تحریر: رضی طاہر
پنجاب کے20حلقوں پر ضمنی انتخابات نے ملکی سیاست کو نیا رخ دے دیا ہے۔ خیبرپختونخواہ کی عوام کے بعد پنجاب کی عوام نے بھی پاکستان تحریک انصاف پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے پنجاب کا میدان بھی کپتان کے نام کردیا ہے۔ یہ انتخابات 20حلقوں پر تھے لیکن اس کی تقسیم کار ایسے ہے کہ ان 20حلقوں سے 70فیصد پنجاب کی عوام کا فیصلہ سامنے آیا ہے۔
ہمیشہ سے یہ تاثر رہا ہے کہ جنوبی پنجاب کے لوگوں سے ووٹ لینا آسان ہوتا ہے اور وہاں وہی خاندانی بادشاہت قائم ہے لیکن جیسے بھکر کے نوانی خاندان، لیہ کے رندھاوا خاندان اور ڈیرہ غازی خان کے لغاری خاندان کی سیاست کا جنازہ نکلا ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ کپتان کی آواز جنوبی پنجاب کے دیہاتوں تک بھی پہنچ گئی ہے، جنوبی پنجاب میں جیتنے والی تمام نشستوں میں جیت کا مارجن بھی شاندار رہا ہے۔ڈیرہ غازی خان میں 25ہزار کی برتری، بھکر میں 12ہزار6سو برتری، ملتان میں 6ہزار کی برتری، لیہ کی نشست 14ہزار کی برتری سے تحریک انصاف نے اپنے نام کی اور یہی ٹرینڈ تمام حلقوں میں دکھائی دیا۔
وسطی پنجاب میں تحریک انصاف نے ن لیگ کے گڑھ کو اپنے گڑھ میں بدل دیا۔ لاہورجو مسلم لیگ ن کا بھرم تھا، امیدوں کا مرکز تھا اور جہاں مسلم لیگ ن نے 10سالہ اقتدار میں ترقیاتی کاموں کو جال بچھایا،وہاں کی چار نشستوں میں تحریک انصاف نے اپنے کارکنان کو ٹکٹ دیا اور چار میں سے تین نشستیں اپنے نام کرلیں۔اسی طرح جھنگ،فیصل آباد، شیخوپورہ، ساہیوال میں تحریک انصاف نے مسلم لیگ ن کئی سرپرائز دیئے۔ اگر ہم ماضی میں جائیں تو انتخابات2018میں ان 20نشستوں میں تحریک انصاف نے8نشستیں حاصل کی تھیں جبکہ باقی نشستیں آزاد امیدواران نے اپنے نام کیں، دو نشستوں پر مسلم لیگ ن جیتی تھی۔
حیران کن طور پر مسلم لیگ ن نے انہی آزاد امیدواران کو ٹکٹ دیئے اور مسلم لیگ ن کی حمایت تمام دوسری پارلیمانی جماعتوں نے کررکھی تھی، آزاد امیدواران کا اپنا ووٹ بینک، مسلم لیگ ن کا ووٹ اور پی ڈی ایم کی مکمل سپورٹ کے باوجود تحریک انصاف 2018کے انتخابات سے دوگنا نشستیں لینے میں کامیاب ہوئی، جبکہ ہاری ہوئی نشستوں میں بھی جیت کا مارجن بہت کم ہے، پنڈی کے حلقہ پی پی7میں تو صرف 40ووٹوں سے تحریک انصاف کے امیدوار کو شکست ہوئی۔
اب مجموعی طور پر پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف اوران کے اتحادیوں کی تعداد188کے لگ بھگ ہے جبکہ مسلم لیگ ن اور ان کے اتحادی178نشستیں رکھتے ہیں، گو یا کہ گجرات کے چوہدریوں کے لئے میدان صاف ہے اور پرویزالٰہی ایک بار پھر پنجاب کے وزیراعلیٰ بننے جارہے ہیں۔حالیہ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کا پارٹی ووٹ بڑھا ہے جبکہ تحریک لبیک پاکستان کو دھچکا لگا ہے، تحریک لبیک کا ووٹ بینک بہت حد تک تحریک انصاف میں شفٹ ہوچکا ہے۔اسی طرح مسلم لیگ ن کا ووٹ کافی حد تک کم ہوچکا ہے۔
پنجاب کپتان کے نام ہونے کے بعد اب دیکھنا یہ ہے کہ مرکز کیسے چلے گا؟ عمران خان نے کامیابی کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کو جنرل انتخابات کی دعوت دے دی ہے۔ پنجاب کے بغیر وفاق میں بیٹھنا مسلم لیگ ن کی سیاست کو مزید دفن کرنے کے مترادف ہوگا۔ ایک جانب تجربہ کار چوہدری پرویز الہی کے پاس پنجاب کی کمان ہوگی تو دوسری جانب بے اختیار شہبازشریف کے پاس وفاق کی باگ دوڑ، پرویز الہی ہر روز مسلم لیگ ن کو مات دینے کیلئے اقدامات کررہے ہوں گے جبکہ شہبازشریف کا ہر دن مسلم لیگ ن پیچھے دھکیلتا جائے گا۔ تمام سیاسی جماعتیں بالاخر اس نتیجے پر پہنچیں گی کہ انتخابات ہی واحد حل ہیں تاکہ اگلے پانچ سال کیلئے ایک مضبوط حکومت کی بنیاد رکھی جاسکے۔