تحریر: رضی طاہر
وطن عزیز میں گزشتہ 22سالوں میں پہلی بار دیکھا گیا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آتے ہی کشمیر کے معاملے پر بھرپور مہم جوئی کا آغاز ہوا، اسی دوران مودی نے 2014کے انتخابات میں ہندوؤں سے کیا گیا وعدہ پورا کرتے ہوئے کشمیر کی آزادانہ ریاستی حیثیت کو بھی ختم کیا لیکن اس کے بعد کشمیر کی تحریک نے جو زور پکڑا وہ ماضی میں کبھی نہیں دیکھا گیا، سلامتی کونسل کے اجلاس سمیت عالمی سطح پر ہر فورم پر کشمیر کی آوازسنائی دی جسے پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے مزید توانا کیا، عالمی فورمز پر ان کی حکومت کے پہلے تین سالوں میں ہر تقریر، تحریر، قرارداداور دورے میں کشمیر ڈپلومیسی شامل رہی، ان تین سالوں میں بھارت سے تجارت کا مکمل بائیکاٹ رہا، کئی مواقع پر فضائی حدود استعمال کی اجازت نہیں دی گئی، بھارتی مواد یعنی ڈراموں، فلموں وغیرہ پر مسلسل پابندی رہی، بھارتی چینل مکمل بند رہے جبکہ مستقل ہائی کمشنر بھی تعینات نہیں کیا گیا۔
جونہی2022کا سورج طلوع ہوا کشمیر کا مسئلہ شہر اقتدار کی غلام گردشوں میں اٹھنے والے نئے طوفانوں میں کھوگیا، مبینہ طور پر بیرونی سازش اور اندرونی طاقتور حلقوں کی کھلم کھلا مداخلت سے تحریک انصاف کی حکومت گرادی گئی،اس ساری مہم جوئی کے آغازمیں، کامیاب ہونے پر اور مابعد اب چھ ماہ کا عرصہ بیت گیا جس میں مسئلہ کشمیر کسی فورم، ادارے، وزارت یا ایوان کی ترجیح میں دکھائی نہیں دیا۔
رواں سال کے اپریل، مئی اور جون کے مہینے مقبوضہ کشمیر میں قیامت خیز رہے، قتل وغارت گری کا بازار گرم کیا جاتا رہا لیکن ہماری حکومت اور اس کے تمام ادارے خاموش تماشائی بنے رہے۔ مقبوضہ کشمیر کی حالت زار یہ ہے کہ گزشتہ دو ماہ میں مقبوضہ کشمیر میں 50سے زائدانکاونٹرز ہوئے، جس میں 90سے زائدکشمیری شہید ہوئے جبکہ 170 کے لگ بھگ کشمیریوں کو پی ایس اے کے کالے قانون کے تحت گرفتار کیا گیا، گزشتہ دنوں ایک دن میں 12کشمیریوں کو شہید کیا گیا، مگر اس ظلم و ستم پر بلاول بھٹو کی وزارت خارجہ خاموش دکھائی دی، تجربہ کار حنا ربانی کھر کا بھی کوئی بیان سننے کو نہیں ملا،اللہ نہ کرے مگر یوں لگتا ہے کہ ہم اہل کشمیر کی اخلاقی حمایت سے بھی دستبردار ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
آج اہل کشمیر سوال کرتے ہیں کہ ہر دو سال بعد سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوجانیوالا پاکستان ہماری وکالت کیسے کرپائے گا۔ پاکستان جب بھی عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے سب سے پہلے مسئلہ کشمیر نظرانداز ہوتا ہے، مسئلہ کشمیر دھرنوں، احتجاج، تحریکوں، اندرونی چپقلش، سیاسی ڈرامے بازی، ترش و شیریں بیان بازی وغیرہ کے تعفن زدہ ماحول میں کہیں گم ہوجاتا ہے اور عدم استحکام کی اس کیفیت میں کشمیری دنیا کی سب سے تنہا قوم بن جاتے ہیں۔ یہ سوال محض اہل کشمیر کا نہیں ہے، صورتحال یہ ہے کہ ایک خط سے ہماری حکومتیں تبدیل کردی جاتی ہیں، ہر باشعور پاکستانی اب یہ سوچتا ہے کہ پاکستان اپنے اندر کے سیاسی کھلواڑ سے نمٹنے کی قابلیت نہیں رکھتا، کشمیر کے حصول کا مقدمہ عالمی دنیا پر کیسے لڑے گا؟
ہم اپنے برادر اسلامی ملک سعودی عرب سے ہی کشمیر پر بھرپور موقف لینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کیونکہ ہر دوسال بعد ایک نیا بھکاری وہاں ہاتھ پھیلائے بھیک لینے پہنچ جاتا ہے، بھلا بھکاریوں کے ساتھ کوئی ملک کشمیر جیسے تنازعے پراظہار یکجہتی کرے گا جہاں دوسری جانب ان ممالک کے مفادات کو سامنے رکھ کر مستقل پالیسی کے تحت کام کیا جارہا ہو۔
ملک کے تمام ادارے، مخلص سیاست دان، عدلیہ وپارلیمان اور ملک میں ہر سیاسی محاذ آرائی کے پیچھے پائی جانیوالی اسٹیبلشمنٹ سمیت قوم کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کشمیر کے حصول کی جنگ میں ہم پاکستان گنوارہے ہیں۔ آئیے پہلے اپنے ملک کی عزت و وقار کو بحال کریں،عوام کے حقیقی نمائندوں کو اقتدار دیں، معیشت کا قبلہ درست کریں تاکہ کشمیری ہماری جانب اعتماد کی نگاہ سے دیکھیں اور سینہ تان کر مقدمہ کشمیر عالمی دنیا کے سامنے پیش کرسکیں۔