تحریر: رضی طاہر
خبر ہے کہ اسریٰ یونیورسٹی حیدرآباد کے چانسلرپروفیسر ڈاکٹر حمیدقاضی کو پولیس نے جعلی ڈگری کیس کے جعلی مقدمے میں ہتھکڑیاں ڈال کر خوب فوٹوسیشن کیا ہے، جبکہ پروفیسر صاحب تھائی لینڈ سے فلاسفی میں ڈاکٹریٹ اور امریکہ سے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ماسٹر کرنے کے بعد کئی سال ملک سے باہر کئی اداروں میں کام کرنے کے بعد جذبہ حب الوطنی کے تحت پاکستان لوٹے تھے، تاکہ تعلیم و تربیت کے شعبے سے وابستہ ہوکر پاکستان کی خدمت کی جاسکے۔ لیکن دھونس، سفارش اور رشوت کے نظام میں انہیں حق گوئی کی یہ سزا ملی کہ انہیں رسواء کیا جارہا ہے۔ اصل قصور پروفیسر صاحب کا ہی ہے کہ انہوں نے اپنے ملک کی خدمت کا سوچا اور خدمت کیلئے حیدرآباد سندھ کا انتخاب کیا، جہاں کے حکمرانوں کو پولیس کو فقط اپنی حکمرانی کی بقاء کیلئے پالا ہوا ہے۔
اشفاق احمد ساری زندگی اس قوم کو بتاتے رہے کہ کیسے اٹلی کی عدالت میں شعبہ تعلیم سے وابستگی کی وجہ سے جج اور سٹاف نے کھڑے ہوکر میرا استقبال کیا، لیکن و ہ معزز قوم ہے اور ہم پولیس سٹیٹ کے باسی، جہاں پولیس کیلئے ہرشخص جس کے خلاف ایف آئی آر ہو اور ایف آئی آر کے پیچھے مضبوط ہاتھ ہوں، عادی مجرم ہے۔ چاہے اس نے کبھی زندگی میں ٹریفک کا سگنل بھی نہ توڑا ہو، یہی حال وفاقی دارالحکومت میں شہباز گل کے اسسٹنٹ کے خاندان کے ساتھ اسلام آباد پولیس نے کیا، رات گئے گھر میں ڈاکوؤں کی طرح گھس گئے، خواتین کو ہراساں کیا اور شہبازگل کے اسسٹنٹ کی اہلیہ کو گرفتار کرکے لے گئے، جس نے زندگی میں کبھی کوئی قانون نہیں توڑا۔
یہاں رواج ہے پولیس جب کسی کے گھر چھاپہ مارتی ہے تو ملزم نہ ملے تو اس کے بھائی، بیوی، بہن، ماں یا والد کو تھانے لے جاکر اس کی تذلیل کی جاتی ہے۔ پولیس سٹیٹ کی ماضی میں کئی مثالیں ہیں لیکن جون2014میں ہونے والے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ریاستی بربریت اور دہشتگردی کا وہ مظاہرہ پیش کیا گیا جسے آنکھ دیکھ نہ سکے، جس کے احوال کان سن نہ سکیں۔100 نہتے افراد پر گولیاں برسا دی گئیں، 17لقمہ اجل بن گئے لیکن پولیس سٹیٹ میں انہیں آج تک انصاف نہ مل سکا۔ بلکہ وہ چہرے جنہوں نے گولیاں برسائیں وہ عہدوں پر براجمان ہیں، وہ سیاست دان جنہوں نے پشت پنائی کی وہ برسراقتدار ہیں۔ مثال کے طور پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ہدایت دینے والے وزیراعلیٰ آج وزیراعظم ہیں، نگرانی کرنے والے صوبائی وزیرقانون آج وفاقی وزیرقانون ہیں، قیادت کرنے والا ایس پی آج ڈی پی او سرگودھا ہے۔
پولیس سٹیٹ کی ایک اور مثال سانحہ ساہیوال ہے جہاں دہشتگردی کے شک کی بنیاد پر گولیاں برسادی گئیں تھیں لیکن تحقیقات نہ ہوسکی اور طاقت کا اندھا استعمال کرنے والے آزاد گھوم رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے گزشتہ دور میں تحریک لبیک کے کارکنوں پر پولیس گردی کا بھرپور استعمال کیا گیا، 25مئی کو پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان کے خلاف پولیس گردی کی بھیانک مثالیں قائم کی گئیں، چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا اور جمہور کو پولیس کے ہاتھوں رسواء کیا گیا۔ آنسو گیس کے ایکسپائرڈ شیل پھینکے گئے، ربڑ کی گولیاں برسائیں گئیں اور جمہور کو باو رکرایا گیا کہ آ پ جمہوریہ پاکستان نہیں بلکہ ایک پولیس سٹیٹ کے اندر زندگی بسر کررہے ہیں لہذا آزادی اظہار اور آئین میں دی گئی آزادیاں بھلادیجیے وہ محض دکھاوا ہے۔
ماضی اور حال پر نگاہ دوڑائیں تو ہر حکمران نے پولیس کو اپنے سیاسی مفادات کیلئے بھرپور استعمال کیا،لگتا ہے پولیس کی تو ٹریننگ ہی آواز دبانے، مظاہرین کو روکنے، مخالف کو دبانے، دھمکانے کیلئے ہوئی ہے، اب وقت آگیا ہے کہ پولیس سٹیٹ کو جمہوریہ پاکستان میں بدلیں۔ وگرنہ عوام میں نفرت کی ایسی چنگاریاں جل اٹھیں گی جسے بجھانا پھر ممکن نہ ہوگا، غیرقانونی حکم کی اطاعت کرنے والے، حکم دینے والے اور حکم چلانے والے، سبھی کردار اس نفرت کی آگ میں جل جائیں گے۔