے۔

٭  رجیم چینج کے سخت ناقد: اپریل2022میں اندرونی         سازش، بیرونی مداخلت کے ذریعے تحریک عدم اعتماد لاکر پاکستان کی منتخب حکومت کو گرایا گیا تو عمران ریاض خان نے اپنے پروگرامز، وی لاگز کے ذریعے اس سازش کو بے نقاب کیا۔ آپ عمران خان کے وزیراعظم ہاوس کی رخصتی کے مناظر کے گواہ ہیں اور ان دنوں کی ہونیوالی ہر قسم کی محلاتی سازشیں کھل کر بیان کرتے آئے ہیں۔ آپ نے اس               دوران سول بالادستی اور افواج پاکستان کے اعلیٰ افسران کی سیاست میں مداخلت پر کھل کر تنقید کی، اپنے وی لاگز کے ذریعے عوام کو وہ حقائق بتائے جو بدترین سنسرشپ کی وجہ سے میڈیا پر نہیں دکھائے جاسکتے تھے۔

 ٭  سماجی خدمات و بیداری شعور:

٭   سیلاب زدگان کیلئے مہم:  عمران ریاض خان نے 2022کے تباہ کن سیلاب کے بعد ریلیف مہم میں اپنی ٹیم کے ساتھ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ آ پ کی امدادی سرگرمیاں تمام سیلاب زدہ علاقوں میں جاری ہیں، اس دوران آپ نے2055فیملیز کو دو دو چھتوں کا مکمل سامان مہیا کیا۔ عوام پاکستان کے تعاون کے ساتھ راشن، خیموں اور دیگر اشیائے ضروریہ کی تقسیم تقریباچار ماہ تک جاری رکھی۔ آپ نے عوام میں جذبہ خدمت اجاگر کرنے کیلئے خود شہر شہر دورہ کیا۔ بلوچستان کے شہر رکنی میں ہسپتال کا قیام آپ کے مستقبل کے لائحہ عمل میں شامل ہے۔

٭  ارشد شریف شہید ایمبولینس:   عمران ریاض خان نے دسمبر2022میں کینیا میں قتل کیے جانیوالے پاکستانی صحافی ارشد شریف شہید کے نام سے ایمبولینس سروس شروع کرنے کا اعلان کیا۔ اب تک6ایمبولینسز اس نیٹ ورک کا حصہ بن چکی ہیں۔ جس میں ایک ایمبولینس نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں جبکہ دیگر بالترتیب چکوال، سہڑا کشمیر، بارکھان، موسیٰ خیل اوربلوچستان کے شہر دکی میں ہے۔ ان ایمبولینسز میں ڈرائیورز کی تنخواہیں اور تمام تر اخراجات کی ذمہ داری عمران ریاض خان نے خوداٹھارکھی ہے۔

٭  چیف جسٹس کے نام خط:  عمران ریاض خان نے کینیا میں قتل کیے جانیوالے پاکستانی صحافی ارشد شریف کے قتل کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے نام خط لکھا اور قوم سے اپیل کی وہ بھی خطوط لکھیں۔ سپریم کورٹ نے اس مہم کے بعد 6دسمبر 2022کو چیف جسٹس سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا۔ سپریم کورٹ کے ریکارڈ سے یہ بات سامنے آئی کہ چیف جسٹس کے نام5ہزار خطوط موصول ہوئے۔

٭  شجرکاری کیلئے مہم:  عمران ریاض خان نے 2019،2022میں پاکستان بھر میں شجرکاری کیلئے بھرپور کام کیا،آپ نے قوم کو یہ شعور دلانے کیلئے خود مختلف شہروں کا رخ کیا اور دورے کیے۔

٭  کشمیر کے حق خودارادیت کیلئے موثر آواز:   عمران ریاض خان کشمیر میں حق خودارادیت کیلئے موثر آواز ہیں۔ آپ نے اپنی تقریروں کے ذریعے کشمیر کی آواز بلند کی۔ آپ نے ایوان صدر میں تقریر کرتے ہوئے نعروں سے بڑھ کر کشمیریوں کی مدد کرنے کیلئے آواز اٹھائی۔آپ کشمیر یوتھ الائنس کے ایڈوائزی بورڈ میں شامل رہے۔ مختلف یونیورسٹیز میں تقاریب میں شرکت کی اور نوجوانوں کو مسئلہ کشمیر سے متعلق آگاہی دی۔

٭صحافیوں کے حقوق کیلئے موثرآواز:   عمران ریاض خان لاہور پریس کلب کے ممبر ہونے کے ساتھ ساتھ صحافیوں کیلئے ہمیشہ موثر آواز اٹھاتے رہے۔ آپ نے صحافیوں کی گرفتاری اور ان کے خلاف ریاستی تشدد کی ہمیشہ مذمت کی۔ صحافتی تنظیموں کے ساتھ موثر رابطے میں رہتے ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر بھی بھرپور آواز اٹھاتے ہیں۔

٭            IRKنیوز کا آغاز:    سال2022کے آخر میں آپ نے IRKنیوز کے نام سے ڈیجیٹل میڈیا کے سیٹ اپ کا آغاز کیااس پلیٹ فارم کے ذریعے عوام الناس کو سیاسی صورتحال سے آگاہی دی جارہی ہے۔

عمران ریاض خان کے خلاف ریاستی جبر کی داستان

پاکستان کے نامور صحافی عمران ریاض خان گزشتہ ایک سال سے سخت ترین پابندیوں، قیدوبند اور مشکلات کا شکار ہیں۔ قید و بند، جھوٹے کیسز، ان کے گھر فائرنگ کے واقعات، دھمکیاں ماضی میں سب تو ہوتا رہا ہے لیکن اس بار انہیں جبری گمشدگی کا سامنا ہے۔جب میں یہ تحریر کررہا ہوں یعنی آج (31مئی2023)تک ان کی جبری گمشدگی کو 20دن گزر چکے ہیں۔ پاکستان میں جبری گمشدگی کے معاملات نئے نہیں ہیں لیکن سینئر صحافی عمران ریاض جیسی مقبول شخصیت گمشدہ ہوجانے سے ریاست کے کردار،پولیس، قانون نافذ کرنے

والے اداروں اور خفیہ ایجنسیوں پر پر سخت سوال اٹھ رہے ہیں۔

٭  عمران ریاض خان کی گرفتاری      

 11مئی2023ء

عمران ریاض خان کو پاکستان سے عمان جاتے ہوئے سیالکوٹ ائیرپورٹ سے گرفتار کیا گیا۔ انہیں گرفتار کرتے وقت کسی قسم کے کوئی وارنٹ گرفتاری نہیں دکھائے گئے۔ گرفتاری کے بعد انہیں تھانہ سیالکوٹ کینٹ لے جایا گیا، وہاں کم وبیش 12گھنٹے غیرقانونی طور پر حراست میں رکھا گیا۔ اس دوران ڈپٹی کمشنرسیالکوٹ نے غیرقانونی طور پر ایم پی او کے قانون کے تحت ان کے30دن کے جیل منتقلی کے آرڈرز جاری کیے اور انہیں جیل منتقل کردیا گیا۔   

٭  عمران ریاض خان کا اغواء

11مئی2023ء

ڈپٹی کمشنر نے چندگھنٹوں کے اندر ہی اپنے آرڈرز کو عمران ریاض خان کی جانب سے دئیے گئے بیان حلفی کے بعد واپس لے لیااور عمران ریاض خان کی رہائی کا حکم دے دیا، عمران ریاض خان نے بیان حلفی دیا کہ وہ پاکستان سے عمان جارہے تھے، ان کی سیالکوٹ آمد کا مقصد کسی قسم کی انتشار پسندی یا ہجوم اکٹھا کرنا ہرگز نہیں ہے۔ حیران کن طور پر عمران بھائی کی رہائی کی اطلاع ان کی فیملی یا دوستوں کو نہیں دی گئی۔ جیل سے رہائی کے ساتھ ہی جیل کے بعد نقاب پوش نامعلوم افراد انہیں اپنے ساتھ لے گئے، تب سے وہ لاپتہ ہیں۔ صحافی برادری اس اغواء کو جبری گمشدگی سے تعبیر کرتی ہے۔

٭            عمران ریاض خان بازیابی کیس           12مئی تا31مئی

عمران ریاض خان کے والد کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ میں عمران ریاض کی بازیابی کیلئے اپیل کی گئی جسے سماعت کیلئے مقرر کیا گیا، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس امیر بھٹی اس کیس کی سماعت کررہے ہیں۔ مختلف سماعتوں کے دوران ریمارکس میں انہوں نے کہا کہ ہم عمران ریاض خان کی بحفاظت بازیابی چاہتے ہیں عدالت کی خواہش ہے کہ انہیں کسی قسم کا کوئی نقصان نہ پہنچے۔عمران ریاض کی بازیابی کیلئے عدالت بار بار پولیس کو وقت دیتی رہی لیکن عدالت کے سامنے پولیس عمران ریاض خان کو  پیش کرنے میں ناکام ہی دکھائی دی۔ چیف جسٹس نے ملک کی تمام ایجنسیز بشمول آئی ایس آئی کو پولیس کی معاونت کرنے کے آرڈرز بھی جاری کیے لیکن پھر بھی کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔

ایس ایچ او کا بیان:  عمران ریاض خان کو گرفتار کرنے والے تھانہ سیالکوٹ کینٹ کے ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ اسے زبانی آرڈرز ملے کہ انہیں گرفتار کرنا ہے۔ اس نے اعتراف کیا کہ کوئی وارنٹ گرفتاری موجود نہیں تھے۔ جس پر عدالت نے ایس ایچ اوکو معطل کردیا، لیکن عدالت میں معافی مانگنے پر اس کے معطلی کے آرڈرز کو واپس لے لیا گیا۔

ڈی پی او سیالکوٹ کابیان:     ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سیالکو ٹ نے عدالت میں بیان دیا کہ انہیں خدشہ تھا کہ عمران ریاض خان سیالکوٹ میں امن وامان کی صورتحال خراب کرنا چاہتے ہیں اسلئے انہیں حراست میں لیا گیا، تاہم بعدازاں انہیں چھوڑ دیا گیا۔

 ڈی سی سیالکوٹ کا بیان:      ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ نے اپنے بیان میں کہا کہ پولیس کی جانب ہمیں رپورٹ ملی کہ عمران ریاض خان سیالکوٹ میں ہجوم اکٹھا کرنا چاہتے ہیں جس سے انتشار کا خطرہ ہے، اسلئے ان کے ایم پی او کے تحت گرفتاری کے آرڈر کیے۔

٭  آئی جی پنجاب کے بیانات:   انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس نے کہا کہ عمران ریاض خان پنجاب پولیس کو کسی کیس میں مطلوب نہیں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ عمران ریاض خان کی بازیابی کیلئے ہم کوششیں کررہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جیل کے باہر سے جو افراد عمران ریاض خان کو لے کر گئے ان کے نمبرز انٹرنیشنل ہیں جن کو ٹریس کرنے کی سہولت ہمارے پاس نہیں، ہم تمام تر وسائل بروئے کار لاتے ہوئے عمران ریاض خان کی بازیابی کیلئے کوشش کررہے ہیں۔

٭  وزارت دفاع کا بیان:   عدالت میں وزارت دفاع نے بیان میں کہا کہ عمران ریا ض خان ملک کی کسی ایجنسی کے پاس نہیں ہیں، نہ ہی وہ کسی ایجنسی کو مطلوب ہیں۔

٭  عمران ریاض کے والد کا بیان:  میرے بیٹے کو صرف صحافت کرنے اور حکومت و اسٹیبلشمنٹ پر سخت تنقید کرنے کی سزا دی جارہی ہے، میرا بیٹا ملک کی ایجنسیوں کے پاس ہے، اگر اس نے بولنے کا اتنا بڑا جرم کیا ہے تو اسے گولی مار دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے عمران ریاض خان کو ہمیشہ سچ بولنا سکھایا ہے اور یہ میراقصور بن چکا ہے۔

٭  عمران ریاض کے وکیل کا بیان:      عمران ریاض خان کے وکیل میاں علی اشفاق نے اپنے بیان میں کہا کہ عمران  ریاض خان کے ساتھ ہونے والے واقعات کی تاریخ ہے، ایک سال میں ان کے ساتھ بہت کچھ ہوا اور وہ برداشت کررہے ہیں۔میں بہت سے معاملات کا گواہ ہوں، مجھے امید ہے کہ عمران ریاض خان بخیریت گھر لوٹیں گے۔          

٭  مبینہ اغواء میں جنم لینے والے اہم سوالات 

؎عمران ریاض خان بازیابی کیس میں اٹھنے والے اہم سوالات جواب طلب ہیں جس میں پولیس کی بدنیتی اور عدالت کی بے بسی واضح دکھائی دیتی ہے۔ ان سوالات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پولیس، انٹیلی جنس ادارے عمران ریاض خان کو بازیاب کرنے میں مخلصانہ کاوشیں ہی نہیں کررہے ہیں بلکہ ہر بار عدالت سے اگلی تاریخ لینے اور وقت لینے پر زور ہوتا ہے۔

٭  انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس نے کہا کہ عمران ریاض خان پنجاب پولیس کو کسی کیس میں مطلوب نہیں تھے، لیکن اس کے برعکس عمران ریاض خان کو سیالکوٹ ائیرپورٹ سے20کے قریب پنجاب پولیس کے اہلکاروں نے گرفتار کیا، جبکہ عین اسی رات عمران ریاض خان کے گھر پر50پولیس اہلکاروں نے دھاوا بولا۔اگر پنجاب پولیس کو مطلوب نہیں تھے تو یہ ریڈ کسی خوشی میں کی گئی تھی؟  اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب پولیس عمران ریاض خان کو کسی نامعلوم ادارے یا ایجنسی کے حوالے کرنے کیلئے سہولت کاری کررہی تھی۔

٭  انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس نے کہا کہ عمران ریاض خان کے گھر پر پولیس کا ریڈ ”سسٹر ایجنسی“ کے کہنے پر ہوا۔ سوال یہ ہے کہ وہ سسٹرایجنسی کون سی ہے؟ 

٭  عمران ریاض خان کے گھر میں ریڈ کے دوران پنجاب پولیس کے علاوہ کسی ایجنسی کے اہلکار بھی تھے۔ ان میں سے ایک شخص جیل کے باہر موجود اغواء کاروں کے ساتھ بھی موجود تھا۔ پنجاب پولیس کے ساتھ آنے والے سسٹر ایجنسی کے اس شخص کومنظرعام پر یا عدالت میں کیوں نہیں لایا جاسکا؟  کیا پولیس حقائق کو چھپانے کیلئے یہ سب کوششیں کررہی ہے؟

٭  پنجاب پولیس کے گھر میں چھاپے کے دوران اسی مشکوک شخص نے عمران ریاض خان کی اہلیہ کو دھمکی دی تھی۔ اس شخص کو دھمکی دینے کے جرم میں ہی ابھی تک لاہور ہائیکورٹ میں کیوں نہ سامنے لایا گیا؟

٭  انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس کے مطابق سسٹر ایجنسی کی خواہش پر ریڈ ہوا۔ کیا سسٹر ایجنسی نے بتایا کہ انہیں عمران ریاض خان کس کیس میں اور کیوں مطلوب ہیں؟

٭  غیرقانونی طور پر گرفتار کرنے، غیرقانونی طور پر جیل میں ڈالنے اور غیرقانونی ڈیٹینشن آرڈرز جاری کرنے پر بالترتیب ایس ایچ او، ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر اور ڈپٹی کمشنر کے خلاف کاروائی کیونکر نہ ہوسکی؟

٭   ایس ایچ او نے کس کے کہنے پر اور عمران ریاض خان کو بغیر وارنٹ کے سیالکوٹ ائیرپورٹ سے کیوں گرفتار کیا؟

٭  عمران ریاض خان کے ڈیٹینشن آرڈرز منسوخی کی اطلاع ان کی فیملی کو کیوں نہ دی گئی اور یہ کیسا حسن اتفاق ہے کہ عین اسی وقت جب عمران ریاض رہا ہورہے ہیں سیالکوٹ جیل کے باہر اغواء کار موجود ہوتے ہیں۔ کیا اس سے سیالکوٹ پولیس کی سہولت کاری واضح نہیں؟

٭  انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس خود عمران ریاض خان کے خلاف ایف آئی اے میں ایک درخواست دے چکے ہیں، کیا اس سے ان کی بدنیتی ظاہر نہیں ہوتی؟  انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس کی20دن سے مسلسل ناکامی کے باوجود عدالت نے متبادل افسرتعینات کیوں نہ کیا؟

٭  عدالت نے پیشی کے پہلے دن جس ایس ایچ او کو معطل کیا اسے بھی بحال کردیا۔ اس کے بعد عدالت عالیہ کی جانب سے غفلت برتنے، واضح طور پر قانون توڑنے، اغواء کاروں کے ساتھ سہولت کاری کرنے کے واضح جرائم کے باوجود کسی افسر کے خلاف کوئی بھی کاروائی کیونکر نہ ہوسکی؟

٭  پاکستان کے نامور صحافی مطیع اللہ جان دعوی کرتے ہیں کہ لاپتہ افراد کے کیس میں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا ماضی  متنازعہ ہے۔ کیا متنازعہ ماضی رکھنے والے چیف جسٹس حال میں بھی بے بس دکھائی دیتے ہیں؟

٭  لاہور ہائیکورٹ کی واضح بے بسی کے بعد پنجاب کے صحافیوں کو اپنے آئینی حقوق کا تحفظ کہاں سے ملے گا؟

٭  عدالت میں چلائی جانیوالی فوٹیج کے مطابق عمران ریاض خان کو جیل کے باہر سے تین نامعلوم افراد ایک ویگو ڈالے میں کہیں لے کر جارہے ہیں۔ ابھی تک ان گاڑیوں کی تفصیل کیوں نہ سامنے آسکی؟  ان کا ڈیٹا عوام کے سامنے کب آئے گا؟  پولیس نے ان گاڑیوں کو ٹریس کرنے میں کیا کام کیا ہے؟

٭  خدانخواستہ عمران ریاض خان پر تشدد یاجان کو نقصان پہنچائے جانے کی صورت میں ذمہ دار کون ہوگا؟

٭  ماضی میں بھی عمران ریاض خان کو مختلف چینلز پر آف ائیر کرنے، ان کے خلاف غداری کے مقدمات بنانے اور انہیں مختلف حیلوں بہانوں سے نقصان پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے؟  کیا وہی طاقتیں جبری گمشدگی کے پیچھے نہیں؟

٭  پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے حوالے سے عدالتوں کے ماضی کے فیصلے، ٹریک ریکارڈسب کے سامنے ہے، سوال یہ بھی ہے کہ جبری گمشدگیوں کا یہ سلسلہ کب ختم ہوگا؟  جو بلوچستان، قبائلی علاقہ جات، جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ کے علاقوں میں ایک رواج بن چکا ہے۔ پاکستان میں قانون سے بالاتر کون ہے؟

٭            ٭            ٭

آئیے اب ہم عمران ریاض خان کے خلاف ماضی میں ریاست کی جانب سے قائم کردہ مقدمات، غیرقانونی گرفتاریاں، قید و بند اور تشدد کے حوالے سے تفصیل آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔

٭  سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر تنقید کا مقدمہ:

02فروری2023کو عمران ریاض خان کو فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے سائبر کرائم برانچ نے لاہور ائیرپورٹ سے پاکستان سے باہر جاتے ہوئے گرفتار کرلیا۔ عمران ریاض خان کو سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر تنقید کے        الزام میں گرفتار کیا گیا۔ 03فروری2023کو عمران ریاض خان کو لاہور کی مقامی عدالت نے مقدمہ خارج کرتے ہوئے باعزت بری کردیا۔یاد رہے کہ عمران ریاض خان نے 28اکتوبر کو لاہور میں نوجوانوں سے خطاب اس وقت کے آرمی چیف پر سخت تنقید کی تھی۔جوڈیشل مجسٹریٹ مرتضی ورک نے ایف آئی اے کو انتباہ کی کی صحافیوں کے آئینی حقوق کو سلب نہ کیا جائے۔ اس کیس میں عمران ریاض خان کی نمائندگی ان کے وکیل میاں علی اشفاق نے کی تھی۔

٭  غداری کے مقدمات:

              پاکستان میں اپریل2022میں رجیم چینج کے بعد عمران ریاض خان نے سیاست میں فوجی قیادت کی مداخلت پر کڑے سوالات اٹھائے۔ انہوں نے اپنے ٹی وی پروگرامز اور وی لاگز کے ذریعے بار بار اس کا اظہار کیا۔ عمران ریاض خان کی کڑی تنقید اور ان کے پروگرامز کی مقبولیت دیکھتے ہوئے ریاست نے ان کے خلاف مقدمات درج کرنا شروع کردیئے۔ ملک کے طول و عرض میں عمران ریاض خان کے خلاف مقدمات درج ہونا شروع ہوگئے۔ان کے خلاف پنجاب کے شہروں               جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، اٹک، سرگودھا، میانوالی، گوجرانوالہ، لاہور، بھکر، کلورکوٹ، چوک سرور اور چکوال میں مقدمات درج کیے گئے، اسکے علاوہ بلوچستان اور سندھ کے اندر بھی مختلف شہروں میں غداری کی سنگین دفعات کے ساتھ مقدمات درج کیے گئے۔پاکستان کے قانون میں یہ واضح ہے کہ ایک جرم کی ایک سے زائد ایف آئی آرز نہیں ہوسکتیں، لیکن قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عمران ریاض خان کے خلاف ایف آئی آرز کا سلسلہ جاری رہا۔

٭  ٹی وی پروگرا مز پر پابندی:

عمران ریاض خان پر ٹی وی پروگرامز پرپابندی ماضی میں سال2014 سے2018کے درمیان بھی کئی بار دیکھنے میں آئی لیکن گزشتہ ایک سال میں عمران ریاض خان پر چار بار اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کی وجہ سے آف ائیر کیا گیا۔ انہیں سماء نیوز بعدازاں ایکسپریس نیوز اور پھر بول نیوز چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔

٭  اسلام آباد ٹول پلازہ سے گرفتاری:

 عمران ریاض خان کو4جولائی 2022ء کو اسلام آباد ٹول پلازہ سے گرفتار کیا گیا، انہیں اٹک پولیس نے غداری کے مقدمے پر زیر حراست لیاجبکہ عمران ریاض خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے ضمانت لے رکھی تھی۔ عمران ریاض نے گرفتاری دینے سے قبل گاڑی میں بیٹھ کر ایک ویڈیو ریکارڈ کروائی تھی جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’میں اپنی ضمانت کے لیے اسلام آباد آ رہا تھا اور یہ بالکل اسلام آباد کی حدود ہیں جہاں سے مجھے گرفتار کیا جا رہا ہے۔‘عمران ریاض کا مزید کہنا تھا کہ ’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ مجھے اندر بند کر دیں، جان سے مار دیں، یہ کچھ بھی کر دیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا میرے خیال میں ہمیں اپنا کام کرنا چاہیے۔‘

٭   عمران ریاض خان کے وکیل نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں رجوع کیا لیکن وہاں انہیں ریلیف نہیں ملا، پولیس نے موقف اختیار کیا کہ انہیں پنجاب کی حدود سے گرفتارکیا گیا ہے۔

٭  اٹک میں درج مقدمے کی سماعت:

عمران ریاض خان پر غداری کے مقدمے کی سماعت اٹک سول مجسٹریٹ کے سامنے مختصر سماعت کے بعد اینکر عمران ریاض خان کیس کو اپنے دائرہ اختیار سے باہر قرار دیتے ہوئے انھیں ایف آئی اے عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔سول مجسٹریٹ اٹک نے کیس پر مختصر کارروائی کے بعد فیصلہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کیس ان کی عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں، جس کے بعد متعلقہ حکام کی جانب سے عمران ریاض کا کیس ایف آئی اے کورٹ میں بھیج دیا گیا۔

٭  ایف آئی اے راولپنڈی میں سماعت:

اٹک کی سول عدالت کے احکامات کی روشنی میں 5جولائی2022کی شام عمران ریاض کو راولپنڈی ایف آئی اے عدالت میں پیش کیا گیا۔ایف آئی اے کورٹ کے جج نے سائبر کرائم کی دفعات کو خارج کرتے ہوئے مقدمہ اٹک کی مقامی عدالت میں واپس بھیج دیا۔

٭  اٹک میں درج کیس خارج:

راولپنڈی کی عدالت سے مقدمہ واپس اٹک بھجوائے جانے پر 5جولائی کو ہی دوبارہ سماعت سول مجسٹریٹ اٹک کے سامنے شروع ہوئی۔ وکیل میاں علی اشفاق کے دلائل کے بعد عدالت نے مقدمہ خارج کردیا۔ لیکن عمران ریاض خان کو اٹک سے چکوال میں درج مقدمے کی گرفتاری کیلئے چکوال پولیس پہنچ چکی تھی اور عمران ریاض خان کو عدالت کے باہر سے چکوال پولیس نے حراست میں لے لیا۔

٭  چکوال میں درج مقدمے کی سماعت:

چکوال پولیس نے عمران ریاض خان کو48گھنٹوں کے بعد مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا، جہاں ہونے والی سماعت کے بعد مقامی عدالت نے عمران ریاض خان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

٭  ٹرانزنٹ ریمانڈ پر لاہور پولیس کے حوالے:

اٹک اور چکوال کے بعد 8جولائی کو عمران ریاض خان کو چکوال کی مقامی عدالت نے راہداری ریمانڈ پر سی آئی اے پولیس لاہورکے حوالے کردیا، چونکہ عمران ریاض خان اسی طرح کے غداری کے ایک مقدمے میں لاہور پولیس کو مطلوب تھے۔

٭  ضمانت منظور، ایک اور مقدمہ خارج:

9جولائی 2022ء کو لاہور کی مقامی عدالت نے عمران ریاض خان کے خلاف درج مقدمہ خارج کردیا جس کے بعد انہیں لاہور ہائیکورٹ پیش کیا گیا۔ جہاں ان کے وکلاء کی جانب سے ضمانت کی اپیل کی گئی تھی۔ لاہور ہائیکورٹ نے عمران ریاض خان کی ضمانت 19جولائی تک منظور کی جبکہ انہیں کسی اور مقدمے میں گرفتار نہ کرنے کی ہدایت جاری کی۔

٭  سینیٹ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا نوٹس:

جولائی2022میں عمران ریاض خان کی گرفتاری کے وقت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئرمین سینیٹر ولید اقبال نے سینئر صحافی اور اینکرپرسن عمران ریاض خان کی گرفتاری کا سخت نوٹس لیا ہے. چیئرمین کمیٹی سینیٹر ولید اقبال نے وزارت انسانی حقوق سے اس حوالے سے اگلے چوبیس گھنٹوں کے اندر تفصیلی رپورٹ بھی طلب کرلی۔

٭  عمران ریاض خان پربیرون ملک جانے پر پابندی:

15جولائی2022کو عمران ریاض خان نجی دورے پر دبئی کیلئے جارہے تھے کہ انہیں لاہور ائیرپورٹ پر روک لیا گیا۔ انہیں روکنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔

٭  عمران ریاض خان کے گھر پر فائرنگ:

یکم اگست2018کو عمران ریاض خان کی لاہور رہائش گاہ پر رات کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے صحافی عمران ریاض اور ان کی فیملی کو دھمکانے کی کوشش کی۔ملک بھر کی صحافتی تنظیموں نے اس واقعے کی پرزور مذمت کی۔

٭            ٭            ٭

              پاکستانی عوام عمران ریاض خان کے ساتھ محبت کرتے ہیں، ان کے لاکھوں چاہنے والے ہیں، ایسے میں ایک نامور اینکر کی جبری گمشدگی سے عوام میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ اپنی اس رپورٹ کے ذریعے میں نے پاکستان اور دنیا میں موجود انسانی حقوق کی نام لیوا تنظیموں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔دنیامیں صحافیوں کے حقوق پر آواز اٹھانے والی تنظیمیں عمران ریاض خان کی صحت اور جان کے حوالے سے شدید ترین خدشات کا اظہار کرچکی ہیں ہیں۔ ایسے میں حکومت پاکستان و ذیلی ادارے بھی ہوش کے ناخن لیں۔ جبر اور ظلم کے ذریعے آواز دبانے کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔ پاکستان کا آئین بولنے کی آزادی دیتا ہے، قوانین صحافیوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں لیکن پاکستان میں عملی طور پر آئین معطل ہوچکا ہے اور قانون کے ساتھ کھلواڑ جاری ہے۔ ہم اپنے صحافی دوست عمران ریاض خان کیلئے ہر فورم پر آواز اٹھارہے ہیں لیکن کہیں بھی شنوائی نہیں ہورہی۔ ایسے میں دنیا بھر کے انسانی حقوق کے نام لیواؤں سے گزارش ہے کہ اپنا کردار ادا کریں۔

٭            ٭            ٭

قومی و بین الاقوامی صحافتی اداروں کی جانب

 عمران ریاض خان کیلئے اٹھائی جانیوالی آواز!

انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس:         انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے ساتھ مل کر پاکستانی حکام پر زور دے رہا ہے کہ وہ عمران ریاض خان کی فوری رہائی کو یقینی بنائیں اور تمام صحافیوں کو گرفتاری یا دھمکی کے بغیر کام کرنے کی اجازت دیں۔پریس ریلیز میں انہوں نے کہا کہ صحافی عمران ریاض خان کی گمشدگی انتہائی تشویشناک ہے، جس میں پاکستان کے آئین کے تحت قانون کی حکمرانی کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔انہوں نے پاکستانی حکام پر زور دیا عمران ریاض خان کو پیش کرنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ کی ہدایات پر عمل کریں۔

 رپورٹرز ودآؤٹ بارڈر:        میڈیا واچ ڈاگ تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرکے نمائندے ڈینیئل باسٹرڈ نے کہا کہ ”واضح طور پر پاکستان کی ملٹری انٹیلی جنس ایجنسیوں نے عمران ریاض کو اغوا کیا،” جب پولیس نے عدالتی سماعت کے دوران غیر متعینہ ”ایجنسیوں ” کی بات کی۔خفیہ سفارتی ذرائع کے مطابق، ٹی وی اینکر کی قسمت کے بارے میں حکومت کی خاموشی سے پتہ چلتا ہے کہ ان پر اغواء کے بعد تشدد کیا گیا ہے اور ہوسکتا ہے کہ حراست میں ان کی موت ہوگئی ہو۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل:      ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنے بیان میں صحافی عمران ریاض خان کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔

رپورٹ پی ڈی ایف میں ڈاونلوڈ کرنے کیلئے یہاں کلک کریں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں