خصوصی رپورٹ: رضی طاہر
الیکشن کمیشن کی جانب سے پارٹی فیصلے سے انحراف پر پنجاب اسمبلی کے25امیدواران کو ڈی سیٹ کیے جانے کے بعد 20نشستوں پر الیکشن جولائی میں ہوں گے جس کیلئے انتخابی مہم کا آغاز کردیا گیا ہے۔ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی جانب سے ٹکٹس کیلئے خصوصی جانچ پڑتال اور انٹرویوز کے بعد امیدواران کا اعلان کردیا گیا ہے۔ سامنے آنے والے ناموں میں زیادہ تر نام وہ ہیں جو2013 میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ چکے ہیں لیکن 2018میں انہیں نظرانداز کردیا گیا تھا، کچھ حلقوں میں مسلم لیگ ن سے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے والے سیاست دانوں کو بھی ٹکٹ دیا گیا جبکہ کچھ چہرے نئے بھی ہیں۔
پی پی 7 راولپنڈی سے لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ محمد شبیر اعوان کو ٹکٹ دیا گیا، جو کہ 2014 میں تحریک انصاف کا حصہ بنے، 2008 سے پاکستان پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاست شروع کی اور ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔پی پی 83 خوشاب میں تحریک انصاف تقسیم کا شکار ہے، وہاں حامد ٹوانہ اور حسن اسلم سے حسن اسلم کا انتخاب کیا گیا۔ حسن اسلم کے بڑے بھائی تحریک انصاف کے ایم این اے ہیں۔ چیئرمین تحریک انصاف نے دونوں امیدواران کو بنی گالا بلا کر ملاقات بھی کی جس سے امید ہے کہ اختلافات ختم ہوگئے ہوں گے۔پی پی 90 بھکر میں تحریک کے امیدوار عرفان اللّٰہ نیازی کا مقابلہ منحرف رکن اور ن لیگ کے سعید اکبر نوانی سے ہوگا۔ سعید اکبر آزاد حیثیت سے جیت کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے اور پھر جہانگیر ترین گروپ میں شامل ہوگئے، جبکہ عرفان اللّٰہ نیازی نے 2013 کا الیکشن مسلم لیگ ن کے ٹکٹ سے لڑا اور جیتنے والے امیدوار سے صرف 4000 ووٹ کم لیے۔ اب وہ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر زور آزمائی کررہے ہیں۔
پی پی 97 فیصل آباد سے آزاد امیدوار محمد اجمل نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی بعدازاں ترین گروپ میں متحرک ہوکر منحرف ہوگئے، اس حلقے سے تحریک انصاف کے 2018 میں ٹکٹ ہولڈر علی افضل ساہی تھے، جنہیں دوبارہ ٹکٹ دیا گیا ہے۔ علی افضل ساہی نوجوان سیاست دان ہیں، لمز کے گریجوایٹ اور وکیل ہیں ان کے جیتنے کے روشن امکانات ہیں۔پی پی 125 جھنگ میں 2018 میں فیصل حیات بحثیت آزاد امیدوار جیت کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے، باقیوں کی طرح یہ بھی ترین گروپ میں شامل ہوکر منحرف ہوئے۔ 2018 میں رنراپ امیدوار تحریک انصاف کے میاں محمد اعظم تھے، جنہیں دوبارہ ٹکٹ دیا گیا۔ 2008 میں یہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر جبکہ 2013 میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر ایم پی اے رہ چکے ہیں۔
پی پی 127 جھنگ میں مہر نواز بھروانہ کو ٹکٹ دیا گیا، 2018 کے الیکشن میں یہاں سے مہر محمد اسلم آزاد حیثیت میں جیتے اور تحریک انصاف میں شمولیت کی لیکن مشکل وقت میں راہیں جدا کیں، مہر نواز رنراپ امیدوار تھے دوبارہ میدان میں آچکے ہیں۔ یہ 2018 میں محض ایک ہزار ووٹ سے ہارے تھے۔ 2013 اور 2008 کا الیکشن انہوں نے آزاد حیثیت سے لڑ کر دونوں دفعہ دوسری پوزیشن پر رہے۔پی پی 140 شیخوپورہ سے تحریک انصاف کے رکن اسمبلی میاں خالد محمود ڈی سیٹ ہوئے، اس حلقے میں نوجوان قانون دان، انصاف لائرز فورم شیخوپورہ کے صدر خرم شہزاد ورک ایڈووکیٹ کو ٹکٹ دیا گیا۔ ان کا مقابلہ میاں خالد محمود سے ہی ہوگا۔ بظاہر خرم شہزاد ورک کمزور امیدوار ہیں لیکن موجودہ حالات میں اپنے حریف کے ساتھ سخت مقابلہ کریں گے۔
پی پی 158 لاہور، علیم خان کا حلقہ ہے، جنہیں ڈی سیٹ کیا گیا۔ اس حلقے میں میاں اکرم عثمان کو ٹکٹ دیا گیا۔ یہاں علیم خان نے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے شعیب صدیقی کو ٹکٹ دلوایا ہے۔ میاں اکرم عثمان نے پی پی 149 سے 2013 میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور رنراپ رہے، پی پی 158 سے 2018 میں آزاد حیثیت میں میدان میں اترے اور بری طرح ناکام ہوئے۔لاہور سے ہی پی پی 167 میں نذیر احمد چوہان ن لیگ کو پیارے ہوئے اور لیگی ٹکٹ پر میدان میں اترے ان کے مقابلے میں عاطف چوہدری کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ پانچ سال قبل عاطف چوہدری نے برطانوی شہریت چھوڑ کر ٹکٹ کی امید لگائی لیکن انہیں ٹکٹ نہ مل سکا۔ 2013 میں انہوں نے این اے 123 میں پرویز ملک کے مقابلے میں 40 ہزار ووٹ حاصل یے تھے۔ آپ تحریک انصاف لاہور کے سینئر نائب صدر بھی رہے۔پی پی 168 میں 2018 میں سعد رفیق کی چھوڑی ہوئی نشست سے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے اسد علی کھوکھر جیتے، ان جے ڈی سیٹ ہونے کے بعد یہاں نواز اعوان کو ٹکٹ دیا گیا۔
چیچہ وطنی، ساہیوال کے حلقہ پی پی 202 میں نعمان لنگڑیال کے ڈی سیٹ ہونے کے بعدمیجر ریٹائرڈ غلام سرور کو ٹکٹ دیا گیا، غلام سرور نے 2013 میں پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ سے الیکشن لڑا تھا۔ پی پی 217 ملتان میں آزاد امیدوار محمد سلمان 2018 میں جیتے انہوں نے شاہ محمود قریشی کو شکست دی، تاہم اب ان کے ڈی سیٹ ہونے کے بعد شاہ محمود قریشی کے بیٹے مخدوم زین قریشی ضمنی انتخابات میں ان کا مقابلہ کریں گے۔پی پی 224 لودھراں میں 2018 میں جیتنے والے تحریک انصاف کے زوار حسین ن لیگ کو پیارے ہوگئے جبکہ دوسری پوزیشن لینے والے ن لیگ کے عامر اقبال شاہ اب تحریک انصاف کے ٹکٹ پر ضمنی انتخابات لڑیں گے۔ عامر اقبال 2002 میں مسلم لیگ ق جبکہ 2013 میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
پی پی 228، لودھراں میں نذیر احمد کے ڈی سیٹ ہونے کے بعد عزت جاوید خان کو ٹکٹ دیا گیا، جنہوں نے 2018 میں بحثیت آزاد امیدوار الیکشن لڑا اور صرف 357 ووٹ لیے۔جہانگیر ترین کے ہوم گراؤنڈ کی وجہ سے لودھراں میں تحریک انصاف کو امیدواران کیلئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پی پی 272 مظفر گڑھ میں باسط احمد سلطان کے ڈی سیٹ ہونے کے بعد 2013 میں آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے والے معظم علی جتوئی کو ٹکٹ دیا گیا۔ 2018 میں محض 1000 ووٹ حاصل کر پائے تھے۔ اس سے قبل پیپلز پارٹی میں 2013 میں صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور رنراپ رہے، جبکہ 2008 میں ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔
پی پی 273 مظفرگڑھ کیلئے یاسر عرفات خان جتوئی کو ٹکٹ دیا گیا، یہاں سے سبطین رضا ڈی سیٹ ہوئے۔ قانون دان یاسر عرفات خان مسلم لیگ ق کی تکٹ پر 2002 سے 2007 تک ممبر پنجاب اسمبلی رہ چکے ہیں۔پی پی 282 لیہ سے تحریک انصاف کے 2018 میں رنراپ رہنے والے قیصر عباس کو ٹکٹ دیا گیا، یہاں سے آزاد حیثیت سے جیت کر طاہر رندھاوا تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے جو ڈی سیٹ ہوئے۔ قیصر عباس مگسی 2013 سے 2018 تک مسلم لیگ ن کے ممبر صوبائی اسمبلی رہے۔ اس سے قبل پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ممبر صوبائی اسمبلی رہے جبکہ دو دفعہ تحصیل ناظم رہے۔پی پی 288 ڈیرہ غازی خان سے محسن عطا خان کے ڈی سیٹ ہونے پر اس حلقے میں 2018 کے تحریک انصاف کے رنراپ امیدوار سیف الدین کھوسہ کو ہی ٹکٹ دیا گیا۔ محسن عطا آزاد حیثیت سے جیت کر تحریک انصاف کا حصہ بنے تھے۔ 2008 میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ سے جیت کر ممبر قومی اسمبلی بنے تاہم اختلافات پر 2012 میں مستعفی ہوگئے تھے۔
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے امیدواران کی فہرست سامنے آنے کے بعد پنجاب کے سیاسی ماحول میں گرما گرمی عروج پر ہوگئی ہے، تمام حلقوں میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے جلسے کرانے کی منصوبہ بندی بھی کی جاچکی ہے۔ یہ ضمنی انتخابات پنجاب اسمبلی کے مستقبل کا تعین کریں گے، کیونکہ واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ حمزہ شہباز کے پاس وزیراعلیٰ رہنے کیلئے اکثریت موجود نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کا خیال ہے کہ الیکشن کمیشن مکمل طور پر جانبدار ہوچکا ہے اور اس الیکشن کمیشن کے ہوتے ہوئے آزادانہ انتخابات محض خواب ہی ہے، انتخابی فہرستوں کے حوالے سے بھی سوال اٹھ رہے ہیں، جس سے یوں لگتا ہے کہ منظم دھاندلی کا آغاز ہوچکا ہے۔