وہ دس سوالات جو صحافیوں کو ڈی جی آئی ایس پی آر سے کرنے چاہیے تھے؟

گزشتہ روز ترجمان پاک فوج نے صحافیوں کے کئی سوالات کے جواب دیئے لیکن صحافیوں نے یہ دس سوالات ڈی جی آئی ایس پی آر سے کیوں نہیں کیے، جن کے جواب جاننا ہر پاکستانی کیلئے ضروری ہیں۔


صحافیوں نے یہ پوچھنا کیوں نہ گوارا کیا کہ آپ کے سابق ترجمان نے کہا تھا کہ جس دن نئی حکومت آئی سٹاک ایکسچینج بہتر ہوئی اور روپیہ مستحکم ہوا، کیا اب روپیہ کی گرتی ہوئی حالت پر کوئی ریمارکس دیں گے؟


صحافیوں نے ڈی جی سے کیوں نہ پوچھا کہ اظہر مشوانی، وقاص امجد سمیت کچھ لوگ نامعلوم افراد اٹھالیتے ہیں اور کئی کئی ہفتوں غائب کرنے کے بعد چھوڑ دیتے ہیں، پولیس اور ایف آئی اے ذمہ داری قبول کرنے سے انکاری ہوتی ہے، وہ نامعلوم افراد کون ہیں؟


صحافیوں نے سوال کیوں نہیں کیا کہ مراد سعید نے سال پہلے دہشتگردی کی نئی لہر کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا، قومی اسمبلی کے ایک ممبر اور نیشنل لیول کے رہنما کی بات کو سیریس کیوں نہیں لیا گیا، اب جبکہ دہشتگردی پھر بڑھ گئی ہے تو آپریشن کا فیصلہ کیا گیا، اس تاخیر کا ذمہ دار کون ہے؟


صحافیوں نے ڈی جی آئی ایس پی آر سے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ آپ غیر سیاسی ہونے کے دعویدار ہیں لیکن سابق چیف آف آرمی سٹاف نے کھلم کھلا پاکستان میں رجیم چینج، سیاست میں مداخلت، پاپولر قیادت کے خلاف مہم جوئی، عوامی مینڈیٹ کی توہین کا اعتراف کیا ہے، اس سے لاتعلقی کیلئے اور اس کے خلاف ادارہ واضح اور دوٹوک موقف کیوں نہیں دے رہا؟

صحافیوں نے سوال کیوں نہیں کیا کہ عمران خان پر قاتلانہ حملے میں آپ کے ادارے کے ایک شخص کو نامزد کیا گیا، آپ نے انصاف کو یقینی بنانے کیلئے اس شخص کو انصاف کے کٹہرے میں کیوں نہ پیش کیا اور ایف آئی آر تک کیوں نہ ہونے دی گئی؟


یہ سوال ہر صحافی کو کرنا چاہیے تھا کہ ارشد شریف شہید کی والدہ نے ارشد شریف کے قتل اور ملک سے جانے پر مجبور کرنے کے حوالے سے آپ کے ادارے کے چند افسران کو نامزد کیا ہے، کیا وہ اشخاص پاکستان کے قانون سے بالاتر ہیں، اگر اس ملک میں وزیراعظم، سیاست دان یا بیوروکریٹس پر مقدمے ہوسکتے ہیں تو فوجی افسران پر کیوں نہیں ہوسکتے؟ کیا انصاف کا تقاضہ نہیں تھا کہ انہیں قانون اور عدالت کے سامنے سرنڈر کرنا چاہیے تھا؟ لیکن یہاں بھی نامعلوم افراد ایف آئی آر کے اندراج میں رکاوٹ بن گئے؟


صحافیوں نے ڈی جی آئی ایس پی آر سے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ فوج فی الحال الیکشن میں ڈیوٹی کرنے کے اہل ہی نہیں، کیا یہ بیان فوج کے مورال کو ڈاؤن کرنے کے مترادف نہیں ہے؟

صحافیوں نے یہ کیوں نہ معلوم کیا کہ پاکستان کے موجودہ وزیر دفاع ماضی میں فوج کے دفاعی بجٹ پر سخت سوالات اٹھاتے رہے اور ان کے بیانات ریکارڈ پر ہیں جس میں انہوں نے فوج کو نشانہ بنایا، ایسا شخص ہی وزیر دفاع کیوں؟ کیا وفاقی وزیر کے فوج کے دفاعی بجٹ کے معاملات پر اب وہ تحفظات ختم ہوچکے؟ یا فوج سے انہوں نے اپنے بیان پر معذرت کرلی ہے؟


پریس کانفرنس میں گئے صحافی نے یہ سوال تو کیا کہ عمران خان سیکیورٹی رسک ہیں، یہ سوال کیوں نہیں کیا کہ قومی چینل پی ٹی وی پر کالعدم تنظیموں کے بین کیے گئے قائدین کس کی اجازت سے پریس کانفرنس کرکے ایک قومی سطح کے رہنما کی زندگی کو خطرے میں ڈال رہے تھے؟ اس سازش کی اجازت کس نے اور کیونکر دی؟


صحافیوں نے ڈی جی آئی ایس پی آر سے یہ سوال کیوں نہیں کیا کہ پاکستان فو ج کا عوام میں سے اعتماد کیوں روز بروز ختم ہورہا ہے؟ اس کے پیچھے کون سے عوامل ہیں اور فوج ان عوامل کو ختم کرنے اور عوام سے رشتہ دوبارہ جوڑنے کیلئے کونسی کاوشیں کررہی ہے یا کرے گی؟


صحافیوں کو یہ سوال کرنے چاہیے، کیونکہ یہ پاکستان کی عوام کے سوال ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں