الیکشن 2018، پنجاب میں ’’ تحریک انصاف ‘‘کا مستقبل کیا ہوگا؟

پاکستان تحریک انصاف دوسری بڑی سیاسی قوت بن چکی ہے، جو پچھلے تین سال سے ہرانتخابی میدان میں پہلے یا دوسرے نمبر پر جبکہ حزب اختلاف کا کردار نبھانے میں پہلے نمبر پر براجمان ہے ۔ مگر کیا تحریک انصاف آئندہ حکومت بناسکے گی ؟ آئندہ حکومت بنانے کیلئے اس کی پنجاب میں پوزیشن کو دیکھنا ضروری ہے، ذیل میں اٹک سے صادق آباد تک پنجاب کے سیاسی میدان میں تحریک انصاف کی اننگز پر ایک جائزہ پیش کیا جارہا ہے، یقینا جس سے یہ سمجھنا آسان ہوگا کہ آئندہ جنرل انتخابات میں تحریک انصاف کے پنجاب سے جیتنے کے کتنے فیصد امکانات ہیں

راولپنڈی ڈویژن کی بات کریں تو ضلع اٹک کی معروف سیاسی شخصیت میجر (ر)طاہرصادق تحریک انصاف کا حصہ بننے جارہے ہیں ، جن کی بیٹی ایمان طاہر ضلعی چیئرپرسن ہیں ، ماضی میں طاہرصادق مسلم لیگ ق کا حصہ رہ چکے ہیں ، ان کی باقاعدہ شمولیت سے ضلع میں تحریک انصاف ناقابل شکست ہوجائے گی ۔ ضلع راولپنڈی میں بھی تحریک انصاف کے مسلم لیگ ن پر حاو ی ہونے کے امکان زیادہ ہیں ، شیخ رشید اپنی سیٹ پر قبضہ جمائے رکھیں گے جبکہ راولپنڈی شہر کی عوام مسلم لیگ ن کے رہنماءوں حنیف عباسی اور شکیل اعوان سے شدید بیزار نظرآتی ہے، جن پر مبینہ طور پر زمینوں کے قبضے کے الزامات بھی ہیں جبکہ اسلام آباد کی صورتحال کا جائزہ لیں تو عوام سے لاتعلقی اور دوری کے باعث ڈاکٹر طارق فضل چوہدری آئندہ سیٹ کھوسکتے ہیں اور اسلام آباد کے قومی اسمبلی کے دونوں حلقوں پر تحریک انصاف کی پوزیشن مضبوط نظرآتی ہے ۔ ضلع راولپنڈی کے ملحقہ علاقوں گجرخان، چکری ، ٹیکسلا، واہ کینٹ میں چوہدری نثار کا اثرورسوخ زیادہ ہے مگرخبریں یہ ہیں کہ آئندہ الیکشن میں چوہدری نثار متحرک کردار ادا نہیں کرپائیں گے، اگر وہ اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے تو مقابلہ سخت ہوگا ، بصورت دیگر تحریک انصاف کی پوزیشن مضبوط نظرآرہی ہے ۔ ضلع جہلم کی بات کی جائے تواین اے 63ضمنی انتخابات میں بھی تحریک انصاف کے فواد چوہدری نے 73ہزار جبکہ جیتنے والے مسلم لیگ ن کے امیدوار نے81ہزار ووٹ لیے ، الیکشن کے نتاءج یہ بتارہے ہیں کہ آئندہ مقابلے میں جب مسلم لیگ ن حکومتی اثرورسوخ کے بغیر اترے گی تو کانٹے کا مقابلہ ہوگا ۔ 29اگست 2017 کو عمران خان نے چکوال شہر کا دورہ کیا تھا، چکوال میں تحریک انصاف کو راجا یاسر سرفراز کی قیادت حاصل ہے، اسکے علاوہ بڑے سیاسی دھڑے جو ماضی میں مسلم لیگ ن کے شانہ بشانہ تھے تحریک انصاف کی صف میں شامل ہوچکے ہیں ۔ تحریک انصاف کیلئے چکوال اور جہلم میں مشکل یہ ہے کہ پارٹی کے اندر اختلافات ہیں ۔

گوجرانوالہ ڈویژن کی جانب آئیں تو سرائے عالمگیر سے لے کر وزیرآباد تک جتنے شہر جی ٹی روڈ کے آس پاس واقع ہیں وہاں مسلم لیگ قائداعظم اور تحریک انصاف کے اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے مسلم لیگ ن کا نقصان ہوگا ۔

ضلع منڈی بہاوالدین میں 2015 میں ہونے والے این اے108کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے ممتاز تارڑ30ہزار کی بھاری اکثریت سے فتح یاب ہوئے تھے ، مگر اس کی ایک بڑی وجہ تحریک انصاف کی تقسیم بھی تھی ، جبکہ پیپلزپارٹی نے بھی اس حلقے سے29ہزار ووٹ بٹورلئے تھے، تاہم آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ ن کیلئے چوہدری برادران اور تحریک انصاف کا اتحاد اورتحریک انصاف کے بچھڑے ہوئے ساتھیوں کی واپسی سے مقابلہ اچھا ہونے کی توقع ہے، مگر مسلم لیگ ن کی پوزیشن مضبوط رہے گی ۔ اسی ضلع سے پیپلزپارٹی کے نذر محمد گوندل تحریک انصاف میں شامل ہوئے، مگر ان کی شمولیت زیادہ نیک شگون نہیں ہے، پیر آف بکھی شریف کی وجہ سے مذہبی ووٹ بھی مسلم لیگ ن کو ملتا آیا ہے، تاہم نومولود جماعت تحریک لبیک کی وجہ سے آئندہ انتخابات سے میں مسلم لیگ کو شاید مذہبی ووٹ نہ ملے ۔ وفاقی وزیر صحت سائرہ افضل تارڑ کے ضلع حافظ آباد میں مسلم لیگ ن کی پوزیشن بظاہر مضبوط ہے، یہاں پر تحریک انصاف کے ہمسفر ماضی کے ق لیگ کے اہم رہنما مہدی بھٹی ہیں ، تاہم علاقے کی عوام انہیں ایک دفعہ پہلے بھی آزما چکی ہے ۔ سال2014 میں ہونے والے صوبائی اسمبلی کے حلقہ 107سے تحریک انصاف کی امیدوار نگہت انتصار نے 6ہزار کی برتری سے فتح حاصل کی تھی ۔ ضلع سیالکوٹ اور ضلع نارووال میں مسلم لیگ ن کے وفاقی وزراء خواجہ آصف اور احسن اقبال کی نشستیں محفوظ رہیں گی تاہم باقی نشستوں پر تحریک انصاف کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوا ہے ۔ سیالکوٹ سے فردوس عاشق اعوان بھی تحریک انصاف کا حصہ بن چکی ہیں ۔ ضلع گوجرانوالہ مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا ہے ، گوجرانوالہ سے لے کر شاہدرہ تک جی ٹی روڈ کی پٹی میں مسلم لیگ ن 60فیصد جبکہ تحریک انصاف40فیصد ہے، اس پٹی پر تحریک انصاف کو زیادہ محنت کرنا پڑے گی ۔

پنجاب کے دل لاہور کی بات کریں تو لاہور سیاسی طور پر دو حصوں میں تقسیم نظرآتا ہے ۔ ٹاءون شپ، گلبرگ، ماڈل ٹاءون ، ڈی ایچ اے، ڈیفنس، لاہور کینٹ میں تحریک انصاف جبکہ اندرون لاہور کے تمام علاقوں میں مسلم لیگ ن کامیاب ہوگی، حلقہ این اے 122 اور 120 کے ضمنی انتخابات سے صورتحال واضح ہورہی ہے کہ تمام تر حکومتی اختیارات کے استعمال کے باوجود یہ سیٹیں نکالنا مسلم لیگ ن کیلئے معرکے سے کم نہ تھا ۔ تحریک انصاف کے شفقت محمود، چوہدری سرور، ڈاکٹر یاسمین راشد، علیم خان تحریک انصاف کے مضبوط امیدواروں کے طور پر سامنے آئیں گے ۔ لاہور کے اطراف میں مسلم لیگ ن کی پوزیشن مضبوط ہے ، قصور میں تحریک انصاف کی بانی رہنما فوزیہ قصوری ناراض جبکہ تحریک انصاف کے رہنما سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری حلقے سے گمشدہ ہی رہے، ضلع شیخوپورہ ، ضلع ننکانہ میں تحریک انصاف نے خاطرخواہ توجہ نہیں دی ہے ۔ فیصل آباد مسلم لیگ ن کے رہنماءوں کا گڑھ ہے ، وہاں وفاقی و صوبائی کیبنٹ کی فوج ظفر موج موجود ہے ۔ تحریک انصاف کی بات کریں تو جولائی2016 میں فیصل آباد میں پارٹی کے ضلعی صدر رانا احمد راحیل پارٹی چھوڑ گئے تھے ۔

تحریک انصاف کے ضمنی انتخابات میں جیتنے والے بیشتر پارٹی اراکین نے بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ ن کو ضلعی چیئرمین کیلئے ووٹ کاسٹ کردیئے تھے ۔ جس پر عمران خان نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا تھا ۔ اس تمام صورتحال کے باوجود تحریک انصاف کے پاس کئی چہرے موجود ہیں جن میں سابق ایم این اے صفدر شاکر، مسلم لیگ ن کے سابق ضلعی صدر جاوید نیاز منج ، سابق ایم پی اے خالد امتیاز بلوچ، سابق وفاقی وزیر راجا نادر پرویز( جنہوں نے پی پی 72 میں تحریک انصاف کی جیت میں کلیدی کردار ادا کیا تھا)، جہانزیب امتیاز گل، فیض کاموکا، اسد معظم ، شمشیر وٹو، سابق وزیر وصی ظفر ، سابق ایم این اے ناصر اکبر، سابق وزیر آصف توصیف، جبکہ سابق صوبائی وزیر چوہدری ظہیرالدین فیصل آباد میں تحریک انصاف کے شانہ بشانہ ہیں ۔ ضلع چنیوٹ ، ضلع جنگ اور ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں دونوں جماعتوں کے درمیان مقابلہ کہیں ٹھنڈا کہیں گرم ہوگا ۔ ضلع جھنگ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کالعدم تنظیموں کا سیاسی ووٹ بینک موجود ہے، دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی کالعدم تنظیموں کے حوالے سے آئندہ پالیسی کیا ہوگا;238; جس کا براہ راست اثر یہاں ان کے ووٹ پر پڑے گا ۔

سرگودھا ڈویژن کی بات کریں تو ضلع سرگودھا میں سلانوالی،بھیرہ، شاہ پور اور ساہیوال میں مسلم لیگ ن کی پوزیشن مضبوط جبکہ سرگودھا شہر، کوٹ مومن اوربھلوال میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن میں کڑے مقابلے کی توقع ہے ۔ چن برادر ی کی بھی تحریک انصاف میں شمولیت سے خاطرخواہ نتاءج سامنے آئیں گے ۔ ضلع خوشاب اور میانوالی میں تحریک انصاف کی پوزیشن مضبوط ہے، میانوالی سے عمران خان خود بھی الیکشن لڑیں گے ۔ ضلع بھکر کی بات کریں توپی پی48کے ضمنی انتخابات میں یہاں سے مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ امیدوار امان اللہ خان نیازی نے پہلی، تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار احمد نواز نے دوسری جبکہ عوامی تحریک کے امیدوار نذر کہاوڑ نے تیسری پوزیشن حاصل کی تھی ۔ آئندہ عام انتخابات میں تحریک انصاف کو عوامی تحریک کی حمایت سے یہاں کامیابی مل پائے گی ۔ ساہیوال ڈویژن کے تمام اضلاع میں 60اور چالیس کے تناسب سے مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف موجود ہے ۔

جنوبی پنجاب کی بات کریں تو یہاں تین ڈویژنز جن میں ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان شامل ہیں کی ماضی کے بڑے سیاسی دھڑے اس وقت تحریک انصاف کے ساتھ ہیں ، مگر سوال یہ ہے کہ ماضی کے سیاسی دھڑوں کے مردہ جسم میں کیا جان آسکے گی;238; یہاں تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی اور جہانگیر خان ترین کا اثروروسوخ ٹکٹوں کی تقسیم میں زیادہ ہوگا ۔ لودھراں کے ضمنی انتخابات میں جہانگیر ترین نے 14ہزار ووٹوں کی برتری سے کامیابی حاصل کی تھی ۔ جبکہ ملتان کے این اے 153 میں 60ہزار سے زائد کی واضح برتری سے مسلم لیگ ن کے رانا محمد قاسم کامیاب ہوئے تھے ۔ وہاڑی کے صوبائی حلقہ 232 میں مسلم لیگ ن کے محمد یوسف کسیلہ نے صرف ایک ہزار کی برتری سے بمشکل جیت حاصل کی تھی ۔ ان نتاءج سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ملتان اور بہاولپور ڈویژن میں مسلم لیگ ن کیلئے سیٹیں نکالنا ماضی کی طرح آسان نہیں ہوگا، جبکہ ڈیرہ غازی خان میں مسلم لیگ ن با آسانی جیت جائے گی ۔ آزاد ممبر قومی اسمبلی جمشید دستی کے بھی تحریک انصاف میں شمولیت کے امکانات ہیں ۔ اٹک سے لے کر صادق آباد تک کے پنجاب کے سیاسی اکھاڑے میں مسلم لیگ ن کا تحریک انصاف سے کڑا مقابلہ ہوگا، تحریک انصاف کو سب سے بڑا مسئلہ ٹکٹوں کی تقسیم اور انتخابی حکمت عملی کا ہے، اگر ہر حلقے میں تحریک انصاف مناسب امیدواروں کو ٹکٹ دے گی اور انتخابات کے بعد دھاندلی کا رونا رونے کے بجائے مناسب منصوبہ بندی کرے گی تو پنجاب کے سیاسی میدان میں انقلاب بھی برپا کرسکتی ہے ۔

تحریک انصاف کیلئے سب سے بڑی خوش قسمتی اس وقت یہ ہے کہ ان کے پاس کلین فیلڈ ہے جہاں وہ اپنی مرضی سے باءولنگ اور بیٹنگ کرسکتے ہیں مگر فروری کے بعد ان کی مرضی نہیں چلے گی تب تک میاں نوازشریف بھی میدان میں آچکے ہوں گے ۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ملی مسلم لیگ اور تحریک لبیک یارسول اللہ نے اگر پنجاب بھر میں اپنے امیدوار کھڑے کردیئے تو وہ مسلم لیگ ن کا ووٹ توڑنے کا ذریعہ بنیں گے جس کا براہ راست فائدہ تحریک انصاف کا امیدواراٹھائے گا ۔ مسلم لیگ ق، پاکستان عوامی تحریک،سنی اتحاد کونسل جیسی جماعتیں بھی تحریک انصاف کے ساتھ کھڑی ہوں گی جبکہ جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی کے میدان میں ہونے یا نہ ہونے کا مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف دونوں کو کوئی نقصان نہیں ہوگا ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں