ڈاکٹر محمد قاسم فکتو کی کتاب بانگ سے اقتباسات

بانگ (مصنف : ڈاکٹر قاسم فکتو)
انتخاب : رضی طاہر

مصنف کا مختصر تعارف :
٭ ڈاکٹر محمد قاسم فکتو دختران ملت کی سربرا ہ سیدہ آسیہ اندرابی کے شوہر اور تحریک آزادی کشمیر کے سرگرم کارکن ہیں۔
٭ ڈاکٹر محمد قاسم نے نوجوانی میں ہی قید کردیئے گئے ، انہوں نے جیل میں ہی ماسٹرز کیااور اسلامک اینڈ سوشل سٹڈیز
میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔
٭ ڈاکٹر محمد قاسم فکتومقبوضہ جموں و کشمیر کے سب سے زیادہ طویل مدت کیلئے قیدی رہنے والے ہیں۔
٭ ڈاکٹر محمد قاسم پہلی دفعہ قتل کے جھوٹے کیس میں 1993میں گرفتار ہوئے ، جب وہ تحریک آزادی کے سرگرم کارکن تھے۔
٭ ڈاکٹر محمد قاسم 29سال سے مختلف جیلوں میں قید تنہائی کی زندگی گزار چکے ہیں، ابھی بھی قید میں ہیں، ان پر کئی جھوٹے
کیس بنائے گئے اور کٹھ پتلی عدالتوں کے ذریعے سزائیں دلوائی گئیں۔
٭ یہ پہلے قیدی ہیں جن کیلئے بھارت نے اپنے عمر قید کے قانون میں ترمیم کی اور تاحیات قید کی سزا کااضافہ کیا۔
٭ ڈاکٹر محمد قاسم فکتو الحاق پاکستان کے داعی اور نظریہ پاکستان کے حامی ہیں۔

کتاب کے اقتباسات :
برہمن اور ہندوتوا : ٭ اکثر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہندوتوا صرف آر آیس ایس کا نظریہ ہے لیکن ڈاکٹر محمد قاسم کہتے ہیں کہ ”بلاشبہ آر ایس ایس اس کی سب سے بڑی داعی ہے مگر جہاں تک اس کی فکری اور نظریاتی بنیادوں کا تعلق ہے یہ تمام برہمنوں سے بالخصوص اور غیر برہمن ہندﺅں سے بالعموم متعلق ہے، یہ ممکن ہے کہ ہندوﺅں کے مختلف طبقات اسکی تعبیر منہج یا طریقہ کار کے اعتبار سے باہم مختلف ہیں ، لیکن جہاں تک حقیقت یعنی اصول اور ہدف کی بات ہے سب متفق و متحد ہیں “

٭ ڈاکٹر محمد قاسم دشمن قوم میں آلہ کار بنانے کے برہمنی طریقہ کار میں یوں روشنی ڈالتے ہیں۔
”ہندتوا کے ماننے والے اپنے شدید دشمن کو جڑ سے اکھاڑنے یا اسے ضم کرلینے کی کوشش کرتے ہیں “ ضم کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ : ”برہمن اپنے مخالف چیلنج دینے والی قوت کے اندر سے کسی فرد کو آلہ کار بنانے کیلئے تحسین و تعریف کے اعلیٰ مقام پر فائز کرتے ہیں (امام الہند مولوی ابوالکلام آزاد ، شیر کشمیرڈاکٹر شیخ عبداللہ )
٭ اس صورتحال میں وہ بیان کرتے ہیں کہ برہمنوں کو اپنی قوت نہیں لگانی پڑتی وہ مخالف قوم کو ہی تقسیم کرلیتے ہیں اور اسی قوم کے کچھ لوگوں کے ذریعے ان پر حکمرانی کرتے ہیں۔

بانگ :
٭ کتاب کے اگلے حصے میں ڈاکٹر محمد قاسم نے اندلس اور فلسطین کے احوال اور وہاں رچائی جانیوالی سازشوں کا پردہ چاک کیا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مصنف عالمی تنازعات پر گہری نظر رکھتے ہیں، اس کے بعد انہوں نے ہندوتوا کے مختلف نظریات جس میں ہندو، ہندوتوا، ہندوراشٹر پر اختصار سے روشنی ڈالی تاکہ ہندوﺅ ں کے افکار کو سمجھا جاسکے ۔

٭ اندلس میں مسلمانوں کی تقسیم ، وہاں پر مسلمانوں کے زوال کا سبب بنی
ڈاکٹر محمد قاسم لکھتے ہیں کہ
٭ اندلس میں مسلمان کئی گروہوں میں تقسیم ہوگئے جن میںعرب، بربر، اندلسی مسلمان پھر عرب میں بھی کلبی و قیسی، یمنی و وشامی وغیرہ بے شمار گروہوں میں تقسیم تھے ، سب قبائل و گروہوں کے درمیان مستقل آویزش اور کشمکش رہتی ۔۔۔اس افتراق و انتشار سے شاطر عیسائی حکمران بھرپور فائدہ اٹھاتے تھے ۔ ٭ پھر لکھتے ہیں کہ ۔۔۔ ”آج بھی امت مسلمہ کی پستی اور زوال کے لئے شرک کے بعد قومی، وطنی، نسلی اور لسانی جاہلی عصبیتیں ہی ذمہ دار ہیں انہی عصبیتوں نے ایک ارب 70کروڑ مسلمانوں کو بین الاقوامی طور پرسیاسی بے وقعت بنادیا ہے“ ڈاکٹر محمد قاسم یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کشمیر بھی ہندواتا کے پہرے داروں کی جانب سےمسلمانوں کے خلاف ایسی ہی سازشوں کے تانے بانے ملتے ہیں۔

اگلے باب میں : ڈاکٹر محمد قاسم ہندو، ہندومت، ہندو مذہب کے عقائد، کتابوں،ذاتوں، نظریات اور اس کے پرچار کے اقدامات کےحوالے سے سیر حاصل بحث کرتے ہیں ، اس بحث میں وہ ہندﺅں کے اس نظریے کے بارے میں بات کرتے ہیں جس میں وہ اپنی زمین پر کسی اور کے وجود کو برداشت نہ کرنے کا درس دیتیں ہیں۔

٭ ”جو لوگ نظریہ کی پانچ حدوں سے باہر ہوں گے ان کیلئے قومی زندگی میں کوئی جگہ نہیں جب تک وہ اختلافات کو ختم نہ کردیں اور ہندودھرم ، ثقافت اور زبان کو نہ اپنالیںاور خود کو پوری طرح راشٹریہ نسل میں ضم نہ کرالیں “ ایم ایس گوالکر۔۔۔ صفحہ45

اگلے باب میں
٭ جموں کشمیر کے عنوان سے اس باب میں ڈاکٹر محمد قاسم کشمیر کی مختصر تاریخ اور احوال بیان کرتے ہوئے بھارتی منصوبوں سے پردہ چاک کرتے ہیں۔

٭ کشمیر کے مستقبل کے متعلق لکھتے ہیں کہ ” جموں کشمیر کو پاکستان کا حصہ ہونا چاہیے تھا نہ صرف اسلئے کہ جن نظریاتی اصولوں پر برصغیر کی شیرازہ بندی ہوئی اس کے مطابق81فیصد مسلم آبادی والے اس حصے کو پاکستان میں شامل ہونا چاہیے تھا بلکہ جغرافیائی طور پر بھی یہ پاکستان کا ہی حصہ ہوسکتی ہے، جموں کشمیر کی86فیصد سرحدیں پاکستان چین اور افغانستان کے ساتھ ملتی ہیں اور صرف18فیصد سرحد بھارت کے ساتھ ملتی ہے۔ “

٭ کشمیر سے متعلق بھارتی خفیہ منصوبوں کی نشاندہی
”کشمیر کی ملت اسلامیہ کے خلاف سامراجی سازش کے تین بنیادی کردار ہیں۔۔۔
۔ موہن داس گاندھی اور پنڈت نہروجنہوں نے کشمیر پرقبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔
۔ ماﺅنٹ بیٹن اور ریڈکلف جس نے جغرافیائی راستہ فراہم کیا اور
۔ ہری سنگھ اور شیخ عبداللہ نے اس کے لئے سیاسی ماحول فراہم کیا

تلخ حقیقت بیان کرتے ہیں کہ ’ ’جموں کشمیر میں چھوٹے بڑے500اخبارات شائع ہوتے ہیں اور وہ تمام اخبارات بھارتی سرکار کے اشتہارات کے مرعون منت ہیں “ یعنی وہ اخبارات بھارتی بیانیہ پیش کرتے ہیں۔ پھر رقمطراز ہیں کہ ”جموں کشمیر 1947سے پہلے زرعی طور پر خودمختار ریاست تھی ۔۔۔۔بھارتی سرکار نے سامراجی منصوبوں کے تحت جموں کشمیر کی زرعی خودکفالت ختم کردی“
لکھتے ہیں کہ ”بھارتی سرکار کے پاس مقبوضہ کشمیر پر ناجائز قبضہ برقرار رکھنے کا ایک ہی آپشن ہے کہ مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلا جاسکے ،اب اسی آپشن کے تحت بھارتی سرکار سرعت کے ساتھ کام کررہی ہے“

”بھارت سرکار کروڑوں بھارتی ہندوﺅں کے مذہبی جذبات کا سیاسی استحصال کرکے ان کو یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ کشمیرہندﺅں کی اہم مذہبی جگہ ہے، اسطرح بھارتی سرکار کشمیر کو ہندﺅں کا مذہبی مسئلہ بنانا چاہتی ہے“

٭ مسئلہ کشمیر کا حل۔۔۔ڈاکٹر محمد قاسم کے نزدیک کیا ہے؟

”یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ جن اصولوں کی بنیاد پر برصغیر میں 1947میں مسلم اکثریتی ریاستوں اور صوبوں اور ہندواکثریتی ریاستوں اور صوبوں کی پاکستان اور متحدہ ہندو بھارت کی صورت میں تشکیل ہوئی انہی اصولوں کی بنیاد پر جموں کشمیر کے مستقبل کا تعین ہونا چاہیے“

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں