مذہبی رہنماوں کے گرد گھومتی قومی سیاست

گزشتہ ایک ماہ سے قومی سیاست کامرکز ومحور مذہبی شخصیات رہی ہیں ، چاہے خادم حسین رضوی کا اسلام آباد دھرنا ہو، یا اشرف آصف جلالی کا لاہور میں مظاہرہ، پیر حمید الدین سیالوی کا پاور شو ہو یا پیرامین الحسنات اور پیر آف گولڑہ کا ثالثی کردار ، ڈاکٹر طاہرالقادری کی دھواں دار سیاسی سرگرمیاں ہوں یا مولانا سمیع الحق کا تحریک انصاف کے ساتھ ایکا، سندھ میں پیرپگاڑا کی زیرقیادت ڈیموکریٹک الائنس ہو، فضل الرحمن اور سراج الحق کی ایم ایم اے بحالی کی کوششیں ہوں یا جماعۃ الدعوۃ کے امیر حافظ سعید کی ضمانت کی منظوری ،ہر سٹیج پر مذہبی رہنماءوں کی سیاسی واپسی اس امر کی جانب اشارہ کررہی ہے کہ پاکستان میں مذہبی سیاست کا خاتمہ ممکن نہیں اور یہ دعویٰ کرنیوالے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں ۔ پاکستان بنانے میں علمائے کرام اور پیران گرامی کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ، یقینا یہ کردار فرقوں اور مسالک کی تفریق سے بالاتر تھا ، اگر جدوجہد آزادی میں کلیدی کردار ادا کرنے والے علمائے کرام کی فہرست پیش کریں تو گنجائش ختم ہوجائے گی ، مگر چیدہ چیدہ علمائے کرام میں امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ، مولانا نعیم الدین مراد آبادی، سید محمد محدث کچھوچھوی، مولانا عبدالحامد بدایونی ، مولانا عبدالغفور ہزاروی، مولانا عبدالحا مدبدایونی،پیر عبداللطیف زکوڑی شریف، پیرآف مانکی شریف ، خواجہ قمر الدین سیالوی، پیر صاحب گولڑہ شریف، پیر آف تونسہ شریف ، پیر صاحب مکھڈشریف ، علامہ شبیر احمدعثمانی ، مولانا اشرف علی تھانوی اورمفتی محمد شفیع عثمانی شامل ہیں ، جن کے تذکرے تاریخ کی کتابوں میں ملتے ہیں ۔ اگر ہم پاکستان بنانے والی جماعت کی بات کریں تو قائداعظم محمد علی جناح کی مسلم لیگ ایک مکمل جماعت تھی ، جس میں ہر طبقے، رنگ و نسل اور فرقے کے مسلمان ، بطور مسلمان اس کے ممبر تھے جبکہ اقلیتوں کیلئے بھی خصوصی نمائندگی شامل تھی ، گویا ایک حقیقی اسلامی چھتری کے اندر اتحاد و اتفاق کی رسی کیساتھ سب مضبوطی سے جڑے تھے ۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان بننے کے بعد ہمارے اندر جہاں ہر سطح پر تقسیم کے بیج بوئے گئے وہیں سیاست اور مذہب کو جدا کرکے مذہبی سیاست کو قابل نفرت بنادیا گیا، اس میں مذہبی رہنماءوں کی بھی سنگین غلطیاں شامل ہیں مذہبی سیاست کو فرقہ واریت کا رنگ ملا اوربڑے بڑے علمائے کرام اور پیران کرام کے جانشینوں کی سیاست اپنے اپنے کنویں یا ڈیڑھ انچ کی مسجد میں بند ہوکر رہ گئی ۔ سیاست کو مذہب سے جدا کرنے کے نتیجے میں دائیں اور بائیں کی واضح تقسیم نے جنم لیا ۔ ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ دائیں بازو والے بھی بایاں بازو رکھتے ہیں ۔ اسلام کا نام لینے والوں نے یہ کیسے تسلیم کرلیا کہ دین اسلام کا صرف ایک بازو ہوتا ہے اور بائیں بازو والے بھی دائیں کے بغیر فکری ، نظریاتی اور اعتقادی بنیادوں پر معذور ہوجاتے ہیں ۔ ہم نے نہیں سوچا کہ سیاست جب ایک بازو سے محروم ہی ہوگی تو معذور سیاست سے معذور معاشرہ جنم لے گا اور معذور نظریات ہمارے وطن کی جڑوں کو کھوکھلا کریں گے اور ہمارے ساتھ 70سال سے یہی ہورہا ہے ۔ مصور پاکستان علامہ محمد اقبال نے دین اور سیاست کے بارے میں کہا تھا کہ ’’جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی ‘‘ اور مسلم قوم کی بقا کا راز بھی بتایا کہ قوم مذہب سے ہے ، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں ۔ یہی پیغام انہوں نے ایک اور جگہ اس انداز میں دیا کہ ہم مغرب کی تقلید کے بجائے اپنی بنیادوں پر ہی رہیں گے تو ہمارے بقا ہوگی ،بقول ’’خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی ﷺ ‘‘ ۔ ۔ ۔

آئیے اب ہم گزشتہ 70سالوں میں علمائے کرام اور سیاست دانوں کے مذہبی امور اور کردار پر سرسری جائزہ لیتے ہیں تاکہ ہم کسی نتیجے پر پہنچ سکیں اور تعین کرسکیں کہ ہم سے آخر کہاں غلطیاں ہوئی ہیں ۔ ختم نبوت ;248;کے حلف نامے پر جنم لینی والی موجودہ تحریک نئی نہیں تھی ، ایسا کچھ ہ میں 1953 میں دیکھنے کو ملا تھا جب لاہور کے دہلی دروزاے کے سامنے احتجاج میں لاشیں اٹھائی گئیں ، لاہور سمیت ملک کے دوسرے شہروں میں مظاہروں میں ایسی شدت دیکھنے کو ملی جس کی مثال اس نوزائیدہ مملکت میں پہلے دیکھنے کو نہیں ملی ، بڑا سوالیہ نشان ہے کہ آخر پاکستان بننے کے 6سال بعد ہی اسلام کے نام لیواءوں کے دیس میں ایک اسلامی مسئلے پر پرتشدد مظاہرے کیوں ہوئے اور لاشیں کیوں گریں تو اس سوال کا جواب یہی ہوگا کہ ہم نے ابتداء ہی میں اپنی بنیاد میں جو تقسیم کی لیکر کھینچی تھی اس کا پہلا پیش منظر تھا، تحریک ختم نبوت1985تک مختلف موقع پر چلتی رہی ، بالاخر 1973اور بعد ازاں 1985 میں کی گئی ترامیم سے مسئلہ حل ہوا، جس میں قادیانیوں کی حیثیت غیرمسلم قرارپائی ۔ 70کی دہائی میں تحریک نظام مصطفی ﷺ نے جنم لیا، بڑے علمائے کرام کو سڑکوں پر دیکھا گیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید نے علمائے کرام کی مہم کو زیادہ اہمیت نہیں دی اور اپنے دھن میں مگن رہے لیکن انہیں بھی شاید معلوم نہ تھا کہ جو چنگاری علمائے کرام نے لگادی تھی جسے بھڑکانے میں 31مارچ1977کے پرتشدد مظاہروں اور ریاستی دہشتگردی نے کردار ادا کیا وہ ان کے اقتدار کے خاتمے کا سبب بن جائے گی ۔ ابتداء میں یہ تحریک دھاندلی کے خلاف تھی جو موثر نہ ہوئی، مگر جب اسے مذہبی رنگ ملا تو خیبر سے کراچی سے عوام سڑکوں پر نکلنے کو تیار ہوگئی ۔ مولانا شاہ احمد نورانی ، مولانا عبدالستار خان نیازی ، مولانا مفتی محمودسمیت پیران کرام ، علمائے کرام ، مدارس دینیہ کے طالب علم اور ان کے ساتھ ہر مسلمان متحرک ہوا، نتیجہ مارشل لاء کی صورت میں نکلا اور جنرل ضیا ء الحق علمائے کرام کے سردار بن کر ابھرے اور90روز میں اسلامی نظام کے نفاذ کا وعدہ کیا ۔ نظام مصطفی ﷺ کا نفاذ تو نہ ہوا مگر ضیاء الحق نے جہاد کے جذبے کو جگا کر مذہبی عناصر کو ایک نئی سمت دھکیل دیا ۔ ہم حقیقی اسلامی جذبے کے تحت لڑنے مرنے کو تیار ہوئے اور غیروں کی جنگ میں پھنس گئے اور آج چالیس سال بھی اس جنگ کو بھگت رہے ہیں ۔ تحریک نظام مصطفی ﷺ چلانے والی جماعتیں ، قائدین اور شخصیات منظرعام پر تو رہیں مگر ان کے اندر تقسیم ہوگئی ، یہاں سے دائیں بازو کے بھی ٹکڑے ہوئے ۔ کچھ کو ہم نے جہاد پر لگادیا، کچھ سیاست سے علیحدہ ہوگئے اور کچھ سیاست میں نئی پہچان اور نیا علم لے کر چلنا شروع ہوگئے ۔ جنرل صاحب 17 اگست 1988ء کو ہوائی حادثے میں جاں بحق ہوگئے ۔ 1988ء کے انتخابات کے بعد محترمہ بے نظیر وزیراعظم منتخب ہوگئیں ۔ نظام مصطفی ﷺ کے نام لیواءوں کے ایک طبقے نے عورت کی حکمرانی کیخلاف فتوی دینا شروع کردیا اور علمائے کرا م کی ایک بڑی تعداد نئی مسلم لیگ کی چھتری کیساتھ یا تو ضم ہوگئی یا پھر اتحاد کرلیا ۔ اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے9 ستارے سامنے آگئے ۔ اسی عرصے میں ڈاکٹر طاہرالقادری کا سیاسی جنم ہوا ، اور1989 میں وہ عملی طور پر سیاست میں آگئے ۔ یہاں سے اگر ہم جماعتوں کا انفرادی تجزیہ کریں تو جمیعت علمائے اسلام کا یہ شیوہ بن گیا کہ وہ ہمیشہ حکمران کے ساتھ شانہ بشانہ رہے ،جماعت اسلامی کبھی یہاں کبھی وہاں کی سیاست کرتی رہی اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی سیٹیں کم سے کم ہوتی رہیں اور آج قومی اسمبلی میں ان کی حالت زار سب کے سامنے ہے ۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی پاکستان عوامی تحریک نے90 میں الیکشن لڑا ، ناکامی ہوئی مگر90کی دہائی میں ڈاکٹر طاہرالقادری کی سیاست میں حکومتوں کیلئے ایک بڑے پریشر گروپ کا کردار ادا کیا ۔ ڈاکٹر طاہرالقادری حیران کن طور پر بائیں بازو کی سمجھی جانیوالی جماعتوں کے قریب رہے اور عوامی اتحاد بھی انہی کے ساتھ بنایا جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو ، نوابزادہ نصر اللہ خان اور عمران خان سمیت14جماعتیں ان کے ساتھ شامل تھیں ۔ 90کی دہائی میں مذہبی جماعتیں روبہ زوال رہیں اور ہم نے مشرف کے مارشل لاء کے ساتھ21ویں صدی میں قدم رکھا ۔ 50کی دہائی میں تحریک ختم نبوت، 70کی دہائی میں تحریک نظام مصطفی ،80کی دہائی میں مرد مومن مردحق ضیاء الحق ، 90کی دہائی میں اسلامی جمہوری اتحاد بنانے والی جماعتوں کی اکثریت نے اکیسیویں صدی کے آغاز میں متحدہ مجلس عمل کی بنیاد رکھ ڈالی ۔ یہ اتحاد دینی جماعتوں کا تھا جس میں جمعیت علمائے اسلام،تحریک جعفریہ پاکستان ،جمعیت علمائے اسلام (ف)،جمعیت اہل حدیث اور جماعت اسلامی پاکستان شامل تھے، جنہوں نے پرویز مشرف کی حمایت کی ۔ ڈاکٹر طاہرالقادر ی یہاں بھی انفرادی سیاست کرتے رہے ، ابتداء میں انہوں نے پرویز مشرف کا ساتھ دیا اور ریفرنڈم میں بھرپور حصہ لیا ، الیکشن2002 میں حصہ لیا اور ایک ہی سیٹ جیت سکے جو انہوں نے 2004 میں چھوڑ دی اور عملی طور پر سیاست سے علیحدہ ہی ہوگئے ۔ مشرف کا اقتدار غروب ہوا، مذہبی جماعتوں کا عمل دخل مزید کم ہوتا گیا ، جمیعت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں بھی ان کا حصہ رہے ۔ حکومت کے چوتھے سال 2012 میں ڈاکٹر طاہرالقادری کی عملی سیاست میں 8سال بعد واپسی ہوئی اور وہ ایک بار پھر ایک بڑے پریشر گرو پ کے طور پر سامنے آگئے ۔ سال 2013 میں نوازشریف کے اقتدار سے آیا ، اس دس سالہ دورانیے میں مذہبی ووٹ بینک دوبارہ مسلم لیگ ن کی جانب شفٹ ہوا ۔ 2013کے بعد جماعت اسلامی نے تحریک انصاف اور جمیعت علمائے اسلام نے مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد کرلیا، جبکہ ڈاکٹر طاہرالقادری اور تحریک انصاف نے حکومت مخالف مشترکہ جدوجہد کی ۔ اسی دوران 17جون2014کو سانحہ ماڈل ٹاءون پیش آگیا ، جو حکومت کیلئے گلے کی ہڈی بن گیا ۔ مذہبی سیاست کا جو منظرنامہ ہم نے آپ کے سامنے پیش کیا اس سے کوئی بھی ذی شعور یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ پاکستان کے سیاسی و مذہبی قائدین مذہب کو سیاست اور مفادات کیلئے استعمال کرتے رہے،کون کہاں اور کیسے استعمال ہوا، کس کی سیاست درست سمت رہی اور کون غلط سمت سفر کرتا رہا اس کا فیصلہ ہم آپ پر چھوڑتے ہیں ۔ حالات حاضرہ کی بات کریں تو ایک بار پھر مذہبی رہنماءوں کو پذیرائی مل رہی ہے ، مولانا فضل الرحمن نے متحدہ مجلس عمل بحال کرنے کا اعلان کردیا ہے، جماعت اسلامی ، تحریک جعفریہ،جمیعت اہلحدیث اور جمیعت علمائے پاکستان ان کے ساتھ شانہ بشانہ ہے ۔ دوسری جانب تحریک انصاف نے مولانا سمیع الحق کے ساتھ معاملات طے کیے ہیں ۔ ڈاکٹر طاہرالقادری سانحہ ماڈل ٹاءون کے انصاف کے حصول کے لئے یک نکاتی ایجنڈے پر کام کررہے ہیں اس مشن میں اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتیں ان کے ساتھ کھڑی ہیں ، مذہبی جماعتوں میں مجلس وحدت المسلمین ، سنی اتحاد کونسل اور جماعت اسلامی نے ان کا ساتھ دینے کا عندیہ دیا ہے ۔ حافظ سعید کی نظربندی کے بعد ان کی جانب سے سیاست میں آنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے، ملی مسلم لیگ کی رجسٹریشن کے بعد وہ اس جماعت میں شامل ہوں گے اور ان کیلئے مرکزی عہدے کا انتخاب کیا جائے گا ۔ تحریک لبیک بھی سیاسی میدان میں ہے، ادھر کراچی میں سنی تحریک نے بھی اتحاد کیلئے رابطے شروع کردیئے ہیں ، سندھی جماعتوں کی سربراہی بھی نیم مذہبی جماعت مسلم لیگ فنگشنل کو حاصل ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتیں مذہبی جماعتوں کے رحم وکرم پر ہیں ، یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کا ووٹ مذہبی ہے کیونکہ مذہب کی بنیاد پر بننے والا پاکستان اپنی بنیاد کیساتھ ہی کھڑا ہے ۔ سال 2018ملکی نظام کیلئے بڑے فیصلوں کا سال ثابت ہونے والا ہے ایسے میں تمام سٹیک ہولڈرز کو چاہیے کہ پاکستان کو تقسیم کی جانب لے جانے کے بجائے مذہب اور سیاست کے حسین امتزاج کیساتھ آگے بڑھا جائے ۔ تمام تر سیاسی جماعتوں کو جامع اصلاحات کی ضرورت ہے ، وہی جماعتیں پاکستان کے مفاد میں ہوں گی جو دائیں اور بائیں بازو کو ایک ساتھ لے کرچلیں گی ۔ آج ہ میں ایک بار پھر مثالی اتحاد کی ضرورت ہے جو پاکستان بناتے وقت مسلمانان برصغیر میں دیکھنے کو ملا ۔ ہ میں اتحاد کی لڑی میں پرونے کیلئے باہر سے کوئی نہیں آئے گا، ہ میں ہی اپنی اصل کی جانب لوٹ کر جمہوری، سیاسی یا مذہبی بہروپیوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا اور حقیقی قیادت کے انتخاب کیساتھ جناح کی حقیقی پاکستان کی خواب کی جانب لوٹنا ہوگا ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں