پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اعلان کیاہے کہ ہماری تحریک آخری مرحلے میں داخل ہورہی ہے، آخری مرحلے سے ان کی مراد یہی ہے کہ وفاق سے پی ڈی ایم کی مشترکہ حکومت جانے والی ہے اور نئے انتخابات کی راہ ہموار ہونے والی ہے، لیکن اس آخری مرحلے سے قبل تحریک انصاف کے کپتان نے پھر شہر شہر جلسوں کا اعلان کردیا ہے جس کا آغاز وہ راولپنڈی سے کردیا ہے۔ جلسے اور ان میں عوام کی شرکت کو دراصل عمران خان اپنی طاقت سمجھتے ہیں جب بھی کوئی منفی مہم ان کے خلاف عروج پاتی ہے وہ جلسوں کا اعلان کردیتے ہیں اور پھر بھرے ہوئے میدان، دور تک سر ہی سر، ولولہ انگیز تقریریں موضوع بحث بن جاتی ہیں اور منفی مہم دم توڑ جاتی ہے۔
تحریک انصاف کیلئے ممکنہ آخری مرحلہ وہی ہوگا جس میں انتخابات کی دستک سنائی دی جائے گی اور دو تہائی اکثریت کی خواہش لے کر عمران خان میدان میں اتریں گے۔ اب ذرا کچھ زمینی حقائق پر نگاہ دوڑاتے ہیں۔ سال 2018کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی اور حکومت بنانے میں اللے تللے کرکے کامیاب ہوئی لیکن حقائق نظرانداز کیے گئے، تحریک انصاف کو حکومت بنانے کیلئے متعلقہ تعداد میسر نہ آسکی،بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ درست ہوگا کہ متعلقہ تعداد کا مکمل راستہ روکا گیا، انتخابی نتائج پر نظر رکھ کر پرکھنے والے اس نتیجہ پر بآسانی پہنچ سکتے ہیں کہ سال2018کے جنرل انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف شب11بجے تک 148 سے 155 سیٹوں پر برتری حاصل کررہی تھی لیکن الیکشن کمیشن کا سسٹم اچانک جواب دے گیا اور انتخابات میں وہ جھرلو پھیرا گیا کہ غیر حتمی نتائج میں 150سیٹیں بآسانی جیتنے والی جماعت نے حتمی نتائج میں صرف116سیٹیں حاصل کیں۔اور بالاخر بیساکھیوں کے سہارے عمران خان اقتدار میں آگئے، یہی بیساکھیاں انہیں اپریل2022میں لے ڈوبیں اور اندرونی وبیرونی مداخلت سے ان کی حکومت کو رخصت کیا گیا۔
اب اگر آخری مرحلہ وہی انتخابات ہیں تو ایک بار پھر ماضی کی فلم دہرائی بھی جاسکتی ہے۔ مقابلے کی سخت فضا تو کہیں دکھائی نہیں دے رہی، حالیہ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی چھپڑپھاڑ کامیابی نے بڑے بڑوں کو پریشانی میں لاحق کردیا، ایسے ماحول میں کیسے ممکن ہوگا کہ انتخابات میں تحریک انصاف کیلئے جھرلو پھیرا جائے؟ گرداب میں پھنسی، پی ڈی ایم کی حکومت بھی ”حکومت“ سے تنگ ہے، خواہش ان کی بھی انتخابات ہیں لیکن نتائج کا خوف ان پر بھی سوار ہے، ایسے میں عمران خان کو ٹکر دینے کیلئے نوازشریف کی واپسی، عمران خان کی نااہلی اور تحریک انصاف کی بدنامی جیسے کئی منصوبے زیرغور ہیں جن کا سامنا عمران خان نے آخری مرحلے میں کرنا ہے۔ الیکشن کمیشن کے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں عمران خان کو نااہل کرنے کا گراؤنڈ بنانے کی ایک کوشش تو کی گئی ہے،
جبکہ توشہ خانہ ریفرنس دوسری کوشش ہے، لیکن اب اس کی ڈور عدالت عظمیٰ کے ہاتھ میں ہے جس کے چیف جسٹس پر پی ڈی ایم عدم اعتماد کرچکی ہے۔ آخری مرحلے کا دوسرا بھیانک منصوبہ پاکستان تحریک انصاف کو فوج کے مدمقابل کھڑا کرکے اسے ملک دشمن قرار دینا اور اسکی اہم لیڈرشپ کو پابند سلاسل کرنا ہے،لیکن عمران خان کے پے در پے جلسے اس تاثر کا توڑ کریں گے۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تحریک انصاف نے عدم اعتماد کے بعد اداروں سے متعلق تلخ زبان استعمال ضرور کی ہے لیکن اگر ہم نوازشریف کی نااہلی کے بعد مسلم لیگ ن کے بیانات دیکھیں تو اس کے مقابلے میں عمران خان اور ان کے رفقاء نے کچھ بھی نہیں کہا۔ تیسرا اہم آپشن نوازشریف کی واپسی ہے، برطانیہ کی عدالت نے 2021میں نوازشریف کی برطانیہ قیام کی درخواست مسترد کی تھی جس کے بعد نوازشریف نے اپیل دائر کی تھی، کچھ تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ نوازشریف کی واپسی اپیل خارج ہونے سے مشروط ہے جس کے امکان زیادہ ہیں، تاہم میری رائے میں وفاقی حکومت نوازشریف کیلئے کسی قانونی گراؤنڈ پر کام کررہی ہے تاکہ جب وہ پاکستان میں واپس آئیں تو انہیں بآسانی ضمانت مل سکے اور وہ سیاسی سرگرمیوں کی نگرانی کرسکیں۔
یہ واضح ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کا پنجاب میں کوئی مستقبل نہیں، مقابلہ بالاخر مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف میں ہی ہونا ہے، تیسرے آپشن میں نوازشریف کو بھی میدان میں اتارنے کی منصوبہ بندی ہے تاکہ لیگی ورکرز کو بیدار کیا جائے اور تحریک انصاف کو ٹکر دی جاسکے یوں یہ یکطرفہ مقابلہ نہیں رہے گا۔ عمران خان کی نااہلی، نوازشریف کی واپسی یا کسی قسم کی پروپیگنڈا مہم ہو یا کچھ بھی، جانا آخرکار آخری مرحلے کی جانب ہی ہے جس سے اس سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ ممکن ہوگا اور وہ ہیں انتخابات، اسکے لئے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھیں اور اپنے فیصلے کرلیں اگر وہ صلاحیت رکھتے ہیں،و گرنہ ملک میں ان دیکھا مارشل لاء تو ہے ہی، واضح بھی لگ جائے گا تو منقسم سیاسی قوتیں کچھ نہیں کرپائیں گی۔